روس کے سوخوئی 35 لڑاکا طیارے جو ایران کے خلاف اسرائیلی کارروائیاں مشکل بنا سکتے ہیں

ایران اس سے قبل روس کو جنگی ڈرون دے چکا ہے اور روسی فوج انھیں یوکرین پر حملے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے روس کو ہتھیاروں کی دیگر چھوٹی چھوٹی کھیپیں بھیجی ہیں۔ لیکن اس فوجی اور تکنیکی تعاون کو اعلیٰ سطح تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
getty
Getty Images
سوخوئی لڑاکا طیارہ

تہران اور ماسکو کے درمیان عسکری اور تکنیکی تعاون یوکرین کی جنگ سے جاری ہے جس کا آغاز سنہ 2022 میں روسی حملے سے ہوا تھا اور اب اس کا تعلق ایران کے اسرائیل پر حملوں میں بھی نظر آ رہا ہے۔

ایران اس سے قبل روس کو جنگی ڈرون دے چکا ہے اور روسی فوج انھیں یوکرین پر حملے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے روس کو ہتھیاروں کی دیگر چھوٹی چھوٹی کھیپیں بھیجی ہیں۔

لیکن اس فوجی اور تکنیکی تعاون کو اعلیٰ سطح تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر روس ایران کو کچھ سوخوئی 35 (فلانکر) لڑاکا طیارے فروخت کر سکتا ہے۔ یہ طیارہ اصل میں مصر کو فروخت کے لیے بنایا گیا تھا لیکن ان دونوں ملکوں کے درمیان معاہدے پر کبھی عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ ایران نے ان جنگی طیاروں کو خریدنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔

اگر ایران کو یہ لڑاکا طیارے مل گئے تو ایران کے خلاف کسی بھی ملک کی فضائی کارروائیاں مزید مشکل ہو جائیں گی۔ اس وقت ایرانی فضائیہ کے پاس صرف چند درجن جنگی طیارے ہیں، جن میں سے زیادہ تر پرانے روسی اور امریکی ماڈلز ہیں جو اسلامی انقلاب سنہ 1979 سے پہلے کے دور کے ہیں۔

سوخوئی ایس یو-35 روسی فضائیہ کے جدید ترین طیاروں میں سے ایک ہے، یہ ایک بھاری بھرکم سپرسونک لڑاکا طیارہ ہے جو 70 فٹ سے زیادہ لمبا ہے۔ سوخوئی ایس یو-35 جب ہوا میں محوِ پرواز ہوتا ہے تو اس کا وزن 35 ٹن تک جا سکتا ہے۔

اس طیارے میں دو انجن ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک انجن 31000 پاؤنڈز جتنی طاقت فراہم کر سکتا ہے، بھاری بھرکم ہونے کے باوجود یہ جہاز پلک جھکتے ہی اپنی سمت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

روسی صدر پوتن اور ایرانی سربراہ اعلی علی خامنہ ای
Getty Images
روسی صدر پوتن اور ایرانی سربراہ اعلی علی خامنہ ای

سنہ 2023 کے موسم بہار میں ایرانی ریڈیو نے اقوام متحدہ میں ایران کے وفد میں شامل نامعلوم رکن کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی کہ جنگی طیاروں کا معاہدہ ہو گیا ہے، لیکن اس کے بعد سے ایران کی جانب سے طیاروں کی فراہمی کے متعلق کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی۔

فی الحال اس قسم کے 20 سے زیادہ لڑاکا طیارے کومسومولسک-آن-آمور ہوائی جہاز کے کارخانے کے ہوائی اڈے پر کھڑے ہیں۔ ان لڑاکا طیاروں کو گوگل میپس پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

روس ایران کو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم پنتسیر۔ ایس ون جیسے فضائی دفاعی نظام بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ نظام طویل فاصلے تک مار کرنے والے دفاعی نظام اور دیگر اہم اہداف کو اسرائیلی میزائل حملوں سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہونگے۔

خفیہ امریکی دستاویزات کے مطابق سنہ 2023 میں روسی کرائے کے جنگجو ویگنر گروپ کی جانب سے اس نظام کو حزب اللہ یا ایران کو منتقل کرنے کا منصوبہ تھا۔

اس وقت امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اعلان کیا تھا کہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں امریکہ ’روسی افراد اور اداروں کے خلاف انسداد دہشت گردی پابندیاں لگانے کے لیے تیار ہے۔‘

ابھی تک اس منصوبے پر عمل درآمد کے بارے میں کوئی رپورٹ شائع نہیں ہوئی۔

دوسری طرف ایران، روس کو آپریشنل ٹیکٹیکل یا کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل بھیج سکتا ہے۔ روسی فوجی ہتھیاروں میں ایسے میزائلوں کا اضافہ یوکرین میں جنگ کی موجودہ حالت پر خاصا اثر ڈالے گا۔

اسرائیل کے ساتھ جنگ کی صورت میں ایران جو اس ملک سے تقریباً ایک ہزار کلومیٹر دور ہے، کو درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ضرورت ہو گی۔ دوسری جانب روس کو 500 کلومیٹر سے کم رینج والے ٹیکٹیکل یا کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے روس کو ایسے آلات کی منتقلی سے ایران کی اسرائیل پر حملہ کرنے کی صلاحیت متاثر نہیں ہوگی۔

یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے کہ اس نے ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان مزید سفارتی تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ گذشتہ ماہ ستمبر کے اوائل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو روسی سرزمین پر اہداف کے خلاف امریکی میزائل استعمال کرنے کی اجازت دینے پر غور کیا۔

اس وقت امریکہ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے سرکاری طور پر ایران پر روس کو بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کا الزام لگایا تھا۔ میڈیا میں شائع ہونے والی اطلاعات کے مطابق یہ میزائل پہلے ہی روس پہنچ چکے تھے۔

اگرچہ کیئو کو روس کے اندر اہداف پر حملہ کرنے کے لیے مغربی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہیں ملی ہے لیکن ماسکو نے یوکرین میں ایرانی میزائل استعمال کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔

ایران نے سرکاری طور پر ان میزائلوں کو روس بھیجنے کی تردید کی ہے۔

لڑاکا طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کی ممکنہ فروخت ہتھیاروں کے سب سے بڑے سودے ہیں جو میڈیا کو لیک ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ان پر یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

لیکن اس طرح کی مساوات کا امکان ایران اور روس کے درمیان فوجی اور تکنیکی تعاون کی اعلیٰ صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے جو کہ خطے کے حالات کو متاثر کرتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ تعاون اسرائیل کے مفادات کو متاثر کرتا ہے۔ اگرچہ روس کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات اتنے کم اور کشیدہ نہیں ہیں جتنے ان کے دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن یہ اتنے قریبی بھی نہیں ہیں۔

دوسری جانب یوکرین کی جانب سے بار بار درخواست کے باوجود آج تک اسرائیل نے یوکرین کو مہلک ہتھیار نہیں پہنچائے ہیں۔ کم از کم عوامی سطح پر تو ایسا نہیں ہوا ہے۔

یوکرین خاص طور پر اسرائیل کے موثر فضائی دفاعی نظام جیسے آئرن ڈوم میں دلچسپی رکھتا ہے۔

اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل ان سسٹمز کو اپنے فعال فوجی دستوں سے لے کر یوکرین بھیجے گا، لیکن یہ سسٹم برآمد کے لیے بھی تیار کیے گئے ہیں اور اس وقت ان کے دو یونٹ امریکہ میں موجود ہیں جو اسرائیل کی رضامندی کی صورت میں یوکرین بھیجے جا سکتے ہیں۔

اب تک اسرائیل نے یوکرین کو قابل ذکر فوجی امداد فراہم نہیں کی ہے اور صرف انسانی امداد بھیجنے پر اکتفا کیا ہے۔

فروری سنہ 2023 میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا کہ وہ یوکرین کو فوجی امداد فراہم کرنے پر غور کر سکتے ہیں لیکن امداد کی قسم کی وضاحت نہیں کی۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔

مشرق وسطی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے
Reuters
مشرق وسطی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تناؤ بڑھ رہا ہے

شام میں دونوں ممالک کی فضائی افواج کی بیک وقت کارروائیوں کی وجہ سے اسرائیل اور روس کے تعلقات مزید پیچیدہ ہو گئے ہیں۔

ان کے طیارے اکثر ایک دوسرے کے قریب سے پرواز کرتے ہیں، اور انھیں 2018 میں روسی جاسوس طیارے کو مار گرانے جیسے واقعات سے بچنے کے لیے مسلسل ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

اس واقعے میں اگرچہ شامی فضائی دفاع نے طیارہ غلطی سے مار گرایا تھا لیکن روس نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی جنگجو قریب ہی تھے اور شام کے فضائی دفاع کا اصل ہدف تھے۔

مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی تعلقات اس قدر پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ کوئی بھی اہم مداخلت دوسرے ممالک کے ساتھ مسائل کی ایک نئی کڑی کا باعث بن سکتی ہے۔

بہر حال ایسا لگتا ہے کہ ماسکو اور تہران نے خطے میں کسی بھی تنازعے میں اضافے سے پہلے تمام تفصیلات پر بات چیت کرنے کی کوشش کی ہے۔

30 ستمبر کو روس کے وزیر اعظم میخائل میشوستین نے تہران کا دورہ کیا۔ روسی اخبار 'ویدو موستی' کے مطابق اس دورے کا مقصد روس اور ایران کے درمیان تعاون کے مکمل دائرہ کار کا جائزہ لینا تھا اور اس کی خصوصی توجہ نقل و حمل، توانائی، صنعت اور زراعت کے شعبوں میں مشترکہ بڑے پروجیکٹوں پر تھی۔

یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا اس سفر میں فوجی ٹیکنالوجی پر بھی تبادلۂ خیال شامل ہوگا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.