اسرائیل کی دفاعی امداد روکنے کی دھمکی کیا ٹوٹتے وعدوں پر امریکہ کے غصے کا اظہار ہے؟

امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو لکھے گئے خط کے بعد شمالی غزہ میں گذشتہ دو ہفتوں میں پہلی مرتبہ امداد داخل ہوئی۔ اس خط میں اسرائیل کو امداد میں اضافہ کرنے یا فوجی امداد ختم کرنے کے لیے 30 روز کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔
غزہ
Getty Images

امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو لکھے گئے خط کے بعد شمالی غزہ میں گذشتہ دو ہفتوں میں پہلی مرتبہ امداد داخل ہوئی۔ اس خط میں اسرائیل کے لیے امداد میں اضافہ کرنے یا فوجی امداد ختم کرنے کے لیے 30 روز کا الٹی میٹم دیا گیا تھا۔

یہ خط بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل پر غزہ میں امداد جانے سے روکنے پر کی جانے والی سب سے زیادہ عوامی تنقید ہے۔ اس پر سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن اور وزیرِ دفاع لائڈ آسٹن نے دستخط کیے تھے اور یہ ایک پرائیویٹ مراسلہ تھا جسے کچھ اسرائیلی صحافیوں کی جانب سے لیک کیا گیا۔

اس خط میں انتہائی مفصل انداز میں امداد کی ترسیل میں حائل اسرائیلی رکاوٹوں کے بارے میں بات کی گئی اور کیسے عام شہریوں کی جبری منتقلی نے 17 لاکھ فلسطینیوں میں امراض کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھا دیا۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نئے مجوزہ قوانین کے حوالے سے ’بہت فکرمند‘ ہے جن میں ’چند مراعات اور استثنیٰ ختم کرنے‘ کی بات کی گئی ہے۔

اس خط میں یہ تفصیل سے درج ہے کہ ’امریکی حکومت کو غزہ میں انسانی فلاح و بہبود کی بگڑتی صورتحال سے متعلق گہرے خدشات ہیں‘ بلکہ اس میں ایک یاد دہانی ہے، جو ایک دھمکی بھی ہے کہ امریکی قانون کے مطابق ایسے ممالک کو اسلحے کی ترسیل پر پابندی لگائی جا سکتی ہے جو امریکی امداد کو لوگوں تک پہنچانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع یوآو گیلانٹ نے غزہ میں امداد کی ترسیل کے حوالے سے اسرائیلی حکمتِ عملی کی بنیاد سات اکتوبر 2023 کے حملوں کے دو روز بعد رکھ دی تھی۔

انھوں نے غزہ کی پٹی کا ’مکمل محاصرہ‘ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی ایندھن یا کھانا اندر لے جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ’سب کچھ بند کر دیا گیا۔۔۔ ہم انسانوں کے روپ میں جانوروں سے لڑ رہے ہیں اور ہم اسے کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔‘

chart
BBC

امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے دباؤ نے اسرائیل کو گیلانٹ کی حکمتِ عملی پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا لیکن غزہ میں کبھی بھی تسلسل کے ساتھ وافر امداد نہیں بھیجی گئی۔ حالیہ ماہ کے دوران، پابندیوں کو مزید سخت کر دیا گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے یہ خط لکھا گیا۔

یہ بائیڈن انتظامیہ میں غصے اور شدید برہمی کی طرف اشارہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں امداد بھیجنے سے متعلق اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔

یورپی یونین کے چیف ڈپلومیٹ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل پر بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔

مئی میں عالمی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور وزیرِ دفاع گیلانٹ پر عام شہریوں کو بھوکا رکھنے کا الزام عائد کیا تھا۔

یہ الزامات ان کی جانب سے عدالت میں دونوں کی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کے ساتھ لگائے گئے تھے۔ دونوں کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔

جب نیتن یاہو نے 27 ستمبر کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تھا تو انھوں نے ان الزامات کہ وہ غزہ میں لوگوں کو بھوکا رکھ رہے ہیں ’بے بنیاد‘ قرار دے کر رد کیا تھا۔

نیتن یاہو کے مطابق یہ الزامات اقوامِ متحدہ اور اس کے اداروں میں یہود مخالف نظریات میں تقویت کی جانب اشارہ تھے۔

اسرائیل کا کہنا تھا کہ یہ سب الزامات ’جھوٹ اور بہتان‘ پر مبنی ہیں۔ ’اچھائی کو برائی کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور برائی کو اچھائی کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔‘

’ہم نے غزہ میں سات لاکھ ٹن کھانا فراہم کرنے میں مدد کی۔ یہ غزہ میں ہر مرد، عورت اور بچے کے لیے تین ہزار کیلوریز یومیہ بنتا ہے۔‘

تاہم امریکی خط میں موجود حقائق ان جذباتی دعوؤں کے برعکس ہیں۔ ان میں سے کچھ اسرائیل کی جانب سے ستمبر میں لگائی گئی پابندیوں کے بارے میں توجہ مرکوز کرواتے ہیں جب نیویارک میں نیتن یاہو اس کے برعکس دعوے کر رہے تھے۔

gaza
Getty Images
  • خط میں لکھا ہے کہ ’غزہ میں داخل ہونے والی امداد ستمبر میں گذشتہ ایک سال کے دوران سب سے کم سطح پر تھی۔‘ یعنی سات اکتوبر کوحماس کےحملے سے بھی پہلے سے۔
  • امریکہ کو خاص طور اسرائیلی حکومت کے ان حالیہ اقدامات پر خدشات ہیں ’جن میں کمرشل درآمدات کو روکنا اور 90 فیصد انسانی امداد کی شمال سے جنوب کی جانب منتقلی کو ستمبر میں روکنا یا اس میں رکاوٹیں ڈالنا شامل ہے۔‘

امریکہ نے اسرائیل پر بے بنیاد قواعد لاگو کر کے امداد کی ترسیل کی رفتار سست کرنے پر تنقید کی اور متعدد مطالبات بھی کیے ہیں:

  • بند لاریوں اور کنٹینرز کے استعمال پر عائد پابندی ہٹائی جائے اور تصدیق شدہ ڈرائیورز کی تعداد کو بڑھا کر 400 کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یہ بات متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ڈرائیوروں اور لاریوں کی کمی کے باعث غزہ میں امداد لے جانے میں مشکلات پیش آئی ہیں۔
  • اسرائیل کو سکیورٹی اور کسٹمز چیک پوائنٹس پر تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ امداد کے اداروں کا کہنا ہے کہ مشکل قواعد کے ذریعے ڈیلیوری کا عمل سست ہو جاتا ہے۔
  • امریکی چاہتے ہیں کہ امداد اشدود کی بندرگاہ سے غزہ کی پٹی میں داخل ہو۔ اشدود ایک جدید اسرائیلی بندرگاہ ہے جہاں کنٹینرز پہنچائے جاتے ہیں اور یہ غزہ کے شمال سے تھوڑی ہی دور ہے۔ جب اسرائیل نے اسے امداد پہنچانے کے لیے استعمال کرنے سے انکار کیا تو امریکہ نے لگ بھگ 23 کروڑ ڈالر ایک تیرتی سٹرپ پر خرچ کر دیے جس کے ذریعے کچھ امداد تو غزہ تک پہنچائی گئی لیکن یہ منصوبہ خاطر خواہ فرق ڈالنے میں ناکام رہا اور خراب موسم کے باعث ختم کرنا پڑا۔
  • اسرائیل اردن سے امداد کی ترسیل پر عائد پابندیاں بھی ہٹائے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس امداد چوری کر کے اسے زیادہ قیمت پر بیچتا ہے۔ امریکی عموماً اس بارے میں کچھ براہ راست نہیں کہتے اور ایک جملے میں اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ’لاقانونیت اور چوریوں میں اضافہ ہوا۔‘

خط میں سب سے اہم بات غزہ میں اسرائیلی پابندیوں کے حوالے سے ہی ہے۔

امریکہ کی تنقید غزہ میں امداد پہنچانے میں رکاوٹوں کے علاوہ بھی کچھ اہم چیزوں پر تھی۔ امریکہ نے مطالبہ کیا کہ شمالی غزہ کے محاصرے کو ختم کیا جائے جہاں نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود انتہا پسند قوم پرست وزرا چاہتے ہیں فلسطینیوں کی جگہ یہودی آبادکار رہیں۔

شمالی غزہ کے حوالے سے خدشات میں اسرائیل کے حالیہ حملے کے بعد سے اضافہ ہوا۔

map
BBC

فوج کے اقدامات اس منصوبے کے کچھ حصوں سے مشابہت رکھتے ہیں جو ریٹائرڈ افسران کے ایک گروپ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا، جس کی سربراہی ریٹائرڈ میجر جنرل گیورا ایلانڈ نے کی تھی جو اسرائیل کے قومی سلامتی کے سابق مشیر رہ چکے ہیں۔

ایلانڈ کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی واپسی اور جنگ کو جلد ختم کرنے کے لیے ایک معاہدہ چاہتے تھے لیکن کیونکہ ایسا نہیں ہوا اس لیے ان کا خیال ہے کہ مزید سخت گیر کارروائی ضروری ہے۔

اسرائیل پہلے ہی وادی غزہ کے ساتھ ایک راہداری کے ذریعے شمالی غزہ کو جنوب سے الگ کر چکا ہے۔ ایلانڈ نے مجھے بتایا کہ ان کا منصوبہ ایک ہفتہ سے 10 دن تک انخلا کے راستے کھولنا تھا تاکہ شمال میں رہ جانے والے چار لاکھ یا اس سے زیادہ شہری وہاں سے نکل جائیں۔ پھر علاقے کو سیل کر دیا جائے گا اور تمام امدادی سامان کی ترسیل بند کر دی جائے گی اور اندر رہ جانے والے ہر شخص کو ایک جائز فوجی ہدف سمجھا جائے گا۔

اس منصوبے کا ایک ورژن ہمیں شمال میں جبالیہ کیمپ میں بھی دیکھنے کو ملا جب اسے مکمل طور پر اسرائیلی فوجیوں، ٹینکوں اور ڈرونز کے ذریعے سیل کر دیا گیا۔

بلنکن اور آسٹن کے خط میں زور دیا گیا کہ ’شمالی غزہ سے جنوبی غزہ میں شہریوں کا جبری انخلا اسرائیلی حکومت کی پالیسی نہیں ہو سکتی۔‘ امدادی ایجنسیوں کے پاس ’شمالی غزہ تک مسلسل رسائی‘ ہونی چاہیے اور انھیں جنوب سے خطرناک اور اکثر جان لیوا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اسرائیل سے براہ راست داخلے کی اجازت ہونی چاہیے اور اگر کوئی ’آپریشنل ضرورت نہ ہو‘ تو انخلا کے احکامات کو منسوخ کیا جائے۔

اسرائیل نے 17 لاکھ فلسطینیوں کو جن میں سے اکثر شمالی غزہ سے انخلا کے نتیجے میں یہاں آئے تھے، ایک چھوٹی سی پٹی کی حد تک محدود کر دیا جو المواصی اور دیر البلح کے قصبوں کے درمیان ساحل کے قریب واقع ہے۔ خط کے مطابق یہاں ’لوگوں کی بڑی تعداد ہونے کے باعث خطرناک بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔‘

امریکی چاہتے ہیں کہ دباؤ میں کمی لائی جائے اور عام شہریوں کو موسمِ سرما کے دوران غزہ میں دوسرے علاقوں میں جانے کی اجازت دی جائے۔

بی بی سی ویریفائی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے ایسے علاقوں پر بھی حملے کیے ہیں جنھیں وہ پناہ گزین زونز تصور کرتا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہاں حماس کے رہنما موجود تھے۔

اس خط کے فوری نتائج نکلے ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز کے بعد سے پہلی مرتبہ ہے کہ اسرائیل نے قافلے کی صورت میں اور امداد سے بھری لاریوں کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی، تاہم یہ اس درجے کی امداد اب بھی نہیں جس کی امریکہ کی جانب سے درخواست کی گئی تھی۔

آیا یہ خط غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کی وجہ بن پائے گا، خاص طور پر فائر بندی کے بغیر، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔

اسرائیل کو 30 روز دیے گئے ہیں تاکہ وہ معاملات درست کرنے کی کوشش کرے۔ امریکی صدارتی انتخاب اسی وقت میں ہوں گے۔ امریکہ میں پولنگ ڈے سے پہلے تو حکومت اسرائیل تک اسلحے کی ترسیل نہیں روکے گی خاص طور پر اس لیے کہ اسرائیل ایران کے ساتھ جنگ کے دہانے پر ہے۔

اگر نائب صدر کملا ہیرس جیت جاتی ہیں تو بائیڈن انتظامیہ اسرائیل پر جنوری تک دباؤ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو گی۔

اگر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ صدر بنتے ہیں تو ایسے میں کہانی مختلف ہو گی۔ اگر گذشتہ ٹرمپ انتظامیہ کے چار برسوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو کو زیادہ آزادی ہو گی کہ وہ جو بھی چاہیں کر سکتے ہیں جب تک جو بائیڈن وائٹ ہاؤس میں موجود ہیں۔

بائیڈن کو ان کی اپنی ڈیموکریٹک پارٹی میں اور اس کے علاوہ بھی اسرائیل کے اہم اتحادی کے طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہ کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکی فوجی اور سفارتی مدد کے بغیر اسرائیل کے لیے اپنی جنگیں لڑنا مشکل ہو گا۔ یہ خط بظاہر اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔

گذشتہ ایک برس کے دوران نیتن یاہو نے متعدد مرتبہ امریکی خواہشات کو نظر انداز کیا۔

اس حوالے سے ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ستمبر کے اواخر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کو ایسا لگا کہ انھوں نے لبنان میں 21 روزہ جنگ بندی کے معاہدے سے اتفاق کروا لیا ہے تاکہ اس دوران سفارتی کوششوں کو تیز کیا جا سکے۔

اس کے برعکس نیتن یاہو کی تقریر میں کسی بھی معاہدے کی تردید کی گئی اور خطے میں جنگ کا خطرہ مزید بڑھ گیا۔ نیویارک میں اپنے ہوٹل سے انھوں نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی ہلاکت کے احکامات جاری کیے۔ کچھ سینیئر مغربی حکام کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کو نیتن یاہو نے ’چکما دیا۔‘

یہ خط ایک تاخیر سے کیا گیا اقدام ہے تاکہ توازن پیدا کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ بائیڈن کو معلوم ہے کہ وہ اپنی غیر مشروط حمایت کے ساتھ ہی اسرائیل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے اسرائیل کو سات اکتوبر کے بعد مشورہ دیا تھا کہ وہ غصے میں اندھا نہ ہو جائے جیسے ان کے مطابق امریکہ القاعدہ کے 9/11 حملوں کے بعد ہو گیا تھا۔

تاہم ان کی خواہشات کو نیتن یاہو اس سے پہلے بھی نظر انداز کر چکے ہیں۔ اب جبکہ بائیڈن اپنے دور کے آخری حصے میں ہیں تو کیا اسرائیل امریکہ کے غزہ سے متعلق مطالبات تسلیم کرے گا؟ یہ سوال تو اپنی جگہ لیکن یہ واضح ہے کہ بائیڈن مشرقِ وسطیٰ میں ایک وسیع تر جنگ رکوانے میں ناکام ہوئے ہیں۔

اور جہاں تک اس خط کی بات ہے تو یہ غزہ میں مصیبتوں کا شکار فلسطینیوں اور امداد پر لگائی گئی پابندیوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کے لیے انتہائی معمولی اور بہت دیر سے اٹھایا گیا قدم ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.