اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’نیو بابر کارگو موورز‘ کے مالک ملک بابر نے کہا کہ جہاز کی بذریعہ سڑک منتقلی میں سب سے پہلے اس کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے سائز کی وجہ سے اس کو موجودہ حالت میں ٹرانسپورٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
آپ نے آسمان پر جہاز اُڑتے تو دیکھے ہوں گے لیکن کیا آپ نے کبھی کسی سڑک یا موٹروے پر ہوائی جہاز کو جاتے دیکھا ہے؟
یہ مناظر پاکستان کے شہر کراچی میں دیکھے گئے جہاں سے ایک مسافر جہاز کو بذریعہ سڑک حیدرآباد منتقل کیا جا رہا ہے۔ مگر فی الحال اسے سکیورٹی کلیئرنس سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔
موٹروے حکام نے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ جس بھی وہیکل کا لوڈ دو لین پر آتا ہے اس کے لیے این او سی یعنی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے، جو اسلام آباد ہیڈکوارٹر سے ملتا ہے۔ حکام کے مطابق کارگو کمپنی نے تاخیر سے این او سی حاصل کی جس کے بعد جہاز کو روانہ کیا گیا۔
حکام کا مزید کہنا ہے کہ رات کو اس قسم کی ٹریفک چلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ’جیسے ہی سورج غروب ہوگا تو اسے روک دیا جائے گا اور پھر صبح کی روشنی میں یہ دوبارہ سفر کر سکے گا۔‘
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق یہ 737 بوئنگ طیارہ ہے جو1991 میں پی آئی اے میں شامل ہوا تھا اور تقریباً 23 سال بعد سنہ 2014 میں اس کو ریٹائر کیا گیا۔
یہ مسافر طیارہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بذریعہ سڑک جہاز کی منتقلی پہلی بار ہو رہی ہے۔
بی بی سی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اس جہاز کو منتقل کرنے والی کمپنی ’نیو بابر کارگو موورز‘ سے بات کر یہ یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اس جہاز کو بذریعہ سڑک حیدرآباد کیوں منقتل کیا جا رہا ہے؟ وہاں اس جہاز کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اس پورے عمل میں کیا حفاظتی اقدامات اختیار کیے گئے ہیں؟
جہاز کی براستہ سڑک منتقلی کے لیے حفاظتی اقدامات
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ یہ جہاز اپنی زندگی پوری کر چکا تھا، اس کو اڑا کر وہاں نہیں پہنچایا جا سکتا تھا، جس کے بعد اسے بذریعہ سڑک حیدرآباد پہنچایا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے حفاظتی اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’نیو بابر کارگو موورز‘ کے مالک ملک بابر نے کہا کہ جہاز کی بذریعہ سڑک منتقلی میں سب سے پہلے اس کے ڈھانچے کو تبدیل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے سائز کی وجہ سے اس کو موجودہ حالت میں ٹرانسپورٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
انھوں نے بتایا کہ ’جہاز غیر معمولی طور پر بڑا ہوتا ہے۔ ہم نے اس جہاز کے دونوں پر اور انجن سمیت کچھ دیگر پرزے ہٹا دیے ہیں۔ اس جہاز کے کیپسول کو ایک ٹرالر پر لوڈ کیا ہے جبکہ جو پرزے اور حصے جہاز سے ہٹائے گئے ہیں انھیں دوسرے ٹرالر پر لوڈ کیا ہے۔‘
ملک بابر نے اپنی کمپنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ دیگر سامان تو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے رہتے ہیں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ وہ جہاز منتقل کر رہے ہیں۔
ملک بابر کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں بذریعہ سڑک جہاز کی منتقلی پہلی بار ہو رہی ہے۔
خیال رہے کہ ستمبر 2024 کے دوران سعودی عرب میں تین ناکارہ بوئنگ 777 طیاروں کو جدہ سے ریاض ایک ہزار کلو میٹر دور بذریعہ سڑک منتقل کیا گیا تھا۔ سعودی میڈیا العربیہ کے مطابق یہ نقل و حمل سعودی عرب میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تصور کیا گیا تھا۔
تو یہ جہاز حیدرآباد کب پہنچے گا؟
ملک بابر نے بتایا کہ ابھی یہ جہاز کراچی میں ہی کھڑا ہے اور اس کی سکیورٹی کلیئرنس جلد ہی متوقع ہے جس کے بعد ہی جہاز کی منتقلی ممکن ہو سکے گی۔
انھوں نے بتایا کہ سکیورٹی کلیئرنس کے بعد سات سے آٹھ گھنٹے میں یہ جہاز بذریعہ سڑک کراچی سے حیدرآباد پہنچ جائے گا۔
یہ عمل بحفاظت مکمل ہونے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ملک بابر نے بتایا کہ بذریعہ سڑک جہاز کی منقتلی کے دوران سول ایوی ایشن کی سکیورٹی جبکہ پولیس بھی سکواڈ کا حصہ ہو گی۔
حیدرآباد میں اس جہاز کو کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا؟
پاکستان کی قومی ایئر لائنز کا یہ ریٹائرڈ بوئنگ طیارہ حیدرآباد میں تربیتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
نیو بابر کارگو موورز کے مالک ملک بابر نے بتایا کہ ایک ڈیڑھ برس سے اس بارے میں تحقیق ہو رہی تھی کہ اس جہاز کو کام میں لایا جائے۔
انھوں نے بتایا کہ ’حیدرآباد میں سول ایوی ایشن کا ایک تربیتی مرکز ہے تو اس جہاز کو اب تربیتی مقاصد کے لیے وہاں منتقل کیا جا رہا ہے۔‘
جہاز کی صفائی
نیو بابر کارگو موورز کے مالک ملک بابر نے بی بی سی کے ساتھ اس جہاز کی ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں اسے کراچی ایئرپورٹ پر دیگر ناکارہ جہازوں کے ساتھ کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان ویڈیوز میں یہ بی دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز کی پانی کے ساتھ دھلائی صفائی کا کام ہو رہا ہے۔
جن ٹرالرز پر اس جہاز کو منتقل کیا جا رہا ہے اس حوالے سے ملک بابر نے بتایا کہ یہ جرمن کمپنی گولڈ ہوفر (Gold haufer) کے ہیں اور سعودی عرب میں بھی اس کمپنی کے ٹرالر استعمال کیے جاتے ہیں۔