پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایران سے تیل اور ڈیزل کی سمگلنگ روکنے کے لیے حکومتی پابندیوں اور کریک ڈاؤن کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور دو ہفتوں کے دوران ایرانی تیل کی قیمتوں میں 40 سے 50 روپے فی لیٹر تک اضافہ ہوا ہے۔سرحدی علاقوں میں ایرانی پیٹرول 200 سے 210 روپے فی لیٹر جب کہ کوئٹہ میں 240 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا ہے۔ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ ’قیمتوں میں یہ اضافہ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایرانی تیل کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہوا ہے۔‘ایک سرکاری اندازے کے مطابق کریک ڈاؤن سے قبل ایرانی تیل کی سمگلنگ 90 لاکھ لیٹر یومیہ تھی جس میں نمایاں کمی آئی ہے۔سرکاری ذرائع کے مطابق حکومتی کریک ڈاؤن کے باعث ایران سے تیل کی سمگلنگ نصف سے بھی کم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ایرانی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔کوئٹہ کے علاقے ہزار گنجی میں ایرانی تیل کا کاروبار کرنے والے نذیر احمد بارکزئی نے بتایا کہ ’صرف دو سے تین ہفتے قبل ایرانی پٹرول 195 سے 200 روپے فی لیٹر جب کہ ڈیزل 185 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا تھا۔ اب اس کی قیمت 230 سے 240 روپے فی لیٹر تک پہنچ گئی ہے۔‘انہوں نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے لوگ ایرانی تیل سستا ہونے کی وجہ سے خریدتے تھے اور یہ لوگوں کو عام پیٹرول سے 100 روپے تک سستا مل جاتا تھا۔ کریک ڈاؤن سے پہلے بھی ایرانی پیٹرول پاکستانی پمپس کے مقابلے میں 40 سے 50 روپے سستا تھا لیکن اب قیمتیں تقریباً برابر ہو گئی ہیں۔‘کوئٹہ کے شہری شہزاد احمد نے بتایا کہ ’ایران سے سمگل شدہ تیل اگرچہ معیاری نہیں ہے لیکن لوگ یہ سستا ہونے کی وجہ سے استعمال کرتے تھے۔ یہ فرق چونکہ تقریباً ختم ہو گیا ہے تو لوگ اب پاکستانی پیٹرول کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘تربت میں ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک بہروز بلوچ نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گوادر، پنجگور، کیچ اور ایران سے ملحقہ بلوچستان کے دیگر سرحدی اضلاع میں ایرانی تیل پہلے 150 سے 160 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہا تھا جو اب 200 روپے فی لیٹر سے کم میں نہیں مل رہا۔ بعض علاقوں میں تو 220 روپے فی لیٹر میں بھی فروخت ہو رہا ہے۔‘بہروز بلوچ کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے سرحدی علاقوں میں ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندیاں سخت کر دی گئی ہیں۔ پنجگور کے دو زمینی راستوں اور گوادر کے سمندری راستے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے جہاں سے روزانہ لاکھوں لیٹر ایرانی تیل سمگل کیا جاتا تھا۔ اسی طرح تربت، ماشکیل اور چاغی میں بھی ہفتے میں تین دن ایرانی سرحد سے تیل لانے پر پابندی عائد ہے جبکہ قومی شاہراہوں پر چیک پوسٹیں قائم کرکے سرحدی اضلاع سے ایرانی تیل کو دوسرے اضلاع لے جانے نہیں دیا جا رہا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اس صورتِ حال میں اس کاروبار سے منسلک لاکھوں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں اور اُن کے سامنے احتجاج کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ حکومت نے ہماری بات نہ سنی تو ہم صوبے بھر میں قومی شاہراہوں کو بند کریں گے۔‘انہوں نے کہا کہ ’سرحدی علاقوں میں کوئی دوسرا کاروبار نہیں، فیکٹریاں ہیں اور نہ ہی زراعت ہوتی ہے۔ لاکھوں لوگوں کی زندگی کا دار و مدار اسی تیل کی سمگلنگ اور ترسیل پر ہے جنہیں متبادل فراہم کیے بغیر اُن سے اُن کا روزگار چھیننے کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔‘
ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کا دعویٰ ہے کہ ایرانی تیل سے بلوچستان کے 30 لاکھ لوگ روزگار کماتے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
گوادر کے علاقے کنٹانی ہور کے ایک تیل ڈیلر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران سے پہلے روزانہ دو سے تین ہزار چھوٹی کشتیاں سمندر کے راستے 20 لاکھ لیٹر تک ایرانی تیل لاتی تھیں جہاں سے یہ بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں کو سپلائی کیا جاتا تھا لیکن اب تین ہفتوں سے یہ راستہ مکمل طور پر بند ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پہلے سے ذخیرہ کیے گئے تیل کو بھی ضلع سے باہر نہیں لے جانے دیا جا رہا۔کوسٹ گارڈز اور دیگر سکیورٹی فورسز اب تک درجنوں گاڑیوں اور 100 سے زائد کشتیوں کو پکڑ چکی ہیں جس کی وجہ سے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز مظاہرین نے لیویز کے کیمپ کو بھی اکھاڑ دیا تھا۔‘دو ہفتے قبل صوبائی حکومت کے ایک سینیئر عہدے دار نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حکومت اور سکیورٹی اداروں نے ایرانی تیل کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے نئی پابندیوں پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جن کے تحت ایرانی تیل کی سمگلنگ کو مرحلہ وار بڑی حد تک محدود کر دیا جائےگا۔‘ملک کے خفیہ اداروں نے رواں سال اپریل میں اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ’ایران سے سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل (ڈیزل اور پٹرول) بلوچستان کے راستے پاکستان سمگل ہو رہا ہے جس سے قومی خزانے کو کم از کم 227 ارب روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔‘رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’بلوچستان کے مکران اور رخشاں ڈویژنز کے پانچ سرحدی اضلاع کے پانچ زمینی اور ایک سمندری راستہ سمگلنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‘
دو ہفتوں کے دوران ایرانی تیل کی قیمتوں میں 40 سے 50 روپے فی لیٹر تک اضافہ ہوا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
رپورٹ کے مطابق ضلع کیچ (تربت) کی عبدوئی سرحد سے روزانہ 26 لاکھ لیٹر، گوادر کنٹانی سمندری راستے سے یومیہ 19 لاکھ لیٹر، ضلع چاغی کے علاقے راجے سے یومیہ ساڑھے چھ لاکھ لیٹر، واشک کی جودر سرحد سے سوا لاکھ لیٹر جبکہ پنجگور کے جیرک اور چیدگی کے دو سرحدی راستوں سے یومیہ 25 لاکھ لیٹر ایرانی تیل پاکستان پہنچتا ہے۔
ایرانی تیل کے کاروبار سے منسلک افراد کا دعویٰ ہے کہ ایرانی تیل سے بلوچستان کے 30 لاکھ لوگ روزگار کماتے ہیں۔سرکاری رپورٹوں میں بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبے میں تقریباً 22 سے 24 لاکھ لوگ (بلوچستان کی 14 سے 16 فی صد آبادی) کی گزربسر کا انحصار ایرانی تیل کی سمگلنگ پر ہے۔ایرانی تیل کی ترسیل پر پابندیوں کے خلاف سرحدی علاقوں اور کوئٹہ میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا جب کہ اسمبلی کے باہر تیل کے کاروبار سے منسلک افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔گوادر، ماشکیل، پنجگور اور دیگر سرحدی علاقوں سے منتخب حکومتی و اپوزیشن ارکان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان، زابد علی ریکی، اسد بلوچ ، رحمت بلوچ اور برکت علی بلوچ نے ایرانی تیل کی ترسیل پر پابندیوں کی مخالفت کی اور کہا کہ لاکھوں لوگوں کو متبادل روزگار فراہم کیے بغیر بے روزگار کر دیا گیا ہے، سرحدی علاقوں میں نہ کوئی فیکٹری ہے نہ زراعت جس کے باعث ان لوگوں کے پاس گزر بسر کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے پلے کارڈز اٹھا کر احتجاج کیا (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
ان کا کہنا تھا کہ لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کرنے سے بلوچستان میں نہ صرف غربت اور بے روزگاری بلکہ امن وامان کے مسائل میں بھی اضافہ ہو گا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’ایرانی تیل کی ترسیل پر پابندی وفاقی حکومت نے لگائی ہے۔ صوبائی حکومت کسی غیرقانونی کام کی اجازت نہ دینے کے وفاقی حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد کی پابندی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اپیکس کمیٹی کے فیصلے کے تحت جہاں مشترکہ چیک پوسٹیں قائم ہیں وہاں صوبائی حکومت نے اپنے اہلکار ایف آئی اے اور کسٹم سمیت دیگر وفاقی فورسز کی معاونت کے لیے تعینات کیے ہیں۔‘