سابق برطانوی فوجی، جن پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے اور جیل سے فرار ہونے کا الزام ہے، کا کہنا ہے وہ ایک ’محب وطن‘ شخص ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔
سابق برطانوی فوجی، جن پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے اور جیل سے فرار ہونے کا الزام ہے، کا کہنا ہے وہ ایک ’محب وطن‘ شخص ہیں اور اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں۔
برطانیہ کے وول وچ کراؤن کورٹ میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران پہلی بار ثبوت دیتے ہوئے ڈینیئل خلیف نے کہا کہ ’میں ایک انگریز ہوں جو ایرانی حکومت کا مخالف ہے۔‘
استغاثہ کا الزام ہے کہ خلیف نے ایران کے لیے حساس فوجی معلومات اکٹھی کیں اور بعد میں چھ ستمبر 2023 کو جنوب مغربی لندن میں وینڈز ورتھ جیل سے فرار ہونے کے لیے فوڈ ٹرک کے نیچے چھپ گئے۔
خلیف ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
خلیف نے عدالت کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ جب ان کی عمر 17 برس تھی تب انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور ٹیلی گرام کے ذریعے ایرانی انٹیلی جنس سے رابطہ کرکے انھیں ’جعلی‘ دستاویزات بھیجیں اور بدلے میں کتے کے فضلے والے بیگ میں 1500 پاؤنڈ کی رقم وصول کی۔
بدھ کے روز ججوں کو خلیف کی نوٹ بک میں سے ایک صفحہ دکھایا گیا جس پر انھوں نے اوپر ’جاسوسی‘ لکھا تھا اور نچلے حصے میں لکھا تھا ’پہلے ایرانیوں سے رابطہ کریں اور پھر امریکہ سے۔‘
خلیف نے عدالت کو بتایا کہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ ’غیر ملکی دشمن سے رابطہ کرکے پہلے انھیں فرضی معلومات دیں اور آہسته آہسته اس دشمن ملک کے ساتھ تعلقات استوار کریں۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ وہ برطانیہ میں کام کرنے والے ایرانی انٹیلی جنس افسران کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے۔
ایرانی والدہ اور لبنانی والد کے ’انگریز بیٹے‘
سماعت کے پہلے دن سب سے پہلے عدالت کو خلیف کی خاندانی زندگی اور بچپن کے بارے میں بتایا گیا۔
ڈینیئل خلیف میریلیبون میں پیدا ہوئے اور مغربی لندن کے علاقے رچمنڈ میں اپنی ایرانی والدہ اور لبنانی والد کے ساتھ پلے بڑھے۔
برطانیہ کے بارے میں ان کے خیالات کے بارے میں پوچھے جانے پر 23 سالہ خلیف نے کہا: ’میں ایک محب وطن ہوں، مجھے اپنے ملک سے پیار ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ خود کو ایک انگریز مانتے ہیں۔
خلیف نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے ایک امریکی خاتون کے بارے میں ایک مضمون پڑھا تھا جو منحرف ہو کر ایران چلی گئی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس تنظیم پر اس خاتون کو بھرتی کرنے کا الزام تھا، انھوں نے بھی اس (نیو ہورائزن آرگنائزیشن) سے رابطے کا فیصلہ کیا۔
ڈینیئل خلیف نے عدالت کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے فیس بک پر تنظیم کے سکریٹری حامد غشغوی سے رابطہ کیا۔ یاد رہے امریکہ نے غشغوی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
خلیف کا کہنا تھا کہ ان کا بس ایک ہی مقصد تھا ’دھوکہ دینا اور بیوقوف بنانا‘۔ انھوں نےعدالت کو بتایا کہ کس طرح غشگھوی کو بھیجنے کے لیے ایک جعلی دستاویز تیار کی گئی۔
خلیف کا کہنا ہے کہ ’میں ان کا بھروسہ جیتنا چاہتا تھا کیونکہ میرے خیال میں ان کا کسی نہ کسی طریقے سے ایرانی انٹیلیجنس سے تعلق قائم تھا۔‘
خلیف نے عدالت کو بتایا کہ غیر ملکی دشمن کو گمراہ کرنے اور دھوکہ دہی کے مقصد سے وہ ٹیلی گرام پر کالز کیا کرتے ہیں۔
عدالت کو دیے گئے بیان میں خلیف کا کہنا تھا کہ ’ان کے خیال میں ایرانی انٹیلی جنس افسران ایک کال میں شریک ہوئے تھے۔‘
ملزم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایران کے اندر کام کرنے والے ایک برطانوی جاسوس کا فرضی نام بھی تخلیق گیا جو تھا علی رضا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’جب ایرانیوں نے اپنے ملک میں کام کرنے والے ایجنٹوں میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی تو میں نے ایک دستاویز بنائی تاکہ انھیں یقین ہو سکے کہ حقیقیت میں ایسے ایجنٹ موجود ہیں۔‘
خلیف کا کہنا تھا ’پھر وہ وقت آیا جب ایرانی مجھے پیسوں کے ذریعے نوازنا چاہتے تھے۔‘
خلیف نے عدالت کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے 11 اگست 2019 کو جنوب مغربی انگلینڈ کے بلینڈ فورڈ میں واقع اپنی بیرک سے لندن کا سفر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیلیگرام پر وہ جن لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے ان میں سے ایک نے مل ہل پارک پہنچنے کی ہدایت کی تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ وہاں پہنچ کر خلیف نے سیلفی لی اور کتے کے فضلے والے بیگ میں 1500 پاؤنڈ وصول کیے۔
خلیف نے اسے ’ڈیڈ ڈراپ‘ کا نام دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے پیسوں والا بیگ رکھنے والے لوگوں کو دیکھا تھا جو ایک آڈی ایس یو وی میں آئے تھے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ ’ان افراد کو پکڑا جا سکتا تھا‘ اور یہ کہ چند روز بعد وہ ویب سائٹ کے ذریعے ایم آئی سکس (برطانیہ کی خفیہ ایجنسی) سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
خلیف کا کہنا تھا کہ رقم دینے کے بعد ان کے ایرانی رابطہ کاروں نے ان سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ایران آئیں۔ لیکن خلیف نے ان افراد کو بتایا کہ ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔
انھوں نے کہا ’مجھے لگا کہ ایسے دشمن ملک کا سفر کرنا جسے میں فرضی معلومات فراہم کر رہا ہوں، میرے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔۔۔ شاید وہ مجھے پکڑ کر نقصان پہنچانا چاہتے ہوں۔‘
خلیف نے اپنی پرورش کے بارے میں جیوری کو بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے غریب بیک گراؤنڈ پر ’شرم‘ محسوس کرتے ہیں اور یہ کہ ان کا خاندا ایک ’نسبتاً امیر علاقے‘ میں رہتا تھا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے خاندان کے ایرانی حکومت کے حوالے سے کیا خیالات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان اس کے ’خلاف‘ تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ان کی والد نہ صرف ایرانی حکومت کو بلکہ ’ملک کو بھی ناپسند‘ کرتی تھیں۔
خلیف کے مطابق 15 برس کی عمر میں وہ ایک دُکان سے کچھ چُراتے ہوئے پکڑے گئے تھے اور اس وقت ان کی والدہ انھیں چار ہفتوں کے لیے ایران لے گئیں تھیں۔
’وہ ہمیں دکھانا چاہتی تھیں کہ لوگ وہاں کیسے رہتے ہیں۔ مجھے وہاں نفرت محسوس ہوئی، مجھ لگا کہ وہ ایک بیکار جگہ ہے، موسم، حکومت اور تمام چیزیں۔‘
خلیف نے عدالت کو بتایا کہ 16 برس کی عمر میں انھوں نے فوج میں شمولیت اختیار کرلی کیونکہ وہ اپنے گھر سے دور جانا چاہتے تھے۔
خلیف کے مطابق ہیروگیٹ میں ان کی ابتدائی تربیت کے دوران انھیں ایک افسر نے بتایا کہ وہ اپنے خاندانی پسِ منظر کے سبب برطانوی فوج کی انٹیلیجنس کے لیے کبھی کام نہیں کرپائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ ایسے تمام افراد کو غلط ثابت کردیں اور یہ بھی دکھا دیں گے کہ فوج کی یہ پالیسی بھی غلط ہے۔
خلیف کہتے ہیں کہ: ’میں دراصل سمجھتا تھا کہ میں میرا خاندان پسِ منظر قومی سلامتی سے جُڑے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوسکتا تھا۔‘
’میں اپنے ملک سے وفادار تھا۔ میں اپنے ملک سے محبت کرتا تھا۔ لیکن یہاں بنیادی طور پر کچھ غلط تھا۔‘
اس سے قبل دورانِ سماعت جیوری کو ایک سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی تھی جس میں خلیف کو جیل سے مبینہ طور پر فرار ہونے کے بعد متعدد مقامات پر دیکھا جاسکتا تھا۔
پروسیکیوٹرز کے مطابق خلیف نے ٹیلی گرام پر ایرانی انٹیلیجنس سے منسلک ایک اکاؤنٹ کو پیغام بھی بھیجا کہ ’میں انتظار کر رہا ہوں۔‘
خلیف کو 9 ستمبر 2023 کو مغربی لندن کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ جیل سے فرار ہونے کی تردید کرتے ہیں۔
انھیں ایران کے لیے انٹیلیجنس جمع کرنے، سپیشل فورسز کے اہلکاروں کے ناموں سے متعلق اکھٹا کرنے اور فوجی بیرک میں بم کی افواہ پھیلانے کے الزامات پر نہ صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سامنا ہے بلکہ ان پر دہشتگردی کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔
خلیف ان تمام الزامات کی تردید کر چکے ہیں اور ان کے خلاف مقدمے کی سماعت اب بھی جاری ہے۔