پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن پھر بھی یہاں ہمیشہ ہی امریکی صدارتی انتخاب کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس بار بھی پاکستانی رہنماؤں کی نگاہیں امریکی الیکشن پر جمی ہوئی ہیں اور خصوصاً سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اس میں گہری دلچسپی لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب 5 نومبر کو ہونے جا رہے ہیں اور ڈیموکریٹ اُمیدوار کملا ہیرس اور رپبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے لیکن اس انتخاب کا انتظار صرف امریکی عوام ہی نہیں کر رہی بلکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ آخر وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین کون ہوگا؟
پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے ہی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں لیکن پھر بھی یہاں ہمیشہ ہی امریکی صدارتی انتخاب کو انتہائی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس بار بھی پاکستانی رہنماؤں کی نگاہیں امریکی الیکشن پر جمی ہوئی ہیں اور خصوصاً سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اس میں گہری دلچسپی لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم وائٹ ہاؤس کا دورہ سنہ 2019 میں کیا تھا اور اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے۔ کیمروں کے سامنے دونوں رہنماؤں کی ملاقات انتہائی خوشگوار رہی تھی۔
اس ملاقات کے دوران اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سامنے عمران خان کو ’میرے اچھے دوست‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا تھا۔
سنہ 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جو بائیڈن امریکی صدر بن گئے۔ ان کے صدر بننے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر سردمہری نظر آئی اور عمران خان اور بائیڈن کے درمیان کوئی ٹیلیفونک رابطہ تک نہیں ہوا۔
پھر سنہ2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیرِ اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گِرانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔
لیکن بعد میں ان کے بیانات میں تبدیلی اس وقت نظر آئی جب انھوں نے اس وقت کے فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ کو حکومت گِرانے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا۔
سابق وزیرِاعظم گذشتہ برس اگست سے متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور تاحال راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
پی ٹی آئی کے کچھ رہنما شاید سمجھتے ہیں کہ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد ان کی جماعت کے سربراہ کی مشکلات شاید کچھ کم ہوجائیں۔
عمران خان کی جماعت کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ’اچھے دوست‘ عمران خان کو رہائی دلوا دیں گے۔
پاکستانی ٹی وی چینل ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رُکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ سے جب پوچھا گیا کہ ’کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ آگئے تو وہ عمران خان کی رہائی میں کردار ادا کر سکتے ہیں؟‘
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رُکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ ’100 فیصد، مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں بھی یہی چاہیں گے کہ جمہور کی آواز سُنی جائے اور کیونکہ جمہور ہی سے وہ (ڈونلڈ ٹرمپ) اُمید رکھتے ہیں۔‘
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ عمران خان کو درپیش قانونی مشکلات کا ذکر امریکہ میں ہوا ہو بلکہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ امریکی سینیٹرز اور کانگریس ان کی جیل سے رہائی کے لیے آواز اُٹھا چکے ہیں۔
حال ہی میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈیموکریٹک پارٹی 60 سے زائد اراکین نے موجودہ صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ’امریکہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کو رہائی دلوائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رُکوائے۔‘
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس خط کو مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ ’یہ خطوط پاکستانی سیاسی صوتحال کے حوالے سے غلط سمجھ بوجھ پر مبنی ہیں۔‘
حال ہی میں پاکستانی امریکن پبلک افیئرز کمیٹی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کہ خیال میں رپبلکن امیدوار ’پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنائیں گے اور پاکستان میں غلط طریقے سے قید کیے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کروائیں گے۔‘
اس خط میں صدر بائیڈن کی انتظامیہ پر پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو گرانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
واضح رہے امریکی انتظامیہ متعدد مرتبہ اس قسم کے الزامات کی تردید کر چکی ہے۔
کیا امریکی صدارتی انتخاب کا اثر پاکستان کی سیاسی صورتحال پر پڑے گا؟
پاکستان اور امریکہ کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ جو بھی ہو پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
واشنگٹن میں واقع بروکنگز انسٹٹیوشن سے منسلک تجزیہ کار مدیحہ افضل کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخاب کے بعد ’ہمیں نہیں معلوم کہ کملا ہیرس یا ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے لیے کیا چاہیں گے کیونکہ دونوں ہی امیدواروں کی طرف سے کچھ بھی ایسے اشارے نہیں دیے گئے کہ انھوں نے اپنی پاکستان سے متعلق پالیسی کے بارے میں کچھ سوچا ہے۔‘
پاکستان کی سیاسی صورتحال اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی توقعات کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں مدیحہ افضل کا کہنا تھا کہ ’انھیں نہیں لگتا کہ امریکی کوششوں کے نتیجے میں عمران خان کی رہائی ممکن ہے کیونکہ اس کے لیے پاکستانی حکومت اور فوج پر شدید دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہو گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور صدر آخری دو برسوں میں ان کے عمران خان سے اچھے ذاتی تعلقات رہے ہیں لیکن عمومی طور پر ٹرمپ جمہوری اصولوں کے لیے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ انھوں نے دنیا بھر میں آمرانہ طرزِ حکومت اپنانے والے حکمرانوں کی طرف جھکاؤ ظاہر کیا ہے۔‘
دوسری جانب پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب میں کسی ایک امیدوار کی حمایت نہیں کر رہے۔
برطانیہ میں مقیم پی ٹی آئی کے رہنما زُلفی بخاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم پالیسیوں کی طرف دیکھتے ہیں، افرد کی طرف نہیں۔‘
لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عمران خان اور صدر ٹرمپ میں اچھی دوستی ہے۔‘
اسی طرح کے خیالات کا اظہار امریکہ میں مقیم پی ٹی آئی کے رہنما عاطف خان نے بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حال ہی میں جن 62 امریکی اراکینِ ایوانِ نمائندگان نے عمران خان کی رہائی کے لیے صدر جو بائیڈن کو خط لکھا ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔‘
ان کے مطابق ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کو ڈیموکریٹس کی حمایت حاصل ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ابھی پانچ ہفتوں پہلے ٹرمپ کی ملاقات ایک بااثر پاکستانی سے ہوئی اور اس ملاقات میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ میں میں یقینی بناؤں گا کہ میرے دوست عمران خان جیل سے باہر آئیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ ’با اثر پاکستانی‘ کون تھا تو انھوں نے نام بتانے سے انکار کر دیا۔ تاہم یہ ضرور کہا کہ اس شخص کا تعلق پاکستان سے نہیں۔
بی بی سی اردو ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’میں بطور پی ٹی آئی کا رہنما امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو بالکل یہ نہیں کہوں گا کہ آپ سارے جاؤ اور ٹرمپ کو ووٹ دو۔‘
’میں پاکستانیوں کو یہ نہیں کہوں گا کہ وہ تمام انڈے ایک ہی باسکٹ میں رکھ دیں کیونکہ ابھی یہاں (کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے) امکانات 50:50 ہیں۔‘
پی ٹی آئی رہنماؤں کے تمام دعوؤں کے باوجود بھی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر ٹرمپ جیت بھی جائیں تب بھی یہ مشکل نظر آتا ہے کہ عمران خان کی حمایت کریں۔
ماضی میں پاکستان میں تعینات رہنے والی سابق امریکی سفارتکار اور سٹمسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر ایلزبیتھ تھریلکلیڈ کہتی ہیں کہ ’سنہ 2019 میں واشنگٹن کے دورے کے دوران ٹرمپ اور عمران خان کی ملاقات بہت اچھی رہی تھی، لیکن مجھے اس بات کی توقع نہیں کہ اس کا نتیجہ عمران خان کے لیے کسی معنی خیز حمایت کی صورت میں میں نکلے گا۔‘
وہ سمجھتی ہیں کہ امریکی صدارتی انتخاب کے بعد بھی امریکہ کی پاکستان پالیسی میں کوئی خاص یا بڑی تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے، ’ہاں اب اگر خطے میں کوئی بڑی پیشرفت ہوجائے یا کوئی حیران کُن واقعہ رونما ہوجائے تو وہ الگ بات ہے۔‘
ان کے مطابق اگر کملا ہیرس امریکہ کی صدر منتخب ہوتی ہیں تو ان کی ’پاکستان پالیسی افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد اختیار کی گئی صدر بائیڈن کی پالیسی جیسی ہی ہوگی۔‘
تاہم سابق امریکی سفارتکار کے مطابق اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر صدر منتخب ہوتے ہیں تو پاکستان کے حوالے سے ’ان کی توجہ ماحولیاتی معاملات کے حوالے سے تعاون پر کم ہوگی اور اس میں اُتار چڑھاؤ کا انحصار اس بات پر ہوگا کہچین اور ایران کے حوالے سے امریکیپالیسی کتنی سخت گیر ہے۔‘