پاکستان اور انڈیا کے مابین چیمپئنز ٹرافی پر معاملات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو آگاہ کر دیا ہے کہ آئندہ سال منعقد ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے لیے انڈیا نے پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سے انڈین میڈیا پر بھی خبریں گردش کر رہی تھیں، تاہم اب باضابطہ طور پر آئی سی سی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو آگاہ کر دیا ہے جس کے بعد پی سی بی نے حکومت پاکستان کے ساتھ بھی رابطہ کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق انڈیا کے فیصلے پر پاکستان حکومت نے موقف اپناتے ہوئے سخت فیصلے لینے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ اگر انڈیا چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہیں آتا تو جب تک پاکستان اور انڈیا کے تعلقات ٹھیک نہیں ہوتے تب تک پاکستان انڈیا کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلے گا۔حکومتی ذرائع نے ماضی میں مختلف انٹرنیشنل ٹیموں کی پاکستان آمد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نے تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں، جبکہ اس سے قبل ساری ٹیمیں پاکستان آچکیں اور اب بھی آنے کو تیار ہیں تو انڈیا کیوں نہیں آئے گا؟علاوہ ازیں پاکستانی میڈیا رپورٹس میں حکومتی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی اور اس کے لیے کسی بھی قسم کا ہائبرڈ ماڈل قبول نہیں ہوگا۔ بتایا جا رہا ہے کہ انڈیا کی ’ہٹ دھرمی‘ کے ردعمل میں حکومت پاکستان ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ 2026 سمیت تمام ایونٹس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ لے سکتی ہے۔ پاکستان میں آئندہ سال 19 فروری سے 9 مارچ تک کھیلی جانے والی چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ گذشتہ کئی ماہ سے تیاری کر رہا ہے۔ اس ضمن میں قذافی سٹیڈیم میں ترقیاتی کام بھی جاری ہیں۔چیمپینز ٹرافی پاکستان میں ہونے کی صورت میں پاکستان کرکٹ بورڈ خاطر خواہ سرمایہ کما سکتا ہے، تاہم انڈیا کے نہ آنے سے ہائبرڈ ماڈل کے باعث ٹورنامنٹ سے کمایا جانے والا ریونیو متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔اس حوالے سے سپورٹس جرنلسٹ اسامہ غوری نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ انڈیا طویل عرصے سے سکیورٹی مسائل کو بنیاد بنا کر بہانے تراشتا رہا ہے۔ ان کے بقول ’اس بار انڈیا کے پاس کوئی جواز ہی نہیں بچتا کیونکہ گذشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں پی ایس ایل سمیت کئی سیریز منعقد ہوچکی ہیں جن میں انٹرنیشنل کرکٹ ٹیموں کے کھلاڑی اور ٹیمیں شرکت کر چکی ہیں۔ یوں تو سکیورٹی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں لیکن انڈیا اپنی سیاست سے باز نہیں آرہا۔‘ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ اپنی ٹیم انڈیا بھیج کر اچھا تاثر دیا، تاہم انڈیا نے جواب میں سیاست کارڈ کھیلا ہے۔ ’سٹیڈیم بن رہے ہیں اور سکیورٹی بھی اچھی ہے اس لیے اب انڈیا کے پاس کوئی جواز نہیں کہ وہ نہ آئے۔‘
چیمپئنز ٹرافی 2017 میں پاکستان نے انڈیا سے جیت کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا (فوٹو اے ایف پی)
سرکاری ذرائع کے حوالے سے مزید بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان چیمپئنز ٹرافی پر پیچھے نہیں ہٹے گا اور اگر انڈیا نہیں آتا تو حکومت پاکستان خطرناک حد تک فیصلے لے سکتی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق اگر انڈیا پاکستان نہیں آئے گا تو ریونیو کا نقصان پاکستان کو ہوگا لیکن جب پاکستان انڈیا سے میچ نہیں کھیلے گا تو دونوں جانب نقصان ہوسکتا ہے۔اسامہ غوری کے بقول ’پاکستان نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کسی حد تک بہتر بھی ہے کیونکہ دنیا بدل گئی ہے اب پوری دنیا پاکستان کو کھیلوں کے میدان میں تسلیم کر رہی ہے لیکن انڈیا اپنی انا کی وجہ سے پاکستان کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔‘سینیئر سپورٹس جرنلسٹ سہیل عمران نے اس حوالے سے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ ان کے بقول ’پہلے جو فیصلے ہوتے رہے ہیں وہ اس وقت کی صورتحال کے مطابق تھے لیکن اس بار معاملات یکسر مختلف ہیں۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک جا سکتی ہے۔ جو ہمیں بتایا گیا ہے وہ یہی ہے کہ حکومت ہر حد تک جانے کا سوچ رہی ہے۔‘اب تک چیمپئنز ٹرافی کے آٹھ ٹورنامنٹس منعقد ہوچکے ہیں۔ پہلی چیمپئنز ٹرافی 1998 میں منعقد ہوئی تھی جس کی میزبانی بنگلہ دیش نے کی تھی جبکہ جنوبی افریقہ نے ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔آخری بار چیمپئنز ٹرافی 2017 میں انگلینڈ میں منعقد ہوئی جس کا فائنل پاکستان نے انڈیا سے جیت کر ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ اب تک انگلینڈ نے تین جبکہ بنگلہ دیش، کینیا، سری لنکا، جنوبی افریقہ اور انڈیا نے صرف ایک بار چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کی ہے جبکہ دفاعی چیمپئن پاکستان پہلی بار اس ٹورنمنٹ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے۔
سہیل عمران بتاتے ہیں کہ ’پاکستان نے تو اب اپنے پتے دکھانا شروع کیے ہیں کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
تاہم انڈیا کی جانب سے پاکستان میں نہ کھیلنے کا فیصلہ بدستور برقرار ہے۔
سہیل عمران بتاتے ہیں کہ ’پاکستان نے تو اب اپنے پتے دکھانا شروع کیے ہیں کہ وہ کہاں تک جا سکتا ہے، لیکن یہ آسان صورت حال نہیں ہے۔‘ان کے مطابق اس معاملے میں اب ساری نگاہیں آئی سی سی کی طرف ہیں۔ ’کیونکہ یہ ایونٹ آئی سی سی نے پاکستان کو الاٹ کیا ہے اور اس میں تمام ٹیموں کی شرکت کو یقینی بنانا آئی سی سی کا کام ہے۔‘