پی آئی اے: ’عالمی شہرت یافتہ‘ ایئرلائن اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور اس نے یہ نام کیسے کمایا؟

اپنی سنہری تاریخ کے دوران پی آئی اے نے حفاظت کا ایک شاندار ریکارڈ برقرار رکھا۔ یہ 2005 میں IATA آپریشنل سیفٹی آڈٹ میں کوالیفائی کرنے والی خطے کی پہلی ایئر لائن تھی، جو اس کی حفاظت اور آپریشنل معیار کا بڑا اعتراف ہے۔ پی آئی اے اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور ایک نئے ملک کی ریاستی ایئر لائن نے اپنا نام کیسے بنایا؟

سنہ 1962 میں مارچ کی اُس رات، لندن کی سرد ہواؤں کی سلامی لیتی، امریکی خاتونِ اول جیکولین کینیڈی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے کراچی سے پرواز بھرنے والے جہاز کی سیڑھیاں اُتریں تو وہ پرواز سے اس قدر خوش تھیں کہ گرمجوشی سے پائلٹ کو گلے لگایا اور پُکار اٹھیں ’گریٹ پیپل ٹو فلائی وِد۔‘

پاکستان کی قومی ایئرلائن کو انگریزی میں یہ سلوگن کرکٹ مبصر اور مصنف عمر قریشی نے دیا تھا۔ یہی نعرہ صحافی اور شاعر فیض احمد فیض نے اُردو میں یوں لکھا: ’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘۔

جیکولین کینیڈی نے نہ صرف پی آئی اے کے اس دعوے پر مہر ثبت کر دی بلکہ انڈیا کے نو اور پاکستان کے پانچدنوں کے خیر سگالی دورے کے بعد امریکا واپسی سے پہلے برطانیہ میں اُترتے ہوئے اپنے آٹوگراف کے ساتھ جہازکے کپتان ایم ایم صالح جی کو ’نیک خواہشات کے ساتھ‘ اپنی تصویر بھی دی۔

یہ ایک ایسی ریاستی ایئر لائن کا سنہرا دور تھا جس نے مختصر عرصہ میں ہی دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کر لیا تھا۔

لیکن وہی ایئر لائن پھر ایسے زوال کا شکار ہوئی کہ ایک جانب اس پر یورپ سفر کرنے پر پابندی لگی تو دوسری جانب مالی خسارہ اس حد تک بڑھ گیا کہ حکومت پاکستان نے اسے نیلام کرنے کا سوچا تو ایک ہی بولی لگی اور وہ بھی 85 ارب روپے کی کم از کم متوقع قیمت کے مقابلے میں صرف 10 ارب روپے کی ، یعنی اس کا تقریباً 12 فیصد حصہ۔

پی آئی اے اپنے سنہرے دور میں کیسی تھی اور ایک نئے ملک کی ریاستی ایئر لائن نے اپنا نام کیسے بنایا؟

اس تحریر میں بی بی سی نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے تاہم یہ تحریر پی آئی اے کی مکمل تاریخ نہیں بلکہ اس میں صرف اُن عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے، جن کی بدولت یہ عالمی شہرت یافتہ ایئر لائن بنی۔

ابتدائی دور

بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہدایت پر تقسیم برصغیر سے چند ماہ پہلے بننے والی ایک نجی ایئر لائن ’اورینٹ ایئر ویز‘ کا 1950 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پی آئی اے سے پہلے اشتراک اور پھر انضمام ہوا۔

یہدہائی ابھی آدھی بھی نہیں گزری تھی جب پی آئی اے نے تب پاکستان کے دارالحکومت کراچی اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے شہر ڈھاکہ کے درمیان سروس شروع کی۔

ہوا بازی کے مؤرخ مورِس وِکسٹیڈ کے مضمون ’سروائول تھرو ایڈورسٹی‘ کے مطابق اس سے پہلے پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں میں 2,253 کلومیٹر کا سفر صرف انڈیا کے راستے ممکنہ طور پر خطرناک تین دن کے ریل کے سفر یا پھر سیلون (سری لنکا) کے راستے ایک ہفتے میں سمندری جہاز سے طے ہوتا تھا۔

سنہ 1955 میں کراچی سے قاہرہ اور پھر روم کے راستے لندن کے لیے بین الاقوامی سروس کی ابتدا ہوئی۔ اورینٹ ایئر ویز کا پی آئی اے سے انضمام اس سے ایک ماہ بعد ہوا اور ظفرالاحسن پاکستان کی قومی ایئر لائن کے پہلے منتظم مقرر ہوئے۔

سید اصغر اور ڈاکٹر حسن محسن کی نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے جریدے میں چھپنے والے مضمون ’پی آئی اے – اے کیس سٹڈی‘ کے مطابق ’معاشی طور پر اہم، کراچی میں پی آئی اے کے مرکزی دفتر کا قیام ظفرالاحسن کی سوچ کا نتیجہ تھا۔ گلگت کے لیے پروازوں کی شروعات اور 1956 میں انجن ٹیسٹ بیڈ کے ساتھ ریڈیو اور ایئر فریم ورکشاپس کا قیام اور بہترین جہازوں کا حصول بھی ان کے دور کے بڑے کام تھے۔‘

نور خان اور سنہری دور

ایئر کموڈور ملک نور خان نے سنہ 1959 میں پی آئی اے کی قیادت سنبھالی۔ پی آئی اے کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ارشاد غنی کا کہنا ہے کہ 1959 سے ہی وہ دور شروع ہوا جسے اکثر پی آئی اے کا گولڈن ایرا (یعنی سنہری دور) کہا جاتا ہے۔

بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں 1978 سے 2013 تک فلائٹ آپریشنز، آئی ٹی، کارپوریٹ پلاننگ اور مارکیٹنگ کے شعبوں میں اہم ذمہ داریاں نبھانے والے ارشاد غنی نے بتایا کہ اس عرصے میں پی آئی اے نے بے پناہ ترقی کی۔

’سنہ 1960 میں ڈھاکہ، کراچی اور لندن کے درمیان پہلی بار بوئنگ 707 سے فلائٹ شروع کی گئی۔ پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی جس نے جیٹ ایئرکرافٹ آپریٹ کیا۔ مشرقی پاکستان میں ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے چھوٹے شہروں کو ڈھاکہ کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ مغربی پاکستان میں بھی سات، آٹھ چھوٹے سٹیشنز کو بڑے شہروں کے ساتھ جوڑا گیا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 1962 میں پی آئی اے نے نیویارک کے لیے فلائٹ شروع کی، جس کے بعد دنیا بھر میں اس کی پہچان بڑھ گئی۔‘

اسی دور میں پی آئی اے کے دو پائلٹس، کیپٹن عبداللہ بیگ اور کیپٹن غیور بیگ نے لندن سے کراچی کی پرواز میں چھ گھنٹے 43 منٹ اور 55 سیکنڈ میں عالمی ریکارڈ قائم کیا، جو آج تک قائم ہے۔

سنہ 1965 کی انڈیا، پاکستان جنگ سے کچھ عرصہ قبل، نور خان کو ایئر فورس اور ایئر مارشل اصغر خان کو پی آئی اے کا سربراہ بنا دیا گیا۔

فرانسیسی ڈیزائنر کا تیار کردہ یونیفارم

اصغر خان ہی کے دور میں پی آئی اے کے کیبن کریو یعنی عملے کا یونیفارم عالمی شہرت یافتہ فرانسیسی ڈیزائنر پیئر کارڈین نے تیار کیا۔ یہ ڈیزائن پاکستان میں فیشن پر خوب اثرانداز ہوا۔

سمین خان نے ’ڈان‘ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ لمبے کرتے کی جگہ مِنی ٹیونک نے لے لی۔چوڑے پائنچوں والی شلوار کی جگہ روایتی ’آڑا پاجامہ‘ کی طرز پر بنائے گئے پاجامے نے لے لی جسے ’پی آئی اے پاجامہ‘ کا نام دیا گیا۔ خوبصورت کاؤل دوپٹہ پہننے اور سنبھالنے میں آسان تھا۔ آج بھی کارڈن کا دوپٹہ پی آئی اے یونیفارم کا لازمی حصہ ہے۔

سمین خان بیگم امینہ اصغر خان کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’بیگم کلثوم سیف اللہ، بیگم عبدالقادر اور کچھ دیگر خواتین، ڈیزائن کی منظوری کے لیے کمیٹی میں شامل تھیں۔ میرے شوہر نے مجھے بھی کمیٹی میں رکھا۔ خواجہ شہاب الدین (وزیر اطلاعات و نشریات) بھی موجود تھے۔ ہم نے مختلف ڈیزائنرز کے بہت سے ڈیزائن دیکھے اور کچھ اچھے تھے لیکن کارڈن کا ڈیزائن سب سے اچھا تھا اور اسے منتخب کیا گیا۔ کارڈن کا خیال تھا کہ پاجامہ شلوار سے بہتر ہے۔ ان کے خیال میں جوتے بھی شلوار کے بجائے پاجامہ پر بہتر لگتے ہیں۔‘

’یقیناً تنقید بھی ہوئی۔ کچھ نے اسے پسند کیا ،کچھ نے نہیں کیا۔ جب آخرکار یونیفارم بنا اور پہنا گیا تو شہاب الدین نے میرے شوہر سے کہا کہ مجھے یہ بالکل پسند نہیں۔ میرے شوہر نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے، آپ کو اسے پہننا بھی نہیں۔‘

سقوط ڈھاکہ کے باوجود پی آئی اے کی اڑان

ارشاد غنی کا کہنا تھا جب 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو بعض لوگوں کا خیال تھا کہ پی آئی اے بھی آدھی رہ جائے گی ’لیکن حکومتِ پاکستان نے کاروباری شخصیت رفیق سہگل کو پی آئی اے کا انتظام سنبھالنے کی دعوت دی۔ انھوں نے مینیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اعلان کیا کہ کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا اور ادارہ مزید ترقی کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔‘

’سہگل کے دور میں اور بعد کے ادوار میں پی آئی اے کا بیڑا اور نیٹ ورک بڑھتا رہا۔ 1960 کی دہائی میں بوئنگ 707 آئے، 1970 کی دہائی میں ڈی سی 10، اور بعد میں بوئنگ 747 اور ایئربس اے 300 جیسے جدید طیارے شامل کیے گئے۔ پی آئی اے ایشیا میں بوئنگ 737-300 متعارف کرانے والی پہلی ایئرلائن تھی۔‘

دو سال بعد نور خان کو پھر سے پی آئی اے کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے نے 1992 تک کے ’سنہری دور‘ میں خطے میں ہوا بازی کے میدان میں سبقت حاصل کی۔ ’ادارے نے اپنی سہولیات خود تیار کیں، جیسے فلائٹ کچن، ٹریننگ سینٹر اور فلائٹ سیمولیٹر، مرمت اور دیکھ بھال کی تمام سہولیات بھی خود فراہم کیں، جس سے پی آئی اے خود کفیل بن گئی۔‘

غیر ملکی ایئرلائنز کی معاونت

ارشاد غنی کے مطابق پی آئی اے نے اپنے قیام کے بعد پہلی بار غیر ملکی ایئر لائنز کو تکنیکی اور انتظامی معاونت فراہم کرنا یا طیارے لیز پر دینا شروع کیا۔

ان ایئر لائنز میں ایئر چائنا، ایئر مالٹا، چو سون مین ہینگ (جو آج ایئر کوریوکے نام سے جانی جاتی ہے)، فلپائن ایئر لائنز، صومالی ایئر لائنز اور یمنیہ شامل تھیں۔

’پی آئی اے کے سابق چیف پائلٹ کیپٹن فضل غنی میاں نے دبئی سے کراچی کے لیے ایمریٹس کی پہلی پرواز چلائی۔ پی آئی اے کی ایک ذیلی کمپنی نے متحدہ عرب امارات میں ہوٹل مینجمنٹ کی خدمات فراہم کرنا بھی شروع کیں۔‘

ارشاد غنی کہتے ہیں کہ پی آئی اے نان کمیونسٹ دنیا کی پہلی ایئرلائن تھی جس نے چین کے لیے کمرشل پروازیں شروع کیں۔

’پی آئی اے نے چین جانے کے لیے پہلے سے موجود روایتی راستوں کو ترک کر کے ایک نیا اور مختصر راستہ، قراقرم کے اوپر سے تخلیق کیا اور وہاں سے پروازوں کا آغاز کیا۔ پی آئی اے پہلی ایئر لائن تھی جس نے بین الاقوامی راستوں پر دورانِ پرواز فلمیں دکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ، پی آئی اے نے پلینیٹیریئمز بھی بنائے، جو ایک اور انقلابی قدم تھا۔‘

اُن کے مطابق اس دور میں پی آئی اے کا نیٹ ورک ٹوکیو سے نیویارک اور افریقہ سے یورپ تک پھیلا ہوا تھا جس نے پاکستان کے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد کی اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

فرائڈے ٹائمر میں اختر ممونکا نے پی آئی اے کے عروج و زوال پر اپنی تحریر میں لکھاکہ ’پی آئی اے نے خلیجی ممالک میں بڑھتی ہوئی لیبر مارکیٹ سے فائدہ اٹھایا اور آمدنی میں غیر معمولی اضافہ کیا۔‘

’1978 میں پی آئی اے انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے قیام کے ساتھ، روزویلٹ ہوٹل نیویارک، پیرس میں ہوٹل سکرائب اور دیگر مشہور ہوٹلوں میں سرمایہ کاری کی گئی۔ ہوٹل انٹرکانٹیننٹل کی چین کی تعمیر کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ پین ایم کے ساتھ مل کر یہ فائیو سٹار ہوٹل کراچی، ڈھاکہ، لاہور، راولپنڈی اور پشاور میں بنائے گئے تھے۔‘

’پی آئی اےکیڈیوٹی فری اشیا کا معیار اور قیمتیں لاجواب تھیں۔ پی آئی اے کے کیلنڈر کی اتنی طلب ہوتی تھی کہ یہدوگنا چھاپنے کے باوجود پوری نہیں ہوتی تھی۔‘

نور خان جو مسافروں کے تبصرے خود پڑھتے اور جواب دیتے

فرائڈے ٹائمز میں اختر ممونکا نے پی آئی اے کے عروج و زوال پر اپنی تحریر میں لکھا کہ ’نور خان مسافروں کے تبصرے خود پڑھتے اور ہر ایک کا دستخط شدہ جواب بھیجتے۔‘

سمیر طارق ’ایکسپریس ٹریبیون‘ اخبار میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ان کے والد ٹریول اور ایئر لائن انڈسٹری کا حصہ تھےاور ان کے مطابق نور خان اکثر رات یا صبح کے وقت سرپرائز چیک کرتے اور صرف ہوائی جہاز کے حالات ہی نہیں بلکہ عملے کے یونیفارم کی صفائی اور چیک اِن کاؤنٹرز کی حالت بھی ذاتی طور پر چیک کرتے تھے۔

نور خان کے انقلابی اقدامات کی بدولت پی آئی اے ایک بین الاقوامی معیار کی ایئرلائن بنگئی، جو پاکستان کے لیے فخر کا باعث تھی۔

محمد اختر ممونکا کے مطابق نور خان نے دلیرانہ فیصلے کیے اور پی آئی اے کو ایشیا کی صفِ اول کی ایئر لائن اور دنیا کی پانچ بہترین ایئر لائنز میں شامل کر دیا

محمد مشہود تاجور پی آئی اے کے ساتھ 35 سال تک وابستگی میں جنرل منیجرکے عہدے تک پہنچے اور پی آئی اے کے ترجمان بھیرہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پی آئی اے نے اپنی کامیابیوں اور خدمات سے قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی ساکھ بنائی۔

’جہاں پاکستان کے سفارتی مشنز موجود تھے، وہاں پی آئی اے ان کی معاونت کرتی تھی اور جہاں سفارتی مشنز موجود نہیں تھے، وہاں پی آئی اے کی موجودگی نے پاکستان کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کیں۔ یوں یہ ادارہ کئی ممالک میں پاکستان کے غیر رسمی سفیر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔‘

ان دنوں پی آئی اے کے اشتہاری الفاظ تھے کہ ’ہر ساتویں منٹ میں پی آئی اے کی ایک پرواز دنیا کے کسی نہ کسی مقام پر اُترتی یا روانہ ہوتی ہے۔‘

تاجور کے مطابق ’سنہ 2000 کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پی آئی اے کی انجینئرنگ کی مہارت کو تسلیم کرتے ہوئے بوئنگ، ایئربس اور جنرل الیکٹرک نے اپنے طیاروں کے پرزے تیار کرنے کے لیے پی آئی اے کو آرڈرز دیے، جو اس کی تکنیکی صلاحیتوں کی عالمی سطح پر پذیرائی کا مظہر ہے۔‘

اپنی سنہری تاریخ کے دوران پی آئی اے نے حفاظت کا ایک شاندار ریکارڈ برقرار رکھا۔ یہ 2005 میں **IOSA** (IATA آپریشنل سیفٹی آڈٹ) میں کوالیفائی کرنے والی خطے کی پہلی ایئر لائن تھی، جو اس کی حفاظت اور آپریشنل معیار کا بڑا اعتراف ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.