اندرا گاندھی نے خود پر لگے الزامات پر ایوان میں اپنی تقریر میں کہا کہ میں ایک عام آدمی ہوں لیکن میں ہمیشہ کچھ اقدار اور اہداف کے ساتھ وفادار رہی ہوں، آپ کی طرف سے دی جانے والی ہر سزا مجھے مزید مضبوط بنائے گی۔ میرا سوٹ کیس پہلے ہی سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اس میں صرف گرم کپڑے رکھنے کی ضرورت ہے۔
جب اندرا گاندھی نے سنہ 1977 کے الیکشن ہارنے کے ڈیڑھ سال بعد کرناٹک کے چکمگلور سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا تو ووٹنگ کے دن پورے علاقے میں موسلا دھار بارش ہوئی۔
اس کے باوجود تقریباً تین چوتھائی ووٹرز اپنا ووٹ ڈالنے آئے۔ اندرا گاندھی اسی دن دہلی واپس آگئیں۔
دو دن بعد جب وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر سوویت یونین کے قومی دن کی تقریبات میں شرکت کے لیے سوویت سفارت خانے جا رہی تھیں تو انھیں خبر ملی کہ وہ لوک سبھا کا ضمنی انتخاب 70 ہزار ووٹوں سے جیت چکی ہیں۔
تقریب میں سوویت سفیر نے اندرا کی جیت کا جشن منانے کے لیے شیشہ اٹھایا۔
چار دن بعد اندرا گاندھی کو لندن جانا پڑا۔ سونیا گاندھی بھی ان کے ساتھ لندن گئیں۔ وہاں سے دہلی واپس آنے سے پہلے اندرا اور سونیا راہل اور پرینکا کے لیے لندن کی مشہور آکسفورڈ سٹریٹ پر شاپنگ کرنے نکلیں۔
اس وقت انھوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ دہلی میں انھیں پارلیمنٹ سے نکالنے اور گرفتار کرنے کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔
پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی نے انھیں وزارت صنعت کے چار عہدیداروں کو ہراساں کرنے کا قصوروار قرار دیا تھا جو ماروتی کیس کی تحقیقات کر رہے تھے جب وہ وزیر اعظم تھیں۔
اس رپورٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے پہلے جنتا پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے فیصلہ کیا کہ اندرا گاندھی اس معاملے میں قصوروار ہیں اور انھیں سزا ملنی چاہیے۔
لیکن اس سے پہلے کہ ان الزامات کی کسی بھی عدالت میں سماعت ہو، جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے ایوان میں اپنی اکثریت کا استعمال کرتے ہوئے انھیں پارلیمنٹ کے اجلاس کے اختتام تک جیل بھیجنے اور ان کی لوک سبھا کی رکنیت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
پپل جے کر اپنی اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ اندرا جانتی تھیں کہ شاہ کمیشن کی تحقیقات، گرفتاری کی کوشش اور سی بی آئی سے پوچھ گچھ کی کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد استحقاق کمیٹی کا استعمال ان کے سیاسی مستقبل کو برباد کرنے کے لیے کیا جائے گا۔ اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ لوک سبھا کے فلور پر ان کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کا جواب دیں گی۔
اندرا گاندھی کی لوک سبھا میں تقریر
اندرا گاندھی نے جیسے ہی پارلیمنٹ میں بولنا شروع کیا، جنتا پارٹی کے اراکین اسمبلی نے شور مچا کر انھیں خاموش کرانے کی کوشش کی۔
اندرا گاندھی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’جنتا پارٹی کے پارلیمانی بورڈ نے مجھے اس معاملے میں پہلے ہی قصوروار پایا ہے، اس لیے میرے لیے اپنے دفاع میں کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن کیا مجھے یہ حق ہے کہ میں واضح طور پر کہوں کہ میں نے خلاف ورزی نہیں کی؟
’ملک کی کئی عدالتوں میں اس معاملے پر فوجداری مقدمات پہلے ہی درج ہو چکے ہیں، اس کے باوجود مجھے یہاں سزا دے کر پورے معاملے کو پہلے سے طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے اس قدم کا مقصد انتقام ہے، کسی بھی جمہوری ملک کی تاریخ میں کسی اپوزیشن پارٹی کے رہنما کے کردار کو مجروح کرنے کی ایسی کوشش نہیں کی گئی۔‘
’میں واپس آؤں گی‘
اندرا گاندھی نے کہا کہ میں پہلے بھی کئی فورمز پر ایمرجنسی کی زیادتیوں پر معافی مانگ چکی ہوں اور یہاں بھی دوبارہ معافی مانگتی ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ’میں ایک عام آدمی ہوں لیکن میں ہمیشہ کچھ اقدار اور اہداف کے ساتھ وفادار رہی ہوں، آپ کی طرف سے دی جانے والی ہر سزا مجھے مزید مضبوط بنائے گی۔ میرا سوٹ کیس پہلے ہی سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اس میں صرف گرم کپڑے رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
جیسے ہی اندرا گاندھی نے اپنی تقریر ختم کی وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور اپنی باہر ایم پیز کی طرف چلی گئیں۔
ہسپانوی مصنف جیویئر مورو اپنی کتاب ’دی ریڈ ساڑھی‘ میں لکھتے ہیں کہ ’وہ وہاں سے ایک بار پھر مڑی، ایوان پر گہری نظر ڈالی اور اپنی ہتھیلی اٹھا کر کہا، 'میں واپس آؤں گی۔‘
اس دن سونیا نے رات کے کھانے کے لیے پاستا تیار کیا تھا۔ اس مٹھائی میں امرود کی کریم اور الہ آباد کے مشہور آم پاپڑ شامل تھے۔
آم کے پاپڑ اسے ہمیشہ بچپن کی یاد دلاتے تھے۔ رات کے کھانے کے بعد انھوں نے پرینکا کو بلایا اور کہا، ’میرے ساتھ سکریبل کھیلو۔‘
اندرا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں طیارہ ہائی جیک کیا گیا
اگلے دن اندرا کو گرفتار کر کے تہاڑ جیل بھیج دیا گیا۔
ساگاریکا گھوش اندرا گاندھی کی سوانح عمری ’اندرا، انڈیا کی سب سے طاقتور وزیر اعظم‘ میں لکھتی ہیں کہ ’اندرا کو جیل بھیجے جانے کے خلاف احتجاج میں کانگریس کے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
’دو افراد، دیویندر اور بھولناتھ پانڈے نے کھلونا پستول اور کرکٹ کی گیند کی مدد سے انڈین ایئر لائنز کی پرواز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی۔ وہ زبردستی لکھنؤ سے دہلی کی پرواز بنارس لے گئے۔‘
وہاں انھوں نے اندرا گاندھی کی فوری رہائی اور سنجے گاندھی کے خلاف تمام مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
دو سال بعد ان دونوں ہائی جیکرز کو اتر پردیش اسمبلی کے لیے کانگریس کا ٹکٹ دیا گیا اور وہ الیکشن بھی جیت گئے۔
سلاخوں پر کمبل
تہاڑ میں اندرا گاندھی کو اسی سیل میں رکھا گیا جہاں ایمرجنسی کے دوران جارج فرنینڈس کو رکھا گیا تھا۔ وہاں اس کا روزانہ کا معمول صبح پانچ بجے شروع ہو جاتا تھا۔
پپل جےاکر لکھتے ہیں کہ ’وہ جاگتے ہی ’یوگا‘ اور ’پرانام‘ کرتی تھیں۔ اس کے بعد وہ ٹھنڈا دودھ پیتی تھیں جو سونیا شام سے پہلے لائی تھیں۔ اس کے بعد وہ دوبارہ سو جاتی تھیں۔‘
’جاگنے کے بعد، وہ غسل کرتیں، تھوڑی دیر کے لیے مراقبہ کرتیں اور ایک کتاب پڑھتی تھیں۔ انھیں جیل میں چھ کتابیں لانے کی اجازت تھی۔ ان کا کھانا ان کے گھر پر پکایا جاتا تھا اور ہر صبح و شام سونیا گاندھی خود لاتی تھیں۔‘
کیتھرین فرینک اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’اندرا گاندھی کو سونے کے لیے لکڑی کا بستر دیا گیا تھا۔ لیکن اس پر کوئی گدا نہیں تھا۔ کھڑکیوں پر نہ پردے تھے اور نہ ہی شیشے، صرف سلاخیں تھیں۔‘
’دسمبر کے مہینے میں رات کو بہت ٹھنڈ پڑ جاتی تھی۔ سردی سے خود کو بچانے کے لیے اندرا کھڑکی کی سلاخوں پر کمبل لٹکا کر لحاف اوڑھ کر سوتی تھیں۔
چرن سنگھ کو پھولوں کا گلدستہ بھیجا
اگلے دن جیل وارڈن نے اندرا گاندھی کوبتایا کہ راجیو گاندھی اور سونیا ان سے ملنے آئے ہیں۔
انھیں یہ دیکھ کر برا لگا کہ اندرا کو ان حالات میں جیل میں رہنا پڑا۔
اندرا نے ان سے ان کے پوتے کے بارے میں پوچھا۔
ہووی مورو لکھتے ہیں کہ ’راجیو نے اندرا سے کہا، 'پرینکا آپ سے ملنے آنا چاہتی تھیں۔ پرینکا کا نام سنتے ہی اندرا کا چہرہ چمک اٹھا۔‘
انھوں نے کہا کہ اگلی بار اسے بھی لے آؤ۔ یہ دیکھنا اس کے لیے اچھا ہو گا کہ جیل کیسی ہوتی ہے۔
نہرو خاندان میں شروع سے ہی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنے خاندان کے افراد سے ملنے جیل جاتے ہیں۔ اگلی بار جب راجیو اور سونیا ان سے ملنے آئے تو وہ پرینکا کو اپنے ساتھ لے آئے۔
جاتے وقت اندرا نے سونیا سے درخواست کی کہ وہ اپنی طرف سے چرن سنگھ کو پھولوں کا گلدستہ اور سالگرہ کا نوٹ بھیجیں۔
اندرا چرن سنگھ کے گھر پہنچ گئیں
جنتا پارٹی کی حکومت کی مدت ختم ہونے میں ابھی تین سال باقی تھے۔ لیکن اندرا گاندھی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جنتا پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے درمیان قیادت کے حوالے سے شدید کشمکش ہے۔
چرن سنگھ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی سے بہت ناراض تھے۔ اندرا نے سوچا کہ چرن سنگھ کے عزائم کی حوصلہ افزائی کر کے ان کے اور مرار جی ڈیسائی کے درمیان خلیج کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
چرن سنگھ کو پھول بھیجنے کے پیچھے شاید یہی مقصد تھا۔
جیل سے باہر آتے ہی چرن سنگھ کا ایک خط اس کا انتظار کر رہا تھا جس میں اسے اپنے پوتے کی پیدائش پر گھر آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
پپل جیاکر لکھتے ہیں کہ ’جب اندرا گاندھی چرن سنگھ کے گھر پہنچیں تو چرن سنگھ اور ان کی اہلیہ نے ان کا اپنے پورٹیکو میں استقبال کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس تقریب میں مورار جی دیسائی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اندرا اور دیسائی ایک ہی صوفے پر بیٹھے۔‘
’اس دوران مورار جی بالکل بے چین نظر آئے۔ انھوں نے اندرا سے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اندرا نے چرن سنگھ اور ان کی اہلیہ سے بہت گرمجوشی سے بات کی۔ انھوں نے مٹھائی کھائی اور نوزائیدہ بچے کو گود میں لے کر اسے آشیرواد دی۔
چرن سنگھ سے اندرا گاندھی کی ناراضگی
جیل سے رہائی کے ایک ہفتہ بعد اندرا چکمگلور چلی گئیں۔
وہاں اپنے حلقے کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ آپ کے فیصلے کو حکومت نے غیر قانونی اور جان بوجھ کر مسترد کیا ہے۔
اندرا گاندھی نے مرارجی حکومت کو گرانے کے لیے چرن سنگھ کی حمایت کی۔ چرن سنگھ نے 28 جولائی 1979 کو وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔
حلف اٹھاتے ہی انھوں نے اندرا گاندھی کو اظہار تشکر کے لیے بلایا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ان سے ملنے آئیں گے۔
پہلے وہ بیجو پٹنائک سے ملنے ولنگٹن ہسپتال جائیں گے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے اندرا گاندھی کی رہائش گاہ 12 ولنگٹن کریسنٹ پر رکیں گے۔
ستیہ پال ملک یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’لیکن آخری وقت میں چرن سنگھ کے کسی رشتہ دار نے ان کی بات سنی، اب آپ وزیر اعظم ہیں، آپ ان کی جگہ کیوں جا رہے ہیں، انھیں آپ سے ملنے آنا چاہیے۔‘
نیرجا چودھری اپنی کتاب ’ہاؤ پرائم منسٹرز ڈیسائیڈ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’اندرا گاندھی ہاتھوں میں گلدستہ لیے اپنے گھر کے پورٹیکو میں چرن سنگھ کا انتظار کر رہی تھیں۔ ان کے ساتھ کانگریس کے تقریباً 25 سینیئر لیڈر بھی کھڑے تھے۔‘
’اندرا گاندھی نے دیکھا کہ چرن سنگھ کی گاڑیوں کا قافلہ ان کے گھر کے سامنے سے ان کے گیٹ کی طرف مڑے بغیر گزرا۔ اندرا گاندھی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ وہ گلدستہ زمین پر پھینک کر گھر کے اندر چلی گئیں۔‘
ستیہ پال ملک نے مجھے بتایا کہ اسی وقت میں سمجھ گیا تھا کہ چرن سنگھ کی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی۔
بعد میں چرن سنگھ نے اندرا گاندھی سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا جواب تھا، ’ابھی نہیں۔‘
اندرا کی بھرپور انتخابی مہم
19 اگست کو اندرا گاندھی نے چرن سنگھ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی اور چرن سنگھ کو ایک بار بھی پارلیمنٹ کا سامنا کیے بغیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ در نیلم سنجیوا ریڈی نے لوک سبھا کو تحلیل کرتے ہوئے نئے عام انتخابات کا اعلان کیا۔
ہووی مورو لکھتے ہیں کہ انتخابی مہم پر جانے کے لیے ’اندرا گاندھی نے دو سوٹ کیسوں میں آدھی درجن سوتی ساڑھیاں، دو تھرموس، ایک گرم پانی کے لیے اور دوسرا ٹھنڈے دودھ کے لیے، دو تکیے، مونگ پھلی، کچھ خشک میوہ جات رکھے۔‘
انھوں نے کل 70 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور اوسطاً ہر روز تقریباً 20 انتخابی جلسوں سے خطاب کیا۔
مورو نے اندازہ لگایا کہ انڈیا میں چار میں سے ایک ووٹر نے اندرا کو سنا یا دیکھا۔
اندرا نے پیاز اور آلو کی قیمت کو الیکشن کا اہم مسئلہ بنایا۔ ان کی انتخابی مہم کا بنیادی پیغام تھا، ’ان کو منتخب کریں جو حکومت چلا سکتے ہیں۔‘
اندرا وزیر اعظم کے طور پر واپس آئیں
6 جنوری کو ووٹوں کی گنتی کے پہلے ہی گھنٹے سے یہ اشارے ملنا شروع ہو گئے کہ 33 ماہ قبل جس خاتون کو ’تاریخ کے کوڑے دان میں‘ پھینک دیا تھا، اسی خاتون کو عوام نے ایک بار پھر وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اندرا کانگریس کو کل 353 سیٹیں ملیں۔
دو سال قبل اقتدار میں آنے والی جنتا پارٹی صرف 31 سیٹیں جیت سکی۔
14 جنوری 1980 کو انھوں نے راشٹرپتی بھون کے اشوکا ہال میں چوتھی بار وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔
جب ایک غیر ملکی صحافی نے ان سے پوچھا کہ وہ ایک بار پھر انڈیا کی سربراہ بن کر کیسا محسوس کر رہی ہیں، تو اندرا نے جواب دیا کہ میں ہمیشہ انڈیا کی لیڈر رہی ہوں۔‘