قندھار ہائی جیکنگ: انڈین مسافر طیارے کا اغوا جس کے بعد کھٹمنڈو ایئرپورٹ پر انڈیا کو اضافی سکیورٹی چیک کی اجازت دینا پڑی

اگر آپ کھٹمنڈو کے تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے سےانڈین پرواز سے انڈیا جارہے ہیں، تو آپ کو آج بھی ایکاضافی سکیورٹی چیک سے گزرنا ہوگا لیکن اس کی وجہ جاننے کے لیے آپ کو 25 سال پیچھے جانا ہوگا۔
کھٹمنڈو سے انڈین ایئرلائنز کے ذریعے سفر کرتے وقت، ہوائی اڈے کے تارمیک پر بلند کیبن پر ایک اضافی سکیورٹی چیک ہوتا ہے
BBC
کھٹمنڈو سے انڈیا جانے والے مسافروں کو معمول کی سکیورٹی کے علاوہ طیارے میں سوار ہونے سے قبل ایک کیبن سے گزرنا پڑتا ہے جہاں اُن کا اضافی سکیورٹی چیک ہوتا ہے

آج سے ٹھیک 25 برس قبل یعنی 24 دسمبر 1999 کی سہ پہر انڈین ایئر لائنز کی پرواز IC-814نے نیپال کے کھٹمنڈو ایئرپورٹ سے نئی دہلی کے لیے اڑان بھری تو اس پر تقریباً 180 مسافر سوار تھے۔

پرواز کے کچھ ہی دیر بعد پانچ اغواکاروں نے اس مسافر طیارے کو ہائی جیک کر لیا۔

اغواکار جہاز کو پہلے انڈیا کے شہر امرتسر، پھر پاکستان میں لاہور اور بالآخر افغانستان کے شہر قندھار لے گئے۔

IC-814کی ہائی جیکنگ کا ڈراپ سین تو سات دن کے بعد ہی ہو گیا لیکن آج 25 سال بعد بھی اس کے اثرات نیپال سے انڈیا جانے والی ہر مسافر پرواز کے اُڑان بھرنے سے قبل دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس ہائی جیکنگ کی تفصیلات میں جانے سے قبل یہ پڑھ لیتے ہیں کہ وہ خصوصی سکیورٹی اقدامات کیا ہیں جن سے گذشتہ 25 سال سے نیپال سے انڈیا جانے والی ہر پرواز کے مسافروں کو گزرنا پڑتا ہے۔

اب کھٹمنڈو کے تریبھون ایئرپورٹ سے انڈیا جانے والے ہر طیارے پر سوار ہونے والے مسافروں کو امیگریشن اور روٹین کے سکیورٹی چیک کے بعد ایک اضافی سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہوائی جہاز کے دروازے کے قریب ایک سکیورٹی کیبن لگا ہوتا ہے جس سے مسافروں کو گزرنا پڑتا ہے۔ یہاں خصوصی طور پر تعینات انڈین سکیورٹی اہلکار مسافروں کی دوبارہ تلاشی اور جانچ پڑتال کرتے ہیں۔

نیپال کی حکومت نے 1999 کی ہائی جیکنگ کے بعد ہی انڈیا کی درخواست پر اس اضافی سکیورٹی کلیئرنس کاؤنٹر کو لگانے کی اجازت دی تھی۔ تاہم اب نیپال کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی مزید ضرورت نہیں رہی ہے۔

نیپال کی حکومت کے ترجمان پرتھوی سبا گرونگ نے بی بی سی کو بتایا کہ اضافی سکیورٹی کا یہ معاہدہ اُس وقت طے پایا تھا جب انڈین فضائی کمپنیوں کو نیپال کی سکیورٹی پر زیادہ اعتماد نہیں تھا۔ ’اب میں اسے ضروری نہیں سمجھتا کیونکہ ہم نے تمام پروازوں کے لیے اب ایئرپورٹس پر ضروری حفاظتی انتظامات کر لیے ہیں۔‘

NEPAL
BBC
انڈیا جانے والے مسافر خصوصی سکیورٹی کیبن سے گزرنے کے منتظر

نیپالی تجزیہ کار کہتے رہے ہیں کہ کھٹمنڈو ایئرپورٹ پر اضافی سکیورٹی چیک سے ظاہر ہوتا ہے کہ 25 سال قبل طیارہ ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد سے دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات پر پڑنے والے منفی اثرات ابھی تک نہیں مٹ سکے ہیں۔

ہائی جیکنگ کے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی سرکاری کمیٹی کے رُکن اور سابق ہوم سیکریٹری کھیمراج رگمی کہتے ہیں کہ ہائی جیکنگ کے بعد نیپال کے حوالے میں انڈیا کی سکیورٹی تشویش بڑھ گئی تھی۔ ’یہاں تک کہ واقعے کی تحقیقات کے دوران بھی انڈیا کی طرف سے نیپالی حکومت پر مختلف دباؤ آئے۔‘

انڈین ایئر لائنز کے طیارے کے اغوا کے بعد انڈیا نے نیپال جانے والی انڈین فضائی کمپنیوں کی تمام پروازیں روک دی تھیں۔ انڈیا نے پروازوں کا سلسلہ پانچ ماہ بعد اُس وقت بحال کیا تھا جب نیپال نے اپنے ایئر پورٹ پر انڈیا کو خصوصی حفاظتی انتظامات کی اجازت دی۔

جب دسمبر 1999 میں انڈین پرواز کو ہائی جیک کیا گیا تھا تو کرشنا بی راجن نیپال میں انڈیا کے سفیر کے طور پر تعینات تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس اضافی سکیورٹی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انڈیا کو نیپال کے سکیورٹی کے نظام پر اعتماد نہیں بلکہ یہ ایک احتیاطی تدابیر ہے، تاکہ کچھ غلط نہ ہو۔

نیپال حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہندوستان کی طرف سے کئے گئے اضافی سیکورٹی چیک کی اب ضرورت نہیں ہے۔
BBC
نیپالی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ 25 سال قبل پیش آئے واقعے کی بنیاد پر انڈیا کی طرف سے نیپال کے ایئرپورٹ پر کیے جانے والے اضافی سکیورٹی چیک کی اب ضرورت نہیں ہے

نیپالی حکومت کے ترجمان پرتھوی سبا گرونگ کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد نیپال کے ہوائی اڈوں پر خود نیپال کی طرف سے کیے گئے حفاظتی انتظامات اور چیکنگ کو بھی سخت کر دیا گیا تھا۔

سکیورٹی تجزیہ کار سدھیر شرما کہتے ہیں کہ انڈیا کو اس ہائی جیکنگ کے نتیجے میں مسافروں کو بازیاب کروانے کے لیے جو ڈیل کرنی پڑی اور جن افراد کو اپنی جیلوں سے رہا کرنا پڑا، اس کی وجہ سے آنے والے برسوں میں جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی۔

یاد رہے کہ اس کامیاب ہائی جیکنگ کے بعد انڈین جیلوں میں قید مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور احمد عمر سعید شیخ کو اغواکاروں کے مطالبے پر رہا کیا گیا تھا۔

سابق انڈین سفیر راجن اعتراف کرتے ہیں کہ اس واقعے نے دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا تھا۔

راجن کہتے ہیں کہ ’ہائی جیکنگ انڈین رائے عامہ کے لیے ایک بڑا جھٹکا تھا اور دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سول سوسائٹی کی سطح پر ہم آہنگی متاثر ہوئی اور سیاسی اور حکومتی سطح پر اعتماد کا خاتمہ ہو گیا۔‘

اتل ٹھاکر کا خیال ہے کہ ہائی جیکنگ کی سازش کا مقصد ایک طرف انڈیا اور نیپال کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچانا تھا اور دوسری طرف بدنام زمانہ دہشت گردوں کو انڈیا سے رہائی دلوانا تھا۔

ٹھاکر نے کہا کہ ’اس واقعے کے نتیجے میں انڈیا کو سٹرٹیجک مفادات کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔۔۔‘

ہائی جیکنگ کی واردات

24 دسمبر 1999 کی سہ پہرانڈین ایئر لائنز کی پرواز IC 814کو حرکت المجاہدین کے پانچ اغواکاروں نے کھٹمنڈو ایئرپورٹ سے اڑنے کے فوراً بعد ہائی جیک کر لیا تھا۔

اغوا ہونے والے اس طیارے میں موجود نیپالی مسافروں میں سے ایک سنجے دھیتل اُس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم نے فضائی میزبانوں کی جانب سے دیے گئے کھانے کے ڈبے کھولے بھی نہیں تھے کہ ہمیں (اغواکاروں کی جانب سے) زمین پر لیٹنے کو کہا گیا۔ پہلے پہل تو ہمیں لگا کہ شاید وہ زیورات چرانے آئے ہیں کیونکہ جہاز میں بہت سے نوبیاہتا جوڑے موجود تھے۔‘

سنجے کی شادی کو بھی ایک ماہ سے کم عرصہ ہوا تھا اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پاکستان جا رہے تھے جہاں وہ جاپان سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اپنے کام کے سلسلے میں وہ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں صحت کی خدمات بھی سر انجام دینے جاتے تھے۔

سنجے کہتے ہیں جب اغوا کاروں کو اُن کے متعلق معلوم ہوا تو اُن کے ’چیف‘ نے انھیں جہاز کے کاک پٹ میں بلا کر ان کا حال احوال پوچھا۔

’اس کے بعد اُن کا میری جانب رویہ کافی نرم ہو گیا۔ جب انھوں نے پوچھا کہ مجھے کسی چیز کی ضرورت تو نہیں تو میں نے ان سے پانی مانگا۔‘

وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کھٹمنڈو سے جہاز کو اغوا کیے جانے کے بعد مسافروں کو کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں دیا گیا تھا۔

’ہائی جیکنگ کے اگلے روز مسافروں کو پلاسٹک کے گلاس میں پانی اور کچھ بسکٹ دیے گئے۔ پھر ہمیں قندھار پہنچنے کے بعد ٹھنڈے چاول اور سبزیاں دی گئیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بعد میں جب اغوا کاروں نے مسافروں کو بتایا کہ وہ کشمیری مسلمان ہیں، تو میں نے سوچا کہ انڈین حکومت ان کے مطالبات کو پورا نہیں کرے گی۔ تب مجھے لگا کہ ہماری جانوں کو واقعی خطرہ ہے۔‘

وہ یاد کرتے ہیں کہ ساتویں دن اچانک اغواکاروں نے کہا کہ ’انڈین حکومت کے ساتھ ہمارے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں،‘ لیکن چند گھنٹوں میں ہی صورتحال پھر بدل گئی اور 31 دسمبر بالآخر قندھار میں ایک ہفتہ طویل قیام کے بعد وہ رہائی پا کر نئی دہلی پہنچ گئے۔

مسافروں کو ہنسانے والے کی اپنی ہنسی چھن گئی

بیوی میرا تمراکر نے بتایا کہ ان کے شوہر گجیندرمن تمراکر اغوا سے رہا ہونے کے بعد بیمار پڑنے لگے۔
BBC
میرا تمراکر نے بتایا کہ اُن کے شوہر گجیندرمن تمراکر اس واقعے کے بعد سے پریشان رہنے لگے تھے

اغوا ہونے والے اس طیارے کے سب سے مشہور مسافروں میں سے ایک گجیندرمان تمراکر تھے جن کا تعلق کھٹمنڈو سے تھا۔

ان کی اہلیہ میرا تمراکر بتاتی ہیں کہ ہائی جیکنگ کے دوران جو کچھ ہوا اس نے ان کی خوشیاں ہمیشہ کے لیے چھین لیں۔

سنجے یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اغوا کے دوران تمراکر بے بس مسافروں کو ہنسا کر اُن کا دل بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نےاغوا کاروں کی نقل کرتے ہوئے ہندی فلم شعلے کے ڈائیلاگ سُنا کر ہمیں ہنسایا۔ لیکن جب انھوں نے اغوا کاروں میں سے ایک کی نقل کی تو وہ غصے میں آ گیا اور پستول سے ان کو مارا۔ اس کے بعد وہ چپ ہو گئے۔‘

اس کے بعد نہ صرف جہاز کے اندرپیش آنے والے واقعات بلکہ باہر کی دنیا میں بھی رونما ہونے والے حالات نے تمراکر کو گہرے صدمے کا شکار کیا۔

ان کے خاندان کو خاص طور پر اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب انڈین میڈیا نے بے بنیاد خبریں پھیلائیں کہ تمراکر بھی اغوا کاروں میں شامل تھے۔ بالآخر اس وقت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر رامشرن مہات کو میڈیا کو بتانا پڑا کہ اغوا کی اس واردات میں کوئی نیپالی شہری ملوث نہیں تھا۔

میرا تمراکر نے کہا کہ اس واقعے کے بعد اُن کے شوہر کی تمام سرگرمیاں کم ہو گئیں، ان کا پشمینہ کا کاروبار ختم ہوگیا اور انھیں نے گھر سے باہر نکلنا بھی بند کر دیا۔

طیارہ ہائی جیکنگ کے دوران نیپالی مسافر گجیندرمان تمراکر کو کچھ بھارتی میڈیا نے بے بنیاد طور پر ہائی جیکر کے طور پر پروموٹ کیا۔
AFP
نیپالی مسافر گجیندرمان تمراکر کو انڈین میڈیا کی جانب سے ہائی جیکروں کا ساتھی قرار دیا گیا تھا

جہاز کے باہر آنے والا طوفان

نیپالی حکومت کی جانب سے واقعے کے بعد قائم کردہ انکوائری کمیٹی کے اہلکار اور سابق ہوم سیکریٹری بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک انتہائی کشیدہ ماحول تھا۔ ایک طرف، انڈین میڈیا نے نیپالی کی سکیورٹی کی کمزوریوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور دوسری جانب ایسے بھی خدشات تھے کہ انڈیا نیپال کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔‘

انڈیا نے فوری طور پر اپنے طیاروں کے نیپال جانے پر پابندی لگادی جو آئندہ پانچ ماہ تک جاری رہی۔

اس وقت کرشنا پرساد بھٹارائی نیپال کے وزیر اعظم تھے اور بی جے پی کے رہنما اٹل بہاری واجپائی انڈیا کے وزیر اعظم تھے۔ سیاسی قیادت کے درمیان خوشگوار تعلقات پائے جاتے تھے لیکن کہا جاتا ہے کہ اس واقعے نے ان کے تعلقات پر بھی اثر ڈالا۔

انڈین سفیر راجن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’دہلی میں اعلیٰ رہنماؤں بشمول وزیر اعظم واجپائی نے محسوس کیا کہ نیپالی قیادت اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا میڈیا نے اسے بہت اچھالا۔‘ راجن کے مطابق نیپال میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ انڈیا نے اپنی ناکامی کا ملبہ کھٹمنڈو پر ڈالنے کی کوشش کی اور اس کی ایک وجہ انڈین میڈیا کی کوریج تھی۔

کھٹمنڈو سے ہائی جیک کیے گئے طیارے کو افغانستان کے شہر قندھار لے جا کر ایک ہفتے تک رکھا گیا۔
Getty Images
کھٹمنڈو سے ہائی جیک کیے گئے طیارے کو افغانستان کے شہر قندھار لے جا کر ایک ہفتے تک رکھا گیا۔

اپنی کتاب ’کھٹمنڈو کرانیکلز‘ میں راجن لکھتے ہیں کہ ہائی جیکنگ کے واقعے نے انڈین عوام کی نظروں میں نیپال کی شبیہ کو نقصان پہنچایا، لیکن اُن کے مطابق اس میں کچھ قصور نئی دہلی کا بھی تھا۔

اُن کے مطابق انڈیا نے نیپال کو بدنام کرنے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی۔ ’انڈین رہنماؤں کے بیانات اور ان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا مقصد واضح طور پر اپنی حکومت کے ناقص انتظام سے توجہ ہٹانا تھا۔‘

ایسے ہی ایک واقعہ کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ نئی دہلی نے ان سے کھٹمنڈو ہوائی اڈے کے تمام علاقوں تک ایک معروف میڈیا کو رپورٹنگ کے لیے رسائی دینے کی درخواست کی، جس کے لیے انھوں نے خود بطور سفیر نیپالی وزیر اعظم کرشنا پرساد بھٹارائی سے ضروری اجازت طلب کر کے انتظامات کیے۔

تاہم بعد میں میڈیا نے یہ خبریں چلائی کہ ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد بھی ’کھٹمنڈو ہوائی اڈے کی سکیورٹی اتنی خراب ہے کہ ٹی وی رپورٹر وہاں کے حساس ترین علاقوں تک بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس کی مخالفت کی لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

تحقیقاتی کمیٹی کا کیا نتیجہ نکلا؟

تحقیقات میں پتہ چلا کہ ہوائی اڈے پر سکیورٹی کے فقدان کی وجہ سے طیارہ ہائی جیکنگ کا واقعہ ممکن ہوا لیکن کمیٹی یہ پتہ لگانے میں ناکام رہی اس کا ذمہ دار کون تھا۔

کمیٹی کے رکن کھیمراج رگمی کہتے ہیں کہ ’ہائی جیکرز نے وہی راستہ اور طریقہ کار اپنایا جو عام مسافر استعمال کرتے تھے۔ انھیں سکیورٹی چیک کے وقت نہیں روکا گیا تھا۔‘

کمیٹی کو معلوم ہوا کہ اس وقت ایئرپورٹ پر نصب 16 سی سی ٹی وی کیمروں میں سے صرف چار کام کر رہے تھے۔رپورٹ میں سکیورٹی اہلکاروں کی مناسب تربیت کے فقدان سے لے کر حساس علاقوں میں آمد و رفت کے لیے درکار اجازت ناموں (پاس) کی اندھا دھند تقسیم اور غیر ضروری افراد کی وہاں تک رسائی کے معاملات اٹھائے گئے۔

رپورٹ میں تجویز دی گئی کہ تمام مقامات پر میٹل ڈیٹیکٹر اور ایکسرے مشینیں لگائی جائیں اور ملازمین کو فضائی حفاظت کی تربیت دی جائے۔

تحقیقات کے دوران ایک اور معاملہ جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ اس وقت کے معاون وزیر سیاحت نارائن سنگھ پن نے دعویٰ کیا کہ انھیں اس واقعے سے ڈیڑھ ماہ قبل طیارے کے ہائی جیک ہونے کے امکانات کی اطلاع ملی تھی لیکن اس کے باوجود کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے۔

رجمی کہتے ہیں کہ سیاسی قیادت کا رویہ ایسے حساس معاملے پر بھی غیر ذمہ دارانہ تھا۔ نارائن سنگھ پن اب زندہ نہیں ہیں۔

ہری بابو چودھری اس وقت نیشنل ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔ یہ محکمہ انٹیلیجنس کلیکشن کا ذمے دار تھا۔ انھیں بھی اس واقعے کے دوران چوکس نہ رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

چودھری نے بی بی سی کو بتایا ’اگرچہ ایسی کچھ افواہیں تھیں کہ اس طرز کا کوئی واقعہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارے پاس کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں۔‘ تاہم وہ بھی ہوائی اڈے پر سکیورٹی کی کمی اور لاپرواہی کا اقرار کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہائی جیکنگ کے وہ آٹھ دن ان کے لیے دباؤ سے بھرپور تھے۔

رجمی کہتے ہیں ایک چیز جو کمیٹی کو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ ہائی جیکنگ میں کوئی نیپالی افسر یا سکیورٹی اہلکار ملوث نہیں تھا، بس سکیورٹی میں لاپرواہی برتی گئی تھی۔

سکیورٹی اُمور کے تجزیہ کار اور صحافی سدھیر شرما بھی اسے نیپال کے ریاستی نظام میں ’کسی بھی چیز کو سنجیدگی سے نہ لینے اور لاپرواہی کو دہرانے‘ کے رجحان سے جوڑتے ہیں۔

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں حکام اب یہ کہہ رہے ہیں کہ نیپال کے ہوائی اڈے کی سکیورٹی بہتر بنائی جا چکی ہے، وہیں سونے کی سمگلنگ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ ایئرپورٹس پر سکیورٹی میں خامیوں پر پوری طرح سے قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.