سینچورین جنوبی افریقہ کے لیے کسی قلعے کی مانند ہے جہاں وہ اس حد تک ناقابلِ تسخیر رہے ہیں کہ یہاں کھیلے گئے 27 میں سے 21 ٹیسٹ میچز انھی کے نام رہے ہیں مگر پاکستان نے یہاں پہلے دن کی کنڈیشنز میں 3.67 کے رن ریٹ سے کھیل کر سارا دباؤ واپس لوٹا دیا جو ٹاس کے وقت باوومہ نے ان پہ ڈالا تھا۔
کگیسو ربادا نے اپنا طویل رن اپ مکمل کیا اور جونہی وہ گیند پھینکنے کے قریب تھے، کامران غلام اچانک اپنا ’سٹانس‘ توڑ کر پیچھے ہٹ گئے اور معذرت خواہانہ انداز میں انھیں بتلایا کہ سائٹ سکرین کے گرد نقل و حرکت دراصل ان کے ارتکاز میں مخل ہو رہی تھی۔
ربادا تو خیر مطمئن ہو ہی گئے مگر وکٹوں کے پیچھے کھڑے کائل ویرینے اس پر سخت معترض ہوئے اور کامران غلام کے عین قریب آ کر انھوں نے کچھ ایسےالفاظ کہے جو پہلے سے ہی گرم اس مقابلے کی حدت اور بڑھانے کو کافی تھے۔
کچھ ہی لمحوں بعد جب ربادا کی ایک آؤٹ سوئنگ ہوتی گیند کامران غلام کے بلے کا باہری کنارہ لیتے لیتے رہ گئی تو وہ کامران کے قریب آئے اور انھیں جتلایا کہ وہ محض خوش قسمت رہ گئے ورنہ اس گیند پر نام انھی کا لکھا تھا۔
مگر کامران غلام محض خوش قسمت نہیں تھے۔
ویسے تو پچھلے چند روز سینچورین کو گاہے بگاہے بارش نے سیراب کیے رکھا ہے مگر جب کبھی یہاں دھوپ نکلی بھی تو پچ پر موجود گھاس کی بقا کے لیے اسے تمازت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
شاید یہ راولپنڈی میں ہیٹرز کے ذریعے پچ خشک کرنے کی پاکستانی ’ایجاد‘ تھی جو جنوبی افریقہ کے لیے بھی تحریک کا باعث بنی اور انھوں نے پچ پر پڑتی دھوپ سے بچاؤ کے لیے میچ سے پہلے یہاں ترپالوں کا سایہ بنائے رکھا۔
ایسی نگہداشت کے بعد لازم تھا کہ یہ پچ بھی اپنی تاثیر سے جنوبی افریقی پیسرز کو نوازتی جنھوں نے ابر آلود حالات میں ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ پاکستانی بلے بازوں کے اعصاب جانچنے کو کیا تھا۔
مگر پہلے ایک گھنٹے میں جو تکنیک اور تحمل پاکستانی اوپنرز نے دکھایا، اس نے شان پولاک جیسے جہاندیدہ کو بھی کہنے پر مجبور کر دیا کہ شاید باوومہ ٹاس جیت کر غلط فیصلہ کر بیٹھے تھے اور آخری اننگز میں خود پر بیٹنگ کا بوجھ ڈال کر لاشعوری طور پر نفسیاتی سبقت پاکستان کو دے بیٹھے تھے۔
شان مسعود اور صائم ایوب نے ربادا اور یانسن کی سیم و سوئنگ کا مقابلہ کرنے کو نہ تو قدموں کا غیر ضروری استعمال کیا اور نہ ہی کاؤنٹر اٹیک کی کوئی ایسی لایعنی کوشش کی جو پاکستان کو مہنگی پڑ پاتی۔
دونوں اوپنرز نے وہی تکنیک اپنائی جو کسی بھی گرین ٹاپ پچ پہ قسمت کی طرف داری پانے کو آزمودہ رہتی ہے کہ ٹھوس قدموں پہ جم کر تمام شاٹس ایسے نرم ہاتھوں سے کھیلے جائیں کہ بلے کا کنارہ اگر خطا کھا بھی جائے تو بھی گیند سلپ فیلڈرز کے ہاتھوں سے دور ہی رہے۔
مگر دوسرے ہی گھنٹے میں پیٹرسن اور بوش کی جارحانہ بولنگ پاکستان کے سارے پلان ہوا کر گئی جب اوپر تلے چار وکٹیں محض 20 رنز کے عوض گریں۔ بابر اعظم اور سعود شکیل اس پلیٹ فارم کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے جو دونوں اوپنرز نے بہت سوجھ بوجھ سے ترتیب دینے کی کوشش کی تھی۔
اب ساری بات کامران غلام پر آ ٹھہری جو طویل عرصے سے ٹیم میں اپنی جگہ کا دعویٰ قائم کرتے آئے ہیں مگر مڈل آرڈر میں بابر اعظم کے ہوتے ان کی جگہ بن پانا ممکن نہ تھا۔
انگلینڈ کے خلاف وہ بابر اعظم کے متبادل بن کر چوتھے نمبر پہ کھیلے تھے۔ مگر جو فارم تب سے وہ دکھاتے آ رہے ہیں، اس نے پاکستان کے لئے یہ فیصلہ ناگزیر کر ڈالا کہ وہ بالآخر بری فارم سے دوچار عبداللہ شفیق کو ڈراپ کرے اور کامران کی جگہ بنانے کو دونوں سینئرز کا بیٹنگ آرڈر بھی بدلے۔
اور کامران نے تھنک ٹینک کو اس اعتماد کا اجر بھی دیا۔
سینچورین کی اس پچ پر نئی گیند کو جو سیم اور سوئنگ ملی، وہ مسلسل اپنا جلوہ دکھاتی چلی گئی کہ سر سبز و شاداب سطح پہ گیند کا پرانا ہونا بھی ممکن نہ تھا۔ کامران کے بلے کے دونوں کنارے بھی بارہا سوالات کی زد میں آئے۔
ایسی پچز پر بلے بازوں کے لیے فقط ایک ہی نظریہ کارگر رہتا ہے کہ وہ ’رنز حاصل کریں قبل اس کے کہ اچھی گیند انھیں حاصل کر لے۔‘ کامران غلام نے بھی یہی راہ اپنائی اور قسمت کی طرف داری پانے کو اپنا زورِ بازو بھی خوب آزمایا۔
اگرچہ ربادا کا خیال تھا کہ وہ محض خوش قسمت ثابت ہو رہے تھے مگر کامران نے اس خیال کو بھی بارہا غلط ثابت کیا جب آف سٹمپ چینل کی اچھی لینتھ سے سوئنگ ہوتی گیندوں پہ وہ تن کر سیدھے کھڑے ہوئے اور شاندار کور ڈرائیوز کھیلیں۔
ویسے تو کسی پچ بارے کوئی تاثر قائم کرنا تب تک درست نہیں ہوتا جب تک وہاں دونوں ٹیموں نے بیٹنگ نہ کر لی ہو، مگر جو کچھ ریکارڈ سینچورین کے بارے بتاتا ہے، اس بنا پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان نے یہاں وہ مجموعہ حاصل کر لیا ہے جو مسابقت کی بنیاد بن سکتا ہے۔
پچ کے بیچ کھڑے ربادا کامران سے اس تکرار کے بعد واپس اپنے رن اپ کے لیے لوٹے اور کچھ ہی گیندوں بعد ان کی ایک گیند بلے کا باہری کنارہ لینے میں کامیاب بھی ہوئی مگر اس شاٹ پر بھی قوت اس قدر موجود تھی کہ گلی میں کھڑے طویل قامت مارکو یانسن کے سر سے گزر کر باؤنڈری عبور کر گئی۔
سینچورین جنوبی افریقہ کے لیے کسی قلعے کی مانند ہے جہاں وہ اس حد تک ناقابلِ تسخیر رہے ہیں کہ یہاں کھیلے گئے 27 میں سے 21 ٹیسٹ میچز انھی کے نام رہے ہیں مگر پاکستان نے یہاں پہلے دن کی کنڈیشنز میں 3.67 کے رن ریٹ سے کھیل کر سارا دباؤ واپس لوٹا دیا جو ٹاس کے وقت باوومہ نے ان پہ ڈالا تھا۔