اسلام آباد کے بس سٹاپ پر لڑکی کو قتل کرنے والے شخص کا مقدمہ دوبارہ چلانے کا حکم کیوں دیا گیا؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسیحی لڑکی کے قتل کے مقدمے میں مجرم کو عمر قید کے بجائے 25 سال سزا دینے کے خلاف مجرم کی اپیل منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ مقدمہ واپس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ
BBC

30 نومبر 2020 کو اسلام آباد کے تھانہ کورال میں اللہ رکھا مسیح کی مدعیت میں ایک مقدمہ درج کیا گیا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ملزم شہزاد عرف شانی ان کی 24 سالہ بیٹی سونیا جو کہ اسلام آباد میں ایک پرائیویٹ دفتر میں کام کرتی تھی، کے ساتھ چھیڑ خانی کرتا تھا اور یہ معاملہ پانچ ماہ تک جاری رہا۔

انھوں نے مقدمے میں موقف اپنایا کہ ملزم شہزاد عرف شانی ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس نے پانچ ماہ کے بعد اپنی والدہ کو سونیا کے رشتے کے لیے ان کے گھر بھیجا۔

مدعی مقدمہ کے مطابق چونکہ وہ مسیحی تھے اور ملزم مسلمان تھا اس لیے مذہب نہ ملنے کی وجہ سے مدعی مقدمہ نے اپنی بیٹی کا رشتہ ملزم کے ساتھ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پولیس ایف آئی آر کے مطابق ملزم کو اس بات کا رنج تھا اور وہ سونیا کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتا تھا۔ 30 نومبر 2020 کو جب سونیا دفتر جانے کے لیے بس سٹاپ پر موجود تھی تو ملزم اپنے دیگر ساتھیوں فیضان اور صبا شہریار کے ساتھ وہاں آیا اور اس نے 30 بور پستول سے سونیا پر فائر کیا جو سیدھا اس کے سر پر لگا جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔

اس واقعے کا مقدمہ درج ہونے کے فوری بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا اور جائے وقوعہ سے گولی کا جو خالی خول ملا تھا وہ ملزم سے برآمد ہونے والے پستول سے میل کھا گیا۔

پولیس کی جانب سے اس مقدمے کا چالان پیش ہونے کے بعد 15 جون 2022 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی اور پھر اس حوالے سے اس مقدمے کے مرکزی ملزم شہزاد عرف شانی کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 342 کے تحت بیان بھی ریکارڈ کیا گیا۔

اس مقدمے میں 14 گواہان پیش کیے گئے جنھوں نے نہ صرف اپنے بیانات ریکارڈ کروائے بلکہ ان پر اس مقدمے کے مرکزی ملزم کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا نے جرح بھی کی۔

عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ٹرائل کورٹ نے جرم ثابت ہونے پر مجرم شہزاد عرف شانی کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 سی کے تحت 25 سالقید کی سزا سنائی جبکہ دیگر دو ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا تھا۔

تاہم اب حال ہی میں مجرم شہزاد عرف شانی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے 25 سال کی سزا کے عدالتی فیصلے کو چیلنج کیا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے مسیحی لڑکی کے قتل کے مقدمے میں مجرم کو عمر قید کے بجائے 25 سال سزا دینے کے خلاف مجرم کی اپیل منظور کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ مقدمہ واپس ٹرائل کورٹ کو بھجوا دیا ہے۔

عدالت نے ٹرائل کورٹ یعنی اسلام آباد کے ایڈشنل سیشن جج کو حکم دیا ہے کہ وہ 45 روز میں اس مقدمے کو سن کر فیصلہ دیں۔

قتل
Getty Images

عدالت نے فیصلے میں کیا کہا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے مجرم شہزاد عرف شانی کی اڈیالہ جیل سے اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی اپیل پر فیصلہ سنتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے لیے یہ حیران کن بات ہے کہ کیسے قتل عمد کے مقدمے میں مجرم کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنائے بغیر 25 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بی کے تحت قتل عمد یعنی جو قتل ارادے سے کیا گیا ہو اس کی سزا موت ہے یا اگر ایسے حالات ہوں کہ سزائے موت نہیں بنتی تو پھر اسے عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے اس مقدمے میں مجرم کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ302 سی کے تحت سزا سنائی ہے اور اس قانون کا اطلاق ایسے موقع پر ہوتا ہے جہاں پر دیت کا قانون نافذ نہ ہوتا ہو۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ بادی النظر میں اس مقدمے کے فیصلے میں اس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا اور جو شہادتیں وغیرہ پیش کی گئی ہیں اس کی روشنی میں اس مقدمے کا فیصلہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بی کے تحت ہی ہونا چاہیے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر حالات ایسے ہوں یا شواہد ایسے پیش کیے جائیں کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ قتل کے مقدمے میں ملزم کی سزائےموت نہیں بنتی تو پھر اس سزا کو عمر قید میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ٹرائل کورٹ کسی بھی مقدمے میں سزا سنانے کی وجوہات کا ذکر کرنے میں ناکام رہے تو یہ ایپلٹ کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے مقدمے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیج دے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ قتل عمد کے مقدمے میں ٹرائل کورٹ کو ان وجوہات کا ذکر کرنا لازمی ہے جس کی روشنی میں عدالت نے ملزم کو سزائے موت کی سزا نہیں سنائی۔

جسٹس محسن اختر نے فیصلے میں کہا کہ ٹرائل کورٹ کا پورا فیصلہ 25 سال سزا دینے کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا، اپیل کنندہ کے وکیل اور سٹیٹ کونسل 25 سال قید سے متعلق پوچھنے پر کوئی قابلِ جواز وجہ پیش نہ کر سکے، ٹرائل کورٹ حتمی پیراگراف میں 25 سال قید بامشقت کی سزا دینے کا جواز پیش نہیں کرسکی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے یہ مقدمہ دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیج دیا اور کہا کہ اس سے دونوں پارٹیوں کو دوبارہ سننے کا موقعملے گا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ سیشن کورٹ 45 روز میں اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کرے۔

پاکستان میں عمر قید کی سزا کو 25 سال ہی تصور کیا جاتا ہے اور اس سزا میں دن رات کو شامل کرکے یہ سزا ساڑھے بارہ سال بنتی ہے۔

پاکستان میں عمر قید کا قانون

عمر قید
Getty Images

قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں عمر قید کے قانون کے بارے میں ابھی بھی ابہام ہے جبکہ دوسرے ملکوں میں اگر کسی مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ مجرم باقی ماندہ زندگی جیل میں ہی گزارے گا۔

پاکستان کے جیل رولز 1978 کے مطابق اگر کسی مجرم کو سزا سنائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرم 25 سال جیل میں گزارے گا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمر قید کی سزا کے تعین کے لیے ایک درخواست پر سماعت کی تھی تاہم یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچ سکا۔ اس وقت کے چیف جسٹس کا موقف یہ تھا کہ اگر کسی کو عمر قید یا پانچ یا دس سال کی سزا ہوتی ہے تو اس میں ایک دن کو ایک ہی یوم شمار کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ کیوں بھیجا؟

عدلیہ
Getty Images

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل افتخار شیروانی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس مقدمے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھیجنے کا واحد مقصد یہی ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 302 بی کے تحت سنایا جائے۔

انھوں نے کہا کہ عدالت عالیہ کے جج کے پاس بھی یہ اختیار ہے کہ وہ ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے میں ترمیم کر کے اس کی سزا کو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 302 بی کے تحت بھی کرسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ عمومی طور پر ٹرائل کورٹ پاکستان پینل کوڈ کے سیشن 302 سی کے تحت اس لیے فیصلہ سناتی ہے تاکہ دیگر سزاؤں کے ساتھ اس کو بھی شامل کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ اس قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر مجرم کو 10 دن سے لے کر 10 سال اور زیادہ سے زیادہ25 سال قید کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔

افتخار شیروانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قتل کا جو مقدمہ متعلقہ عدالت کو بھجوایا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس مقدمے کا دوبارہ ٹرائل ہوگا یا گواہان کو دوبارہ طلب کیا جائے گا بلکہ ٹرائل کورٹ صرف اس مقدمے میں دی جانے والی سزا کے معاملے پر فریقین کو سن کر فیصلہ کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اے بھی ہے جو کہ قصاص سے متعلق ہے اور یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب ملزم ٹرائل کورٹ میں اپنے جرم کا اقرار کر لے اور پھر گواہان بھی اس کے اس اقرار کی تائید کریں۔

افتخار شیروانی کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں گواہان کا بھی قانون میں ایک معیار مقرر کیا گیا ہےاگر گواہان اس معیار پر پورا اترتے ہوں تو پھر ہی ان کی گواہی تسلیم کی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں قتل کا ایسا کوئی مقدمہ نہیں تھا جس کا فیصلہ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 302 اے کے تحت سنایا گیا ہو۔

’مجرم کی سزا معطل نہیں کی گئی بلکہ سزا میں کمی کے معاملے کو اٹھایا گیا ہے‘

سیشن کورٹ میں قتل سمیت فوجداری کے مقدمات میں سرکاری وکیل کے طور پر پیش ہونے والے حسن عباس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں مجرم کی سزا کو معطل نہیں کیا بلکہ سزا میں کمی کے معاملے کو اٹھایا ہے۔

انھوں نے کہا کہ قتل کے اس مقدمے کا یہ فیصلہ سیشن جج نے سنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کے ری ریمانڈ ہونے پر شہادتیں دوبارہ طلب نہیں کی جائیں گی اور ٹرائل کورٹ سزا میں کمی یا اس کو بڑھانے پر فریقین سے دلائل طلب کرے گی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.