شام کی نئی انتظامیہ نے اسد حکومت کے تحت ہونے والے جرائم کے لیے انصاف کا وعدہ کیا ہے، لیکن اس میں بہت بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے نئے حکمرانوں کی جانب سے اسد دور میں ہونے والے مظالم کے لیے انصاف کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ بہت سے لوگوں نے اس خانہ جنگی میں کافی کچھ کھویا ہے۔
سبیسٹین عشر نے دمشق میں ایسے افراد سے ملاقات کی جن کی نظر میں شام کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہوتا ہے یا نہیں۔
دمشق سے محض 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دوما شہر میں اپنے گھر میں بیٹھی اُم مازن بتاتی ہیں کہ کیسے وہ 12 سالوں سے اپنے دو بیٹوں کی واپسی کا انتظار کر رہی ہیں جنھیں اسد مخالف مظاہروں اور شام کی خانہ جنگی کے پہلے سال میں گرفتار کر لیا گیا تھا اور تب سے ان کا کچھ پتا نہیں چلا۔
انھیں اپنے سب سے بڑے بیٹے مازن کی موت کا تو سرٹیفیکیٹ مل گیا لیکن ابو ہادی کی آج تک کوئی خبر نہیں ملی ہے۔
ان کے تیسرے بیٹے احمد نے بھی تین سال قید میں گزارے ہیں جن میں سے آٹھ ماہ شام کی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل کے ریڈ بلاک میں گزرے جہاں سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔
جیل میں ان پر کیے جانے والے تشدد کی وجہ سے احمد کے دانت اندر کی جانب دھنس گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جیل میں ایک بار ان کو ایسا لگا جیسے انھوں نے اپنے بھائی مازن کو حاضری لگاتے سنا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ وہ اپنے بھائی کی موجودگی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔
لیکن اُم مازن خود پر اور اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کے لیے کیسا انصاف چاہتی ہیں؟
وہ کہتی ہیں، ’انصاف خدا کی جانب سے ہونا چاہیے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں انھوں نے دیکھا کہ کچھ مقامی افراد اسد حکومت کے ایک مسلح حامی کو جان سے مارنے کی غرض سے پکڑ کر لائے ہیں۔
’میں نے انھیں کہا اسے جان سے مت مارنا، اسے بھی ویسے ہی تشدد کا نشانہ بناؤ جیسے انھوں نے ہمارے جوانوں کے ساتھ کیا ہے۔‘
’میرے دو بیٹے تو شاید مارے گئے ہیں لیکن ہزاروں ایسے ہیں جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔‘
’میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ بشار زیرِ زمین قید خانے میں بند رہے اور روس جو اس کی مدد کرتا تھا، وہ بھی اس کی مدد نہ کر سکے۔‘
’میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ کوئی بشار کو قید خانے میں ڈال کر بھول جائے جیسے وہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی جیلوں میں بند کرنے کے بعد بھول جاتا تھا۔‘
حسین عیسیٰ پیشے سے وکیل ہیں اور ایسے افراد کو انصاف دلوانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جن پر اسد حکومت کی جانب سے سیاسی جرائم کا الزام تھا۔
انھیں اپنے کام کو لے کر حکام کی جانب سے مسلسل دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ تاہم تمام مشکلات کے باوجود انھوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اپنے کچھ مؤکلوں کو ریاست کے سکیورٹی نظام کے چنگل سے بچانے میں کامیاب رہے۔
لیکن وہ افراد جن کے کیسز دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں چلائے جاتے تھے، ان کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
شام میں خانہ جنگی کے دوران دہشت گردی کا قانون تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔
54 سالہ وکیل حسین عیسیٰ کا ماننا ہے کہ وہ تمام جج جنھوں نے اسد حکومت کا ساتھ دیا انھیں نہ صرف ان کے عہدوں سے ہٹا دینا چاہیے بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔
تاہم ان کے مطابق اس دور کے بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو نئی عدلیہ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
حسین عیسیٰ کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے عدالتی نظام کا قیام ہے جس کی مدد سے پچھلے 50 سالوں میں ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔
’اگر صحیح نظام نہ بن پایا تو مستقبل بہت تاریک نظر آتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے بعد حالات کتنے خراب ہوں گے۔ ہم تو ابھی سے خوفزدہ ہے کچھ فریق لڑائی اور تصادم کا سبب بن سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ایک مضبوط نظام اور ریاست ہو گی تو ہمیں ایسی باتوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو لوگوں میں خوف پیدا ہونا فظری ہے۔
’لیکن میں طبیعتاً روشن پہلو دیکھنے کا عادی ہوں اور مجھے امید ہے کہ نئی حکومت یقیناً بہتر ہوگی۔‘
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد کئی ہفتوں تک دمشق میں واقع وزارتِ انصاف کی عمارت بند رہی۔ اب جبکہ سول اور فوجداری کی عدالتیں دوبارہ کھلنے والی ہیں یہاں وکلا کا ایک بار پھر رش دکھائی دیتا ہے۔
اسی عمارت کی پانچویں منزل پر نائب وزیرِ انصاف ختام حداد کا دفتر واقع ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سول اور فوجداری مقدمات کی سنوائی تو دوبارہ شروع ہو جائے گی لیکن تاحال سابقہ حکومت میں ہونے والے مظالم کے خلاف سنوائی ابھی نہیں ہو گی۔
ان کی میز سرکاری کاغذوں سے بھری ہوئی ہے۔ ختام حداد بتاتی ہیں کہ وہ 2013 سے بطور جج کام کر رہی ہیں۔
انھیں 2023 میں اسد حکومت کے دور میں نائب وزیرِ انصاف تعینات کیا گیا تھا۔ فی الحال انھیں اس عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔
انھیں لگتا ہے کہ ان کی ذاتی طور پر بھی ایک ذمہ داری بنتی ہے۔
’کام چلتے رہنا ضروری ہے، ججوں اور عدالتوں کو اپنا کام دوبارہ شروع کرنا چاہیے کیونکہ بطور شامی شہری میں چاہتی ہوں کہ میری نوکری چلتی رہے اور یہ کامیابی بھی جاری رہے تاکہ لوگوں کے پاس خوفزدہ ہونے کی کوئی وجہ نہ رہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف باتیں نہیں کرنا چاہتیں بلکہ ’یقین دہانی کے حقیقت پسندانہ پیغامات دینا چاہتی ہیں۔‘
دوسری جانب کچھ وکلا کو قائم مقام حکام کی جانب سےبار ایسوسی ایشن کی نگرانی کے لیے ایک غیر منتخب کونسل کے قیام پر تشویش ہے۔
وکلا کی جانب سے دائر پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ایسے اقدامات سے تاثر ملتا ہے کہ ایک آمریت کی جگہ دوسری آمریت نے لے لی ہے۔
فی الحال اسد دور کا عدالتی نظام اور تمام قوانین بشمول دہشتگردی کے ابھی بھی لاگو ہیں۔ سابقہ حکومت کے تحت سزا پانے والے ملزمان کے مقدمات کی دوبارہ سماعت میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
سابق حکومت سے تعلق رکھنے والے افراد پر لوگوں کی جانب سے تشدد کی کچھ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد نئی حکومت کی جانب سے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔ اس ضمن میں کچھ چھاپے اور گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں۔
کئی ایسے افراد جو پہلے لبنان یا عراق فرار ہو گئے تھے وہ بھی واپس آگئے ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ عدالتی نظام جسے ایک لمبے عرصے تک لوگوں کی آوازیں دبانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا کو اتنے بڑے اخلاقی اور لاجسٹک چیلنج سے نمٹنے کے لیے از سر نو تشکیل دیا جا سکتا ہے؟
دمشق کے نزدیک واقع پہاڑ پر ہر عمر کے شامی شہری آزادی سے سانس لے پا رہے ہیں، ایک ایسی جگہ پر جہاں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سکیورٹی فورسز کی طرف سے ان کے داخلے پر پابندی تھی۔
اب یہاں کئی کیفے اور دکانیں کھل چکی ہیں جہاں سے بیٹھ کر لوگ دمشق شہر کا نظارہ کر سکتے ہیں۔
جہاں ایک طرف اس شہر سے کئی تاریک یادیں وابستہ ہیں وہیں ایک نئے مستقبل کا وعدہ بھی ہے، ایک ایسا مستقبل جس میں انصاف اور احتساب ہو گا۔