راجہ قیصر ان تین کشمیری مزدوروں میں سے ایک تھے جنھیں اکتوبر میں بلوچستان میں شدت پسندوں کے ایک حملے کے بعد اغوا کر لیا گیا تھا اور اب ان کی لاش گذشتہ ہفتے کوئٹہ کے ایک ہسپتال سے ملی۔ راجہ قیصر کے والد راجہ اعجاز کا کہنا ہے کہ 22 سالہ قیصر ان کے پانچ بیٹوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ پچھلے چھ ماہ سے وہ بلوچستان میں ملازمت کر کے ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
’قیصر اپنے دادا کی وفات پر تقریباً پانچ ماہ پہلے گھر آیا تھا اور اس نے بتایا تھا کہ حالات ٹھیک ہیں۔ وہاں دھمکیاں ملتی رہتی ہیں لیکن عموماً مشینوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ لوگوں کو خطرہ نہیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہاں فوج کی سکیورٹی ہے، ہمیں لگا کہ فوج کا تحفظ ہو گا تو خطرہ نہیں ہوگا۔‘
یہ سب کہتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہری راجہ اعجاز آبدیدہ ہو گئے جو دو دن قبل اپنے بیٹے قیصرکو دفن کر کے آئے تو نماز جنازہ پر ان کی فریاد کرتی ویڈیو کشمیر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
راجہ قیصر ان تین کشمیری مزدوروں میں سے ایک تھے جنھیں اکتوبر میں بلوچستان میں شدت پسندوں کے ایک حملے کے بعد اغوا کر لیا گیا تھا اور اب ان کی لاش گذشتہ ہفتے کوئٹہ کے ایک ہسپتال سے ملی۔
کوئٹہ میں ایک سینیئر سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ راجہ قیصر کی لاش چار پانچ روز قبل ضلع قلات کے علاقے منگیچر سے لائی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ راجہ قیصر کے جسم پر پانچ گولیوں کے نشان تھے جن میں سے تین ان کے سینے جبکہ دو پیٹ پر لگی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتول کی لاش دو روز تک سول ہسپتال کوئٹہ کے مردہ خانے میں پڑی رہی۔
اہلکار نے بتایا کہ اسد قیصر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا۔ شناخت کے بعد ان کی لاش کو ان کے آبائی علاقے منتقل کرنے کے لیے حوالے کیا گیا۔
منگیچر انتظامی لحاظ سےضلع قلات کی تحصیل ہے۔ اس سلسلے میں جب ضلع قلات کے ڈپٹی کمشنر بلال شبیر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کشیمری نوجوان کی گولیاں لگی لاش کی برآمدگی کی تصدیق کی اور نامہ نگار محمد کاظم کو بتایا کہ یہ کیس اب سی ٹی ڈی یعنی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں تحقیقات کے حوالے سے جو پیشرفت ہوئی، وہ سی ٹی ڈی والے بتا سکتے ہیں تاہم سی ٹی ڈی کے حکام سے بارہا رابطہ کیے جانے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
قلات میں لیویز فورس کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہاں لاش کی شناخت نہیں ہو سکی تھی جس پر لاش کو شناخت اور پوسٹ مارٹم کے لیے سول ہسپتال کوئٹہ منتقل کیا گیا تھا جہاں شناخت ہوئی۔
راجہ قیصر کی لاش منگیچر کے علاقے میں کوہک کراس کے قریب سے ملی تھی۔
لیویز فورس کے سینیئر اہلکار نے کہا کہ راجہ قیصر کو کچھ عرصہ قبل نامعلوم افراد نے منگیچر کے قریب کوئٹہ کراچی شاہراہ پر کام کرنے والی ایک کمپنی کے کیمپ پر حملے کے بعد اغوا کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں کمپنی کی مشینری کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ اس حملے کے بعد تعمیراتی کمپنی کے کیمپ میں موجود متعدد لوگوں کو حملہ آور لے گئے تھے تاہم ان میں سے زیادہ تر کو بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ واقعہ سنگین دہشت گردی کا واقعہ ہے اس لیے اس کی تحقیقات کا معاملہ سی ٹی ڈی کے پاس ہے۔
’اندازہ نہیں تھا کہ بلوچستان میں حالات اس قدر خراب ہیں‘
بلوچستان میں اغوا کے بعد قتل ہونے والے کشمیری نوجوان راجہ قیصر کے والد راجہ اعجاز کا کہنا ہے کہ 22 سالہ قیصر ان کے پانچ بیٹوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ پچھلے چھ ماہ سے وہ بلوچستان میں ملازمت کر کے ان کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ غریب لوگ ہیں محنت مزودری سے ہی ان کا گزارا ہوتا ہے۔ اسے لیے ان کا بیٹا سی پیک منصوبے کے ایک پراجیکٹ میں کام کرنے کے لیے بلوچستان گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ بلوچستان میں حالات اس قدر خراب ہیں کہ ان کے بیٹے کو جان کا خطرہ لاحق ہو جائے گا ورنہ وہ اسے کبھی وہاں نہ بھیجتے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ جس علاقے میں ان کا بیٹا اور اس کے ساتھدیگر لوگ کام کر رہے تھے وہاں سکیورٹی نہیں تھی اور کمپنی کی جانب سے کوتاہیاں کی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’ہم نے سنا تھا کہ لوگوں کو مارنے یا اغوا کرنے سے پہلے وہ لوگ شناختی کارڈ دیکھتے ہیں اور کشمیریوں کو کچھ نہیں کہتے۔‘
راجہ اعجاز کا کہنا تھا کہ انھیں پتا چلا کہ 14 اکتوبر کی رات گئے منگیچر میں شدت پسندوں کے حملے میں ان کے بیٹے سمیت تین کشمیری نوجوانوں کو اغوا کر لیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ اغوا کار جاتے ہوئے وہاں ایک پرچی پر فون نمبر چھوڑ گئے تھے جس پر انھوں نے پیغامات چھوڑے۔ ان کے جواب میں ایک دن اسی نمبر سے انھیں یہ بتایا گیا کہ اغوا کاروں کی جانب سے اس منصوبے کو روکنے کی بار بار تنبیہ کو خاطر میں نہ لا کر ٹھیکیدار نے غلطی کی۔
واضح رہے کہ مغویوں کے خاندان، کمپنی افسران اور سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے کوشش کے باوجود دوبارہ اس نمبر پر رابطہ ممکن نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس سے مزید کوئی رابطہ کیا گیا۔
راجہ اعجاز کے بقول اغوا کاروں نے ان سے کہا تھا کہ انھوں نے ٹھیکیدار سے اس منصوبے کی پرسنٹیج مانگی ہے؟ اب معاملہ ان کے درمیان ہے۔
’اگر انھیں پرسنٹیج ملی تو بندے چھوڑ دیں گے اور نہیں ملی تو انھیں مار دیا جائے گا۔‘
اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے انھوں نے پولیس سے مدد کیوں طلب نہیں کی؟
اس پر راجہ اعجاز کا کہنا تھا کہ انھوں نےخود کو موصول ہونے والے پیغامات کے بارے میں جب کمپنی والوں کو بتایا تو پہلے تو انھوں نے کہا کہ وہ کوئی فراڈ ہیں اور محض رقم کے لیے جھوٹ بو رہے ہیں۔ پھر انھیں اس بارے میں کسی سے بھی بات کرنے سے منع کیا گیا۔
راجہ اعجاز کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں کام پر بھیجنے والی کمپنی نے ہمیں منع کیا تھا کہ پولیس، میڈیا یا سوشل میڈیا پر یہ بات جانے سے مغویوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے اس سے معاملات چل رہے ہیں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘
’انھوں نے ہمیں کبھی یہ نہیں بتایا کہ کیا معاملات چل رہے ہیں اور کیا بات ہو رہی ہے۔ اب اچانک انھوں نے ہمارے رشتہ داروں کو بتایا کہ کوئٹہ ڈی سی آفس سے لاشوں کی تصاویر آئی ہیں جن میں ایک لاش قیصر کی تھی۔‘
تاہم اس حوالے سے کمپنی کے بلوچستان پراجیکٹ کے مینیجر کا کہنا ہے کہ انھوں نے کسی کو منع نہیں کیا۔
ان کے مطابق یہ معمولی بات نہیں تھی۔ اس لیے حملے اور اغوا کے بارے میں سب کو پتا چل گیا تھا۔ ’یہ معاملہ ڈھکا چھپا نہیں تھا اس لیے چھپانے کے لیے کہنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔‘
مقتول قیصر کے والد راجہ اعجاز نے بتایا کہ راجہ قیصر کی میت لانے کا انتظام کمپنی کے مالک اور ان کے بھائیوں نے ہی کیا۔
راجہ اعجاز کا کہنا ہے کہ ’کمپنی کے مالک یہاں آئے تھے لیکن اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بچے اپنی مرضی سے کام کرنے گئے تھے ہم نے کسی کو زبردستی نہیں بھیجا۔ ان کے مارے جانے کی ہماری کوئی ذمہ داری نہیں۔‘
راجہ قیصرکے والد کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ مغویوں کی بازیابی کے لیے کوشش جاری رکھی جائے۔ ہمارا بچہ نہیں رہا لیکن باقی نوجوانوں کو زندہ واپس لایا جائے۔‘
’تنخواہ میں 20 ہزار اضافہ کر کے بلوچستان بلایا‘
راجہ قیصر کے ساتھ اغوا ہونے والوں میں 37 سالہ عبدالرحیم عباسی بھی شامل تھے جو ان کے قریبی گاوں میں رہتے ہیں اور اسی کمپنی کے ساتھ 12 سال سے کام کر رہے ہیں۔
قیصر شادی شدہ ہیں اور ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جن کی عمریں چھ ، چار اور دو سال ہیں۔
عبد الرحیمعباسی کے برادرِ نسبتی توصیف عباسی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عبدالرحیم 12 سال سے کمپنی کے ساتھ مستقل ملازمت کر رہے تھے لیکن وہ بلوچستان میں کام کرنے سے خوش نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا ’ہمارے بھائی وہاں منشی کی حیثیت سے کام کر رہے تھے لیکن دو ماہ پہلے جب وہ چھٹی پر گھر آئے تو واپس نہیں جانا چاہتے تھے۔ انھیں پتا تھا وہاں جان کو خطرہ ہے۔ ان کا واپس جانے کا بالکل دل نہیں کر رہا تھا لیکن انھیں ان کی کمپنی نے بار بار فون کر کے زبردستی بھیجا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم مزدور لوگ ہیں کام کے بغیر گزراہ نہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے حالات بھی خراب ہیں۔ جب کمپنی نے ان کی تنخواہ 50 ہزار سے بڑھا کر 70 ہزار کر دی تو وہ چلے گئے۔‘
عبدالرحیم کے بھائی انعام عباسی کا کہنا تھا کہ انھیں بھی کمپنی والوں نے پولیس کے پاس جانے یا کسی سے بھی بات کرنے سے منع کیا تھا اور کہا تھاکہ ’آپ نے کسی سے کچھ نہیں کہنا،جو کرنا ہے ہم نے کرنا ہے۔‘
لیکن اب راجہ قیصر کی موت کی خبر نے انھیں پریشان کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ کمپنی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ پہلے سے خبروں میں تھا اور انھوں نے کبھی کسی کو منع نہیں کیا۔
توصیف عباسی کہتے ہیں ہم جب بھی ان کے پاس جاتے وہ یہی کہتے رہے ’یہ ہائی لیول کی باتیں ہیں ہم اوپن نہیں کر سکتے۔ ہم تو ان کے آسرے پر بیٹھے رہے۔ اب تو ہمارا بھروسہ اٹھ گیا۔‘
توصیف عباسی نے کہا کہ ان کی برادی والے صلاح مشورے کے بعد کمشنر مظفر آباد کے پاس جانے اور پریس کانفرنس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ’مزدوروں کو سکیورٹی فراہم کرنا کمپنی کا کام تھا لیکن وہاں لیوی فورسز کے محض چار سے پانچ اہلکار ہوتے تھے۔ اہلکاروں کو لائف انشورنس دینا بھی کمپنی کی ذمہ داری تھی۔‘
ان کا کہنا تھا ’راجہ قیصر کی موت کے بعد ہم نے کمپنی کے سربراہ مختیار عباسی سے اپنے بھائی عبدالرحیم کی بازیابی کی بات کی تو انھوں نے کہا کہ ہمیں 10 سے 15 دن دیں ہم انھیں بازیاب کروا لیں گے۔‘
پروگریسو ٹیکنیکل ایسوی ایٹ کے بلوچستان پروجیکٹ مینیجر وحید عباسی کہتے ہیں کہ راجہ قیصر کی لاش آنے کے بعد باقی دو افراد کے خاندانوں کی جانب سے بہت زیادہ پریشر ہے۔ وہ ہمارے گھر اور دفتر کے باہر موجود ہیں۔ ہم انھیں تسلی ہی دے سکتے ہیں کیونکہ ہمیں بلوچستان حکام جو اطلاع دیں گے ہم وہی بتا سکتے ہیں لیکن ہم نے ان سے کہا ہے کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد انھیں زندہ واپس لائیں۔‘
’بلوچستان میں جان کی کوئی گارنٹی نہیں‘
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے مزدوروں کو سی پیک میں شامل شاہراہوں کے تعمیراتی کام کے لیے لے جانے والی اس کمپنی پروگریسو ٹیکنیکل ایسوی ایٹ (پی ٹی اے) کے بانی مختار عباسی کے بھائی اور کمپنی کے بلوچستان پروجیکٹ مینیجر وحید عباسی کہتے ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کے اغوا کے بعد وہ حکومت اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سکیورٹی اداروں نے ہمیں تسلی دی تھی کہ ان (بی ایل اے) کے پنجابیوں کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں آپ کشمیری ہیں یہ آپ کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا ’جہاں حملہ ہوا وہاں ایسی امید بھی نہیں تھی کیونکہ یہ شہر کے قریب محفوظ علاقے تھے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ حملے کا نشانہ بننے والے پراجیکٹ تو بند ہیں اور ان میں کام کرنے والے قریباً 100 لوگ واپس آ گئے تاہم دیگر منصوبوں پر 200 کے قریب کشمیری نوجوان اب بھی کام کر رہے ہیں تاہم وہاں فوج کی نگرانی میں کام ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہاغوا کے بعد سے نامعلوم لاشوں کی خبر سُن کر ہم خود جا کر دیکھتے ہیں کہیں ہمارا کوئی بندہ تو نہیں۔ اسی طرح تین دن پہلے جانے پر قیصر کی لاش شناخت کی۔‘
خطرے والے علاقے میں مزدوروں کو کام پر رکھنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ’ہم ہر شخص کو بتاتے تھے کہ بلوچستان میں جان کا خطرہ ہے ہماری اس پر کوئی گارنٹی نہیں۔ ہم مقامی افراد یا سندھیوں کو ترجیح دیتے تھے لیکن لوگ روزگار کی خاطر جانے پر راضی ہوتے ہیں اور ہم خود بھی تو وہاں کام کرتے ہیں۔‘
پی ٹی اے بلوچستان کے پروجیکٹ مینیجر وحید عباسی کا کہنا تھا ’ 13 اکتوبر کی رات حملہ ہوا تو اس وقت میں کوئٹہ میں تھا۔ مجھے اطلاع ملی تو میں نے اسی وقت قلات کے کے حکام کو اطلاع دی۔ انھوں نے کہا ہم فورسز بھجوا رہے ہیں۔‘
’ہم صبح وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہمارے لوگ وہاں نہیں۔ کچھ لوگ جان بچا کر بھاگ گئے تھے، مشینری جل رہی تھی کچھ مکمل طور پر جل چکی تھی۔ ہمیں دیکھ کر جب مزدور وہاں آئے اور ہمیں پتا چلا کے حملہ آور جو 200 کے قریب معلوم ہوتے تھے جاتے ہوئے ہمارے تین بندوں کو ساتھ لے گئے ہیں۔ وہ ہماری چار گاڑیاں بھی ساتھ لے گئے۔‘
وحید عباسی نے بتایا کہ ’ہمارے پاس سائٹ پر لیویز اہلکاروں کی سکیورٹی تھی جو سات دن میں اور سات رات میں ڈیوٹی دیتے۔ حملہ آوروں نے ان کی ایک گاڑی کو بھی نقصان پہنچایا۔‘
وحید عباسی نے بتایا کے حملے کی ایف آئی آر خود سی ٹی ڈی کی مدعیت میں لکھی گئی جس میں ہمارے نقصان اور مغویوں کی تفصیلات شامل کی گئیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حملے کے بعد سے ہم اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں روز کسی نہ کسی سے ملاقات ہوتی ہے تاکہ مغویوں کو بازیاب کرنے کی کوشش کی جائے لیکن ہمارے لوگوں کا فی الحال کچھ پتا نہیں۔‘
’ہم باقی دو مغویوں کے لیے رابطے میں ہیں‘
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہوم سیکریٹری طاہر ممتاز نے بی بی سی سی کو بتایا کہ ’کشمیری مزدوروں کے اغوا کے بعد کمپنی نے ہمارے ساتھ باضابطہ تو رابطہ نہیں کیا لیکن چونکہ یہ بات ہمارے علم میں آئی تھی اس لیے ہم نے حکومت بلوچستان نے رابطہ کیا تھا کہ یہ ہمارے لوگ ہیں جو اغوا ہوئے ہیں ان کی بازیابی کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کریں۔‘
طاہر ممتاز نے بتایا کے بلوچستان کے ہوم سیکریٹری، وزیراعلیٰ اور تمام متعلقہ حکام سے کشمیر کے حکام رابطے میں تھے۔ انھوں نے کہا ’ابھی بھی ہم باقی دو مغویوں کے لیے رابطے میں ہیں۔‘
طاہر ممتاز نے بتایا کہ ’بلوچستان حکومت کو یہ اطلاعات تھیں کہ تعمیراتی کمپنی سے 20 کروڑ طلب کیے گئے ہیں اور اس کمپنی نے ہی حکومتِ بلوچستان کو بتایا تھا کہ بی ایل اے نے رابطہ کیا تھا اور تاوان طلب کیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ حکومت سے تاوان کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی گئی اور یہ معلومات کمپنی کی جانب سے ہی دی گئی ہیں۔
طاہر ممتاز کا کہنا تھا کہ ’آج صبح کشمیر کے وزیر داخلہ نے بھی خصوصی ہدایات جاری کی ہیں۔ وزیراعظم نے بھی اپنے تعلقات استعمال کیے ہیں۔ ان نوجوانوں کی بازیابی کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
مغویوں کے بی ایل اے کے پاس ہونے سے متعلق امکان پر ہوم سیکرٹری طاہر ممتاز کے مطابق اگر کوئی اور گروہ ہوتا یا کچے کے ڈاکو ہوتے تو خاندان سے رابطہ کرتے لیکن کمپنی کے بقول انھیں پہلے بھی دھمکیاں ملیں اور ان افراد کو اغوا کیا گیا۔ اب تک کی تحقیقات میں تعمیراتی کمپنیوں کی بھی کوئی دشمنی ثابت نہیں ہوئی اس لیے وہاں بی ایل کی جانب سے کارروائی کا زیادہ امکان ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے زیرِ انتطام کشمیر کے حکام ہر ممکن ذرائع اور دباؤ استعمال کر رہی ہے تاکہ مغویوں کو بازیاب کروایا جا سکے۔