انڈین سائنسدان سمندر میں چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک کیوں جانا چاہتے ہیں؟

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میرین ٹینالوجی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم گذشتہ تین برسوں سے متسایا 6000 آبدوز کو تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ بی بی سی تمل کی ٹیم نے چنئی میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا جہاں آبدوز بنائی جا رہی ہے تاکہ اس منصوبے کے بارے میں جان سکیں جس کے تحت 2026 میں انڈیا پہلی بار انسانوں کی ایک ٹیم کو سمندر کی انتہائی گہرائی میں بھیجے گا۔
متسایا 6000 آبدوز
BBC
متسایا 6000 آبدوز

’سمندر تمہارے غرور کو خاک میں ملا دے گا۔۔۔‘

انڈیا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میرین ٹیکنالوجی کے ڈاکٹر سبرامنیم انامالائی کے یہ الفاظ آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں۔

ڈاکٹر سبرامنیم متسایا 6000 آبدوز کے پاور ڈویژن کے انچارج ہیں۔ یہ آبدوز اندیا کے ’سمندریان‘ پروجیکٹ کے تحت بنائی جا رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں ’کوئی بھی اس دنیا میں سب کچھ نہیں جانتا اور سمندر اس کی بہترین مثال ہے۔ انسانوں کو سمندر میں اتنی گہرائی میں بھیجنے سے میرین ریسرچ میں مدد ملے گی۔ یہی متسایا 6000 کا مقصد ہے۔‘

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میرین ٹینالوجی میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم گذشتہ تین برسوں سے متسایا 6000 آبدوز کو تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

بی بی سی تمل کی ٹیم نے چنئی میں قائم نیشنل انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا جہاں آبدوز بنائی جا رہی ہے تاکہ اس منصوبے کے بارے میں جان سکیں جس کے تحت 2026 میں انڈیا پہلی بار انسانوں کی ایک ٹیم کو سمندر کی انتہائی گہرائی میں بھیجے گا۔

جلد ہی سائنسدان چنئی کے نزدیک اس آبدوز کی آزمائش کریں گے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر ویداچلم کے مطابق ماتسایا 6000 آبدوز میں تین افراد گہرے سمندر میں جائیں گے۔
BBC
پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر ویداچلم کے مطابق ماتسایا 6000 آبدوز میں تین افراد گہرے سمندر میں جائیں گے۔

انڈین سائنسدان گہرے سمندر میں جانے کے لیے تیار

رواں سال سائنسدان متعدد تجربات کریں گے اور اگر تمام تجربات کامیاب رہے تو سال 2026 میں انڈین سائنسدان متسایا آبدوز کے ذریعے بحر ہند میں چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک جائیں گے۔

سنہ 2020 میں چین نے ماریانا ٹرینچ میں 10 ہزار 909 میٹرز کی گہرائی میں آبدوز بھیجی تھی جس میں انسان سوار تھے۔

اس کے علاوہ صرف روس، جاپان، فرانس اور امریکہ گہرے سمندر میں انسانوں کو بھیج سکے ہیں۔ سائنسدانوں کو امید ہے کہ جلد ہی انڈیا بھی اس فہرست میں شامل ہو جائے گا۔

انڈیا کی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میرین ٹیکنالوجی متسایا 6000 آبدوز تیار کر رہی ہے۔

پروجیکٹ ڈائیریکٹر ڈاکٹر ویدا چلم کے مطابق انڈیا میں یہ واحد ادارہ ہے جو آبدوز بنانے کی صلاحیت رہتا ہے۔

'اسے مکمل طور پر ہمارے سائنسدانوں نے ڈیزائن کیا ہے اور ایسی آبدوز بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو انسانوں کو گہرے سمندر میں لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔'

ڈاکٹر ویدا چلم کے مطابق متسایا 6000 میں تین افراد سوار ہوں گے جن میں ایک سائنسدان اور دو آبدوز چلانے کے ماہر شامل ہوں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے رمیش راجو جو اس آبدوز پر کام کرتے آئے ہیں وہ اس کو چلائیں گے۔ ان کی مدد کے لیے انڈین بحریہ کے ایک اہلکار ان کے ساتھ ہوں گے جبکہ اس میں سوار تیسرے شخص ایک سائنسدان ہوں گے جو سمندر کی گہرائی میں مختلف تجربات کریں گے۔

انڈیا چھ ہزار میٹرز کی گہرائی میں انسانوں کو کیسے بھیجے گا؟

ڈاکٹر ویداچلم کہتے ہیں کہ متسایا 6000 کو ایک بحری جہاز کے ذریعے اس مقام تک لے جایا جائے گا جہاں سروے کرنا ہے اور پھر اسے پانی میں اتار دیا جائے گا۔

انڈین سائنسدانوں نے آبدوز کے ٹائیٹینیم ڈھانچے اور بیٹری سے لے کر تمام چیزیں تیار کرنے کا دعوٰی کیا ہے۔ آبدوز کے اگلے حصے میں تین افراد سوار ہوں گے۔

ڈاکٹر رمیش نے اس آبدوز کا الیکٹرونک سسٹم ڈیزائن کیا ہے اور وہ ہی اس آبدوز کو چلائیں گے۔ انھیں 20 سال بنا پائلٹ والی خودکار آبدوزیں چلانے کا تجربہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس آبدوز کو اس انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے کہ سمندر کی گہرائی میں جاتے ہوئے کم سے کم توانائی صرف ہو اور آبدوز کے آلات ایک خاص گہرائی پر پہنچنے کے بعد ہی کام کرنا شروع کریں گے۔

متسایا آبدوز
BBC

سمندریان منصوبے کا مقصد کیا ہے؟

متسایا پروجیکٹ پر کام کرنے والے سینیئر سائنسدان ڈاکٹر ستیا نارائن کا دعوی ہے کہ بحر ہند پولی میٹلز سے مالا مال ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیمر مختلف دھاتوں کا ایک مرکب ہوتا ہے جس میں تانبہ، کوبالٹ اور نکل جیسی دھاتیں شامل ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر ستیا نارائن دعوی کرتے ہیں کہ دھاتوں کے اس مرکب کے ٹکرے انڈیا کے حصے میں آئے بین الاقوامی پانیوں کے تہہ میں بڑے تعداد میں موجود ہیں۔

ابتدائی طور پر ان دھاتوں پر ریسرچ کی غرض سے نیشنل انسٹیٹیوٹ نے ایک خودکار آبدوز روسب (ROSUB) 6000 بنائی۔ اس خودکار آبدوز کی کامیابی کے بعد متسایا کو بنایا گیا تاکہ سائنسدانوں کو سمندر کی تہہ تک لے جایا جا سکے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'ہم جتنی بھی خودکار آبدوزیں بھیج دیں لیکن انسانی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے سے ہم نئی چیزیں سیکھ پائیں گے۔'

ان کے مطابق متسایا نا صرف سمندر کی تہہ میں پائے جانے والی دھاتوں کا مشاہدہ کرے گی بلکہ بحر ہند کی تہہ میں رہنے والے جانداروں کا بھی مشاہدہ کرے گی۔

متسایا میں سامنے کی جانب دو روبوٹک بازو ہیں جبکہ ایک ٹوکری بھی نصب ہے جو 200 کلو گرام تک وزنی چیزیں اٹھا سکتی ہے۔

متسایا
BBC

انوکھی بیٹری

اس منصوبے پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس آبدوز کی تعمیر میں ایسا غیر روایتی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں اپنایا گیا ہے۔

عام طور پر ایسی آبدوزوں میں لیڈ ایسڈ، لیتھییم آئن یا سلور زنک بیٹریاں استعمال کی جاتی ہیں لیکن متسایا میں انڈین سائنسدانوں نے لیتھییم پولی مر بیٹری استعمال کی ہیں۔

ڈاکتر سبرامنیم کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انڈیا میں ایسی جدید بیٹری استعمال کی جا رہی ہے۔

'یہ سائز اور وزن کے اعتبار سے کافی چھوٹی ہے اس لیے یہ آبدوز میں جگہ بھی بہت کم لے گی۔ مثال کے طور پر یہ ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی روائتی بیٹری کے مقابلے میں یہ پانچ سے چھ گنا کم جگہ لے گی جبکہ اس سے کہیں زیادہ بجلی فراہم کرے گی۔

آبدوز کو سمندر میں چھ ہزار میٹرز کی گہرائی تک پہنچنے میں چار گھنٹے لگیں گے جہاں وہ مزید چار گھنٹوں تک تحقیق کرے گی۔ متسایا کو اس پورے سفر میں 12 گھنٹے لگیں گے۔

تاہم پروجیکٹ ڈائیریکٹر ویدا چلم کے مطابق حفاظتی نقطہ نظر سے آبدوز میں 108 گھنٹوں کے لیے بیٹریاں نصب کی جائیں گی۔

ڈاکٹر بالا ناگا جیوتی کا کہنا ہے کہ گہرے سمندر میں جی پی ایس آلات کام نہیں کرتے۔
BBC
ڈاکٹر بالا ناگا جیوتی کا کہنا ہے کہ گہرے سمندر میں جی پی ایس آلات کام نہیں کرتے۔

گہرے سمندر میں کیا خطرات پیش آ سکتے ہیں؟

اتنے گہرے سمندر میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی جس کی وجہ سے وہاں بہت اندھیرا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اتنی گہرائی میں جی پی ایس آلات بھی کام نہیں کرتے۔

ایسے حالات میں آبدوز کی لوکیشن معلوم کرنے اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں معلوم کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے سائسدان اکاسٹک پوزیشننگ ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہے ہیں جس میں آوازوں کی مدد سے آس پاس کے ماحول کے بارے میں پتا لگایا جاتا ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے وہیل اور ڈولفنز ایک دوسرے سے رابطہ کرتی ہیں۔

متسایا پر کام کرنے والی ڈاکتر بالا ناگا جیوتی کے مطابق بالکل اسی طرح آبدوز اور اس کو لے جانے والے جہاز میں رابطہ قائم کیا جائے گا۔

آبدوز
BBC

اس کے علاوہ گہرے سمندر میں آبدوز بھیجنے میں ایک اور بڑا چیلنج وہاں پایا جانے والا شدید دباؤ ہے۔

ستیانارائن بتاتے ہیں کہ اتنی گہرائی میں زمین کے مقابلے میں کئی سو گنا دباؤ ہوتا ہے۔

'ہر ہزار میٹر پر دباؤ سو گنا ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ چھ ہزار میٹر کی گہرائی میں دباؤ زمین کے مقابلے میں 600 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے متسایا 6000 کو ٹائیٹینییم سے بنایا گیا ہے۔'

ان کے مطابق انڈین سپیس ایجنسی آبدوز کا وہ حصہ بنانے میں مدد فراہم کر رہی ہے جہاں اسے چلانے والے سائنسدان بیٹھیں گے۔

ڈاکٹر رمیش راجو
BBC
ڈاکٹر رمیش راجو

کیا متسایا 6000 تمام چیلنجز پر قابو پانے میں کامیاب ہو گی؟

اس آبدوز کو گہرے پانی میں محض 12 گھنٹوں تک رہنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

تاہم اگر کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے یہ سطح سمندر پر نہیں آ پاتی تو اس میں سوار تین افراد کے لیے 96 گھنٹے تک کی آکسیجن موجود ہے۔

اس کے علاوہ اس آبدوز کا ایک جڑواں ڈھانچہ جہاز پر بھی نصب ہو گا۔ پروجیکٹ ڈائیریکٹر ویدا چلم کے مطابق یہاں سے تین افراد متسایا کی نگرانی کریں گے اور کسی مشکل کی صورت میں آبدوز کی رہنمائی کریں گے۔

ستیا نارائنن کے مطابق یہ آبدوز نہ صرف انڈیا بلکہ عالمی سطح پر گہرے سمندر میں تلاش اور بچاؤ کے کام، معدنی وسائل کی تحقیق اور جانداروں کے مطالعے میں مددگار ثابت ہو گی۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میرین ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر بالاجی رام کرشنن نے سمندریان پروجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی تمل کو بتایا اس منصوبے سے نہ صرف یہ ثابت ہو جائے گا کہ انڈیا بھی ایسے کام کر سکتا ہے بلکہ مستقبل میں نئی ٹیکنالوجیز میں جدت میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

ان کے بقول یہ انڈیا کی سمندری تحقیق میں ایک بہت اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

رمیش راجو کا کہنا ہے کہ انھیں سمندر کی اتنی گہرائی میں جانے والی ملک کی پہلی ٹیم کا حصہ بننے پر فخر ہے۔

انھیں اس بات پر پورا اعتماد ہے کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میرین ٹیکنالوجی کے سائنسدان اس منصوبے کو پورا کر پائیں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.