ٹرمپ، الیکٹرک گاڑیاں اور ٹیکنالوجی وار: 2025 میں چین کو پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا

جنوری 2025 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیجنگ کے لیے سب سے واضح تشویش جارحانہ امریکی پالیسی کی بحالی ہوگی۔
شی جن پنگ کی حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو 2025 میں اس کے منصوبوں کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔
Getty Images
شی جن پنگ کی حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جو 2025 میں ان کے منصوبوں کو پٹڑی سے اتار سکتے ہیں۔

2024 چین کے لیے ایک پیچیدہ سال تھا۔

اگرچہ چینی حکومت نے اندرون ملک معاشی مسائل کو حل کیا جبکہ بین الاقوامی سطح پر اسے روس کے ساتھ اپنے اتحاد کی پیچیدگیوں سے نمٹنا پڑا۔

اور ایسے میں جب چین عالمی معیشت میں اپنے اہم کردار کو جاری رکھے ہوئے ہے، اسے پانچ شعبوں میں 2025 کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی چین اور دیگر ممالک کو 60 فیصد ٹیرف کی دھمکی دے چکے ہیں۔
Getty Images
ڈونلڈ ٹرمپ پہلے ہی چین اور دیگر ممالک کو 60 فیصد اضافی ٹیرف کی دھمکی دے چکے ہیں

1۔ امریکہ کے ساتھ ایک نئی دشمنی

جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بیجنگ کے لیے سب سے واضح تشویش انتہائی جارحانہ امریکی پالیسی کی بحالی ہوگی۔

ٹرمپ پہلے ہی چین اور دیگر ممالک کو اضافی 60 فیصد ٹیرف کی دھمکی دے چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے سابقہ ​​دور صدارت کے دوران شروع کی گئی تجارتی جنگ کو جاری رکھنے کا عندیہ دیا دیا ہے۔

امریکہ کے ساتھ متنازع تعلقات چین کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہ بیجنگ اس کے لیے تیار نہیں۔ اس نے گذشتہ امریکی تجارتی جنگ سے سبق سیکھا ہے۔

یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ہواوے جیسی چینی کمپنیوں نے دیگر شعبوں میں پھیل کر امریکی منڈیوں اور ٹیکنالوجی پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

اسی طرح چین امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات کر رہا ہے جیسے نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی۔

یعنی بیجنگ تجارتی جنگ لڑنے کے لیے 2017 کے مقابلے میں بہتر پوزیشن میں ہے۔

ٹیکنالوجی چین کے منصوبوں میں تیزی سے اہم عنصر بن گئی ہے۔
Getty Images
ٹیکنالوجی چین کے منصوبوں کا اہم حصہ ہے

2۔ ٹیکنالوجی کی عالمی دوڑ

اگرچہ ٹیرف زیادہ توجہ حاصل کریں گے تاہم چین ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بھی کڑا مقابلہ دے سکتا ہے جو امریکہ کے لیے چیلنج ہوگا۔

ٹیکنالوجی چین کے منصوبوں میں تیزی سے ایک اہم عنصر بن گئی ہے کیونکہ بیجنگ اپنی برآمدات میں اضافہ کر کے اس شعبے میں روزگار اور پیداوار میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

اسی طرح اس شعبے کو محدود کرنا امریکہ کے لیے ایک ترجیح ہے جو کہ سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی تک چینی رسائی کو محدود کرنے کی اس کی کوششوں سے ظاہر ہے۔

یہ نئے جنگی محاذوں میں سے ایک ہے۔ اہم ٹیکنالوجیز پر عبور حاصل کرنے کے علاوہ یہ ٹیکنالوجی کے لیے معیارات طے کرنے کا بھی مقابلہ ہے۔

یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے جسے ’بیجنگ ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے جس کے تحت چین ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کے لیے معیارات قائم کرنا چاہتا ہے جیسا کہ یورپی یونین نے اپنے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن کے قانون کے ذریعے ڈیٹا مینجمنٹ اور پرائیویسی کے لیے کیا ہے۔

اس طرح کے اقدام سے چین کو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ممکنہ طور پر سٹریٹجک سبقت مل سکتی ہے۔

یورپی یونین نے چینی الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر پابندیاں عائد کر دیں۔
Getty Images
یورپی یونین نے چینی الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر پابندیاں عائد کی

3۔ یورپی یونین ٹیرف

چین کا یورپ کے ساتھ اسی طرح کا پیچیدہ تجارتی تنازع ہے جس نے جوابی ٹیرف اقدامات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

مثال کے طور پر یورپی یونین کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں کی چینی درآمدات پر ممبر ممالک میں پابندیوں کے جواب میں بیجنگ نے فرانسیسی برانڈی پر اضافی درآمدی ٹیرف عائد کیا ہے۔

یہ محصولات ایک ایسے وقت میں لگائے گئے ہیں جب چین نے ایسی ٹیکنالوجیز میں قدم جمانا شروع کر دیا ہے جو پہلے دیگر ممالک کے لیے مخصوص تھیں۔

یورپی یونین کے ساتھ تجارتی جنگ ایشیا میں نیٹو کے کردار کو بڑھانے کے بارے میں حالیہ بات چیت کے ساتھ بیجنگ کے لیے درد سر بن سکتی ہے۔

خاص طور پر اگر یہ برسلز اور واشنگٹن کے درمیان زیادہ صف بندی کا باعث بنے۔

لیکن یورپی یونین کے خلاف ٹرمپ کی قائم کردہ دشمنی ممکنہ طور پر چین کے حق میں کام کر سکتی ہے، اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپی بلاک دوسرے شراکت داروں کی تلاش میں ہے۔

روس چین کے لیے تیزی سے اہم ہو گیا ہے۔
Getty Images

4۔ روس کے ساتھ اتحاد

پہلی نظر میں روس قدرتی وسائل اور منڈیوں کے ذریعے چین کے لیے تیزی سے اہم ہو گیا ہے جبکہ چین ماسکو کے لیے اقتصادی تعاون کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

تاہم اس حمایت نے یورپی ریاستوں کے ساتھ چین کے تعلقات کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ کچھ نے بیجنگ کو یوکرین میں روس کی جنگ میں سہولت کار کے طور پر دیکھا ہے۔

اسی طرح یوکرین پر روسی حملہ اور جنگ بیجنگ کے لیے ایک مفید خلفشار کا باعث بن سکتی ہے جس سے امریکہ کی توجہ چین سے ہٹ جائے گی۔

یوکرین جنگ کے لیے ٹرمپ کا مجوزہ امن منصوبہ اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو امریکہ کو چین پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

اس تنازعے کا حل واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان میل جول کا راستہ بھی فراہم کر سکتا ہے جو بیجنگ کے خلاف کام کرے گا۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفادات کو متاثر کر سکتا ہے۔
Getty Images
مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام چین کے مفادات کو متاثر کر سکتا ہے۔

5. مشرق وسطیٰ میں تنازعات

چین کے لیے تشویش کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ کا عدم استحکام ہے۔

روس کی طرح چین کے لیے یہ خطہ وسائل اور منڈیوں کے باعث اہم ہے۔ یہ بات زوہائی ایئر شو سے ظاہر ہوتی ہے جس میں علاقے کے ممالک چینی ہتھیاروں کے بڑے اہم گاہک تھے۔

بیجنگ کے لیے تشویش کی ایک اور وجہ ایران اور اسرائیل کے درمیان علاقائی تنازعے کا امکان ہے۔ اس میں سے ایران چین کے لیے تیل کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

مسلح تصادم کی وجہ سے رسد مکمل طور پر منقطع ہونے کی صورت میں بیجنگ کے لیے مزید اقتصادی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح شام میں دوبارہ خانہ جنگی بھی مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔

چینی اویغور (ایک بڑی تعداد میں مسلم نسلی گروہ) نے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے والی افواج میں حصہ لیا ہے، خاص طور پر ترکستان اسلامک پارٹی کے حصے کے طور پر۔

ٹی آئی پی کے کچھ ارکان نے دھمکی دی ہے کہ وہ شام میں حاصل کیے گئے ہتھیاروں کو چین کے سنکیانگ علاقے، جہاں اویغور آباد ہیں، میں ایک آزاد ریاست کے لیے طویل جنگ میں استعمال کریں گے۔

حالیہ برسوں میں شی جن پنگ کی افواج نے تقریباً 10 لاکھ اویغوروں کو پکڑا ہے، انھیں حراستی کیمپوں میں رکھا ہے اوردوبارہ تعلیم اور سخت نگرانی کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔

عالمی سطح پر ان حربوں اور آمرانہ رویے کی وجہ سے چین پر تنقید کی جاتی ہے۔

اگرچہ تمام عوامل یہ بتاتے ہیں کہ چین کو 2025 میں مشکل کا سامنا ہے تاہم ایسے اشارے بھی ہیں کہ بیجنگ ان میں کمی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ خاص طور پر چین روس کے خلاف مغرب کی طرف سے نافذ کردہ پابندیوں کے نظام کا مطالعہ کرے گا، جو ممکنہ طور پر تائیوان پر تنازعے کی صورت میں چین کے خلاف استعمال ہوں گی۔

2025 میں جو کچھ ہوتا ہے بیجنگ کے لیے یہ فیصلہ اہم ہو گا کہ آیا اسے نئے اتحادی بنانے ہیں، نئی منڈیوں میں جانا ہے یا ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی ​​اقتصادی طاقت پیدا کرنی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.