آپریشن موسیٰ سے سلیمان تک: جب موساد کی خفیہ کارروائیوں سے ایتھوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا گیا

آروس کا ریزورٹ بحیرہ احمر کے ساحل پر سوڈانی ریگستان میں صرف ایک خوبصورت تفریحی مقام نہیں تھا، بلکہ یہ جادوئی جگہ موساد کے خفیہ ایجنٹوں کا اڈہ تھی جس کا سہارا لیتے ہوئے موساد نے ایتھوپیائی یہودیوں کو اسرائیل میں بسایا۔
israel
Getty Images

اسرائیلی حکام نے جنوری 1985 میں پہلی مرتبہ اعتراف کیا کہ ایتھوپیا سے ہزاروں فلاشا یہودیوں کو خفیہ آپریشنز کے ذریعے اسرائیل منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کی طرف سے فلاشا یہودیوں کو ایتھوپیا سے نکالنے کے لیے کیے گئے آپریشنز کی تفصیلات سامنے آئیں، جن میں بقول اسرائیلی حکام سب سے نمایاں موسیٰ، شیبا، سلیمان، اور وِنگز آف دی ڈو (فاختہ کے پر) آپریشنز تھے۔

یہودی آبادکار
Getty Images

فلاشا یہودی کون ہیں؟

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق بیت اسرائیل فرقہ یا ایتھوپیا کے یہودیوں کی ابتدا غیر واضح ہے اور یہ کہ امہاری زبان میں لفظ فلاشا کا مطلب جلاوطن یا اجنبی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ شیبا کی ملکہ (مکیدا) اور بادشاہ سلیمان کے بیٹے مینیلک اول کی نسل سے ہیں اور ان کے آباؤ اجداد میں سے کچھ مقامی لوگ (اگاؤ) تھے جنھوں نے عیسائی دور سے صدیوں پہلے یہودیت اختیار کی تھی۔

اس فرقے کی ابتدا کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ گمشدہ عبرانی قبیلے ’دان‘ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایک کہانی یہ بھی ہے کہ یہ ان یہودیوں کی اولاد ہیں جو 586 قبلِ مسیح میں پہلے مندر کی تباہی کے بعد یہودیوں کا ملک چھوڑ کر مصر چلے گئے تھے، اور وہاں سے ایتھوپیا چلے گئے۔

اگرچہ ابتدائی بیت اسرائیل فرقہ زیادہ تر مرکزیت پسند نہیں تھا اور افریقی خطے کے لحاظ سے اس کے مذہبی طریقے مختلف تھے، لیکن یہ اس وقت بھی یہودیت کے ساتھ وفادار رہا جب ایتھوپیا کی طاقتور اکسم بادشاہت نے چوتھی صدی عیسوی میں مسیحی مذہب قبول کیا۔

اس کے بعد ان پر ظلم و ستم ڈھائے گئے اور انھیں شمالی ایتھوپیا کی جھیل تانا کے آس پاس کے علاقے میں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا۔

اپنے مسیحی پڑوسیوں کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرات کے بعد، متفرق یہودی برادریاں چودھویں اور پندرھویں صدی میں تیزی سے متحد ہو گئیں، اس وقت انھیں ’ہاؤس آف اسرائیل‘ کہا جانے لگا اور یہ ایتھوپیا میں ایک الگ یونٹ بنا۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق ’ایتھوپیا کے عیسائیوں نے 15ویں اور 16ویں صدی میں انھیں ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود، ’ہاؤس آف اسرائیل‘ نے 17ویں صدی تک جزوی آزادی برقرار رکھی، اس وقت تک جب شہنشاہ سوسینیوس نے انھیں مکمل طور پر کچل دیا اور ان کی زمینیں ضبط کر لیں۔‘

19ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں، ایتھوپیا میں یہودیوں کے حالات بہتر ہوئے۔ بیت اسرائیل دسیوں ہزار کی تعداد میں جھیل تانا کے شمال میں رہتے تھے، اور ان کے مرد لوہار، کپڑے بُننے والوں اور کسانوں کے طور پر کام کرتے تھے، جبکہ ان کی عورتیں مٹی کے برتن بنانے کے لیے مشہور تھیں۔

اس برادری کے پاس ایک مقدس اور ایک دعائیہ کتاب ہے جو کہ قدیم ایتھوپیا کی زبان گیز میں لکھی گئی ہے اور ان کے پاس تلمودی قوانین نہیں ہیں، لیکن وہ سختی سے یہودی روایات کی پابندی کرتے ہیں۔

وہ سبت مناتے ہیں، ختنے کرواتے ہیں، گاؤں کے پادریوں (کوہانم) کی سربراہی میں عبادت گاہوں میں مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں، یہودی کھانے کے قوانین کی پیروی بھی کرتے ہیں، ناپاکی سے بچنے کے لیے بہت سے رسمی قوانین کی پابندی کرتے ہیں، 14 اپریل کو یہودی سال کے مطابق قربانیاں کرتے ہیں اور سب سے اہم یہودی دن بھی مناتے ہیں۔

فلاشا یہودی
Getty Images

فلاشا ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے سے باقی دنیا کے یہودیوں سے کٹے رہے تھے۔ انھیں 19ویں صدی کے آخر میں ماہرین بشریات نے دوبارہ دریافت کیا لیکن اسرائیلی مذہبی رہنماؤں نے انھیں 1970 کی دہائی کے اوائل تک حقیقی یہودیوں کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔

سنہ 1973 میں اسرائیل کے اعلیٰ ربی اوادیہ یوسف نے باضابطہ طور پر یہ نظریہ اپنایا کہ ہاؤس آف اسرائیل کا تعلق اسرائیل کے ان دس گمشدہ قبائل میں سے ایک سے ہے جو آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسرائیل کی بادشاہت کی شکست کے بعد غائب ہو گئے تھے اور یہ کہ ’فلاشا یہودی ہیں۔

بیت اسرائیل فرقے کی آل میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے کچھ آباؤ اجداد نے انیسویں صدی میں عیسائی مبلغین کے ایما پر عیسائیت اختیار کی اور بعد میں یہ دوبارہ یہودی مذہب کی طرف لوٹ آئے۔

اس گروپ کو فلاش مورا کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اس کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے، لیکن اسرائیلی وزارت داخلہ کی دستاویزات کے مطابق انھیں ’مکمل طور پر یہودی‘ کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

اسرائیلی قوانین فلاش مورا یہودیوں کو اسرائیل پہنچنے پر شہریت حاصل کرنے کا براہ راست حق نہیں دیتے، جیسا کہ دنیا کے بیشتر یہودیوں کو دیا جاتا ہے۔

اسرائیلی حکومت نے فلاشا مورا کی اسرائیل میں امیگریشن کا کوٹہ مقرر کیا ہوا ہے اور ان کی شہریت کا دارومدار ان کے کٹر مذہبی عقیدے سے ہٹ کر مروجہ یہودیت اپنانے سے ہے اور اسرائیلی معاشرے میں ’فلاشا مورا‘ کو اسرائیل میں بسانے کا معاملہ کافی عرصہ سے متنازع ہے۔

ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے کچھ اسرائیلی فلاشا مورا سمیت تمام ایتھوپیائی یہودیوں کو ملک میں لانے اور انھیں اپنے ساتھ شامل کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ ایک اور گروہ نے انھیں اس بنیاد پر مسترد کر دیا ہے کہ وہ انھیں یہودی ہی تسلیم نہیں کرتے۔

فلاشا کی ملک بدری کی سب سے اہم کارروائیاں

ایک اندازے کے مطابق 1952 سے 1979 تک ایتھوپیا سے صرف 466 تارکین وطن اسرائیل میں رجسٹرڈ ہوئے تھے لیکن اسرائیل کے مرکزی ادارۂ شماریات کے مطابق 1980 سے 1992 کے درمیان تقریباً 45 ہزار بیت اسرائیل تارکین وطن قحط زدہ اور خانہ جنگی سے متاثرہ ایتھوپیا سے اسرائیل منتقل ہوئے۔

اس کمیونٹی میں سے صرف چند ہزار ہی ایتھوپیا میں رہ گئے لیکن اسرائیلی معاشرے میں ان کا ضم ہونا سالوں سے متنازع اور تناؤ کا باعث ہے۔

فلاشا یہودی
Getty Images

1980 کی دہائی میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹوں کے ذریعے سوڈان میں پناہ گزین کیمپوں سے ایتھوپیائی یہودیوں کو مختلف آپریشنز کے ذریعے اسرائیل لایا گیا۔ ان آپریشنز میں سے نمایاں مندرجہ ذیل ہیں۔

آپریشن موسیٰ

یہ آپریشن، جو نومبر 1984 اور جنوری 1985 کے درمیان کیا گیا، اسے آپریشن موسیٰ کہا گیا اور یہ اسرائیلی انٹیلیجنس، امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور سابق صدر غفار نمیری کے ماتحت سوڈانی حکام کے درمیان ایک مشترکہ کوشش تھی۔

خانہ جنگی اور قحط کی ہولناکیوں کی وجہ سے، جس نے یہودیوں سمیت ایتھوپیا کے لوگوں کو بری طرح متاثر کیا، یہودی کمیونٹی کے ہزاروں افراد پیدل ہی ایتھوپیا سے سوڈان کے پناہ گزین کیمپوں کی طرف بھاگے، یہ سفر عام طور پر دو ہفتوں سے ایک ماہ تک کا ہوتا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق اس سفر کے دوران تشدد اور بیماری کی وجہ سے تقریباً چار ہزار افراد ہلاک ہوئے۔

نومبر 1984 میں اسرائیلی کابینہ نے اس معاملے پر بات کرنے کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا اور آپریشن موسیٰ کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی سال 21 نومبر سے تقریباً آٹھ ہزار ایتھوپیائی یہودیوں کو سوڈان سے برسلز، بیلجیئم کے راستے اسرائیل منتقل کیا گیا۔ یہ آپریشن جنوری 1985 کے اوائل میں مکمل ہوا۔

لاس اینجلس ٹائمز نے اس ائیر لفٹ (فضائی آپریشن) کو 1950 کی دہائی میں ’میجک کارپٹ‘ آپریشنز کے بعد سب سے بڑا آپریشن قرار دیا۔ میجک کارپٹ آپریشن میں سنہ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد عراق سے ایک لاکھ 21 ہزار، یمن سے 47 ہزار اور عدن سے تین ہزار یہودی لائے گئے۔

یہ آپریشن 1970 کی دہائی کے بعد سے ایک خطے سے آنے والے تارکین وطن کی سب سے بڑی تعداد میں آمد کی بھی نمائندگی کرتا ہے، جب ہزاروں سوویت یہودی اسرائیل لائے گئے تھے۔

آپریشن شیبا

یہ آپریشن 1985 میں کیا گیا، جو سابق امریکی صدر جارج بش سینیئر کی کوششوں کی بدولت ہوا اور اس میں 20 ہزار سے زائد فلاشا افراد کو منتقل کیا گیا۔ جارج بش سینیئر اس وقت امریکہ کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

انھوں نے سوڈانی دارالحکومت خرطوم کا دورہ کیا اور سوڈانی صدر نیمیری سے ملاقات کی تاکہ منتقلی کی کارروائیوں کی کامیاب تکمیل کی جا سکے۔ امریکی افواج نے مشرقی سوڈان کے العزازہ ہوائی اڈے سے بڑی تعداد میں فلاشا افراد کو اپنے طیاروں کے ذریعے اسرائیل منتقل کیا۔

آپریشن سلیمان

سنہ 1991 کے اوائل میں، ایتھوپیا میں مینگیسٹو ہیلی مریم کی آمریت کے آخری دن تھے اور باغی افواج دارالحکومت ادیس ابابا کے قریب پہنچ گئی تھیں۔ مئی 1991 کے آخر میں، عدیس ابابا کے باغیوں کے قبضے سے چند دن پہلے، مینگیسٹو ایتھوپیا سے فرار ہو گئے اور زمبابوے میں پناہ لی۔

مینگیسٹو حکومت اور اسرائیل کے حکام کے درمیان بیت اسرائیل کی کمیونٹی کو اسرائیل میں ہجرت کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک معاہدہ کیا گیا جس کے بدلے میں متعدد مینگیسٹو حکومت کے کئی عہدیداروں کو تقریباً 35 ملین ڈالر اور امریکہ میں پناہ دی گئی۔

اس معاہدے کے نتیجے میں آپریشن سلیمان ہوا جس میں 24 مئی 1991 کو تقریباً 15 ہزار فلاشا یہودیوں کو اسرائیل بھجوایا گیا، انھیں اسرائیلی فضائیہ اور اسرائیل کی قومی ایئرلائنز ال عال کے تقریباً 30 طیاروں میں منتقل کیا گیا۔

فاختہ کے پروں کا آپریشن

14 نومبر 2010 کو اسرائیلی کابینہ نے فلاشا مورا یہودیوں کو اسرائیل میں بسانے کی اجازت دینے کے لیے ایک نئے منصوبے کی منظوری دی اور تین سال کے دوران سات ہزار افراد کو اسرائیل پہنچانے کے لیے 91 پروازیں چارٹر کی گئیں۔ اس آپریشن کو ونگز آف ڈوو کہا گیا۔

’برائیڈ ولیج‘

اگست 2019 میں بی بی سی کے صحافی رفیع برگ نے بحیرۂ احمر کے ساحل پر سوڈان میں ایک ریزورٹ کی کہانی کا انکشاف کیا جسے موساد نے فلاشا مورا کو وہاں سے لے جانے کے لیے ایک کور کے طور پر استمعال کیا تھا۔

برگ لکھتے ہیں کہ آروس کا ریزارٹ بحیرۂ احمر کے ساحل پر سوڈانی ریگستان میں صرف ایک خوبصورت تفریحی مقام نہیں تھا، بلکہ یہ جادوئی جگہ موساد کے خفیہ ایجنٹوں کا اڈہ تھی۔ اس کہانی پر نیٹ فلکس پر ایک فلم بھی موجود ہے۔

سنہ 1980 کی دہائی کے اوائل میں، موساد نے سوڈان کے پناہ گزین کیمپوں میں پھنسے ہزاروں ایتھوپیائی یہودیوں کو بچانے اور انھیں اسرائیل پہنچانے کے لیے ایک غیر معمولی آپریشن کے لیے ریزورٹ کو کھولا اور چلایا۔

سوڈان اس وقت اسرائیل کا دشمن ملک تھا، اس لیے اس مشن کو وہاں اور اسرائیل دونوں میں خفیہ طریقے اور انتہائی خاموشی سے انجام دینا پڑا، یہاں تک کہ ایجنٹوں نے اپنے گھر والوں سے بھی اس بارے میں بات تک نہیں کی۔

متعدد ایجنٹوں نے سوئس کمپنی کے نمائندے ہونے کا بہانہ کیا اور سوڈانی حکام کو قائل کیا کہ وہ گاؤں والی جگہ پر سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، جسے انھوں نے ڈھائی لاکھ ڈالر کے عوض تین سال کے لیے کرائے پر لیا۔

فلاشا یہودی
BBC

وقتاً فوقتاً، ایجنٹوں کا ایک گروہ گاؤں سے نکلتا اور مقامی عملے کو بتاتا کہ وہ خرطوم جا رہے ہیں، جب کہ حقیقت میں وہ کیمپوں سے ایتھوپیا کے یہودیوں کے ایک گروپ کو سمگل کرنے جا رہے ہوتے، یہ ساحل تک تقریباً 900 کلومیٹر کا ایک لمبا راستہ تھا، جہاں اسرائیلی بحریہ اور بعض اوقات اسرائیلی فضائیہ کے یونٹس انھیں لینے کے لیے آتے تھے۔

آروس کے ریزورٹ نے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی کہ وہ معاشی طور پر خود کفیل ہو گیا اور اسے موساد کی مالی مدد کی ضرورت نہ رہی۔ منصوبے کی کچھ آمدنی ایتھوپیا کے یہودیوں کو سمگل کرنے کے لیے ٹرک کرایہ پر لینے کے لیے بھی استعمال کی جاتی۔

آروس کے ریزورٹ کے مہمانوں میں مصری فوج کا ایک یونٹ، برطانوی فوجی، خرطوم سے غیر ملکی سفارت کار اور سوڈانی حکام شامل تھے۔

1984 تک، سوڈان میں قحط پڑ گیا، اور یہودیوں کو نکالنے کی کارروائیوں کی رفتار کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ امریکہ کی مداخلت سے سوڈان کے سابق صدر جعفر نمیری نے یہودی پناہ گزینوں کو خرطوم سے براہ راست یورپ پہنچانے پر رضامندی ظاہر کی، اور اس کی یہ شرط رکھی کہ یہ آپریشن خفیہ رکھا جائے۔

اس آپریشن میں 28 پروازیں شامل تھیں، جن میں ایتھوپیا کے ہزاروں یہودیوں کو ’موسیٰ‘ نامی آپریشن میں برسلز اور وہاں سے اسرائیل پہنچایا گیا۔

جنوری 1985 میں اس آپریشن کا پتہ چل گیا اور اسے فوری طور پر روک دیا گیا۔ اسی سال اپریل میں، نیمیری کو ایک فوجی بغاوت میں معزول کر دیا گیا، اور نئی حکومت نے فوری طور پر ’حقیقی یا خیالی موساد کے جاسوسوں‘ کی تلاش شروع کر دی۔

موساد کے سربراہ نے ریزورٹ کو فوری طور پر خالی کرنے کا حکم دیا اور اگلے ہی دن اس خالی کر دیا گیا۔

اسرائیل میں ایتھوپیا کے یہودیوں کے مسائل

اس وقت اسرائیل میں ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ ایتھوپیائی نژاد یہودی مقیم ہیں۔ وہ یا ان کے والدین اس ملک میں صرف کپڑوں کا ایک سوٹ کیس لے کر پہنچے تھے، عبرانی نہیں جانتے تھے، لیکن انھوں نے ایسے وقت میں نئے معاشرے میں ضم ہونے کی کوشش کی جب مذہبی اسٹیبلشمنٹ میں بہت سے لوگ ان کی یہودیت پر سوال اٹھاتے تھے۔

سنہ 1990 کی دہائی میں تو اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ اسرائیل کا قومی بلڈ بینک ایچ آئی وی انفیکشن کے خوف سے لگاتار ایتھوپیا کے اسرائیلیوں کی طرف سے عطیہ کردہ خون کو ضائع کرتا رہا تھا۔

اس سے بقیہ اسرائیلی معاشرے سے بھی اخراج کا پیغام سامنے آیا۔

اس طرح ایتھوپیا کے یہودیوں کا اسرائیلی معاشرے میں انضمام ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے علاوہ بے روزگاری اور غربت کی بلند شرح کی وجہ سے انتہائی مشکل رہا اور یہ رجحان گزشتہ چند سالوں میں معمولی بہتری کے باوجود بھی جاری ہے۔

2014 میں اسرائیلی وزارت انصاف کی ڈائریکٹر جنرل ایمی پالمور کی جاری کی گئی رپورٹ میں ایتھوپیائی نژاد اسرائیلیوں کے حالات میں بڑی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا۔

رپورٹ جاری ہونے کے پانچ سال بعد، ایک حکومتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پالمور رپورٹ کی صرف 67 فیصد سفارشات پر عمل درآمد کیا گیا، یعنی رپورٹ میں شامل 51 میں سے 34 سفارشات پر عمل کیا گیا، اور آٹھ سفارشات پر عمل درآمد کے لیے کام جاری ہے جو کہ تقریباً 17 فیصد بنتا ہے۔

سب سے قابل ذکر کامیابیوں کا تعلق تعلیم اور روزگار کے شعبوں سے ہے، جب کہ زیادہ تر سفارشات جو ابھی تک مکمل نہیں ہوئی ہیں ان کا تعلق تعلیم، مواصلات اور کھیل کی وزارتوں میں نسلی امتیاز کا مقابلہ کرنے سے ہے۔

دو اہم سفارشات ایسی ہیں جن پر پولیس عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی، حالانکہ اسرائیلی سیکیورٹی آپریٹس نے ان سے متعلق زیادہ تر سفارشات کو پورا کیا۔

مارچ 2019 میں اس متعلق ایک ذیلی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے معمولی جرائم کے الزام میں ایتھوپیائی باشندوں پر کی جانے والی تفتیش کی فلم نہیں بنائی، اور نہ ہی اس نے رپورٹ جاری کی کہ اس نے کون سی سفارشات پر عمل درآمد کروایا اور اس سلسلے میں اسے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔

پولیس کی جانب سے حاصل کی گئی اہم اصلاحات میں افسران کی طرف سے غیر ضروری گرفتاریوں کا سہارا لیے بغیر اپنی شناخت ظاہر کرنے میں کامیابی اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے پولیس کے کلچر کو بہتر بنانے کے لیے 80 سیمینارز کا انعقاد شامل تھا۔

پولیس رہنماؤں نے ایتھوپیائی باشندوں، خاص طور پر نابالغوں کے ان مقدمات کو بند کرنے کی کوششوں کی بھی حوصلہ افزائی کی جو سنگین نوعیت کے نہیں تھے۔

انھوں نے ایتھوپیائی یہودیوں کے لیے دستاویزات کا امہاری میں ترجمہ کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی جس سے انھیں یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ انھیں تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران کیا کرنا ہے۔

ایتھوپیائی یہودیوں کے ساتھ امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے مفت قانونی امداد بھی فراہم کر جاتی ہے۔

فلاشا یہودی
Getty Images

اگست 2016 میں، پالمور کی رپورٹ کے بعد، اس وقت کے اسرائیلی پولیس کے سربراہ رونی الشیش نے کہا کہ سکیورٹی اہلکاروں کے لیے ایتھوپیا کے شہریوں اور دیگر تارکین وطن پر باقی آبادی کے مقابلے میں زیادہ شبہ کرنا ’معمول‘ کی بات ہے۔

الشیش نے کہا: ’جب کوئی پولیس افسر کسی سے ملتا ہے (ایتھوپیائی نژاد یا کسی دوسری اقلیت سے جس میں جرائم کی شرح زیادہ ہوتی ہے)، تو یہ فطری بات ہے کہ اسے دوسروں کے مقابلے میں ان پر زیادہ شک ہوتا ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں علم ہے اور ہم نے اس سے نمٹنا شروع کر دیا ہے۔‘ اس طرح انھوں نے ایک ہی وقت میں اس رجحان کو قبول کرنے اور اس پر اپنے اعتراض کا اشارہ دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ پولیس اور ایتھوپیائی باشندوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، مقدمات کو سیاست کا رنگ دینے میں کمی آئی ہے، اور معمولی مقدمات کو خارج کر دیا جاتا ہے۔

تاہم کچھ اور ایسے واقعات بھی ہوئے۔ جولائی 2019 میں، ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ اسرائیلی سولومن ٹیکا کے ایک آف ڈیوٹی پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاک ہونے کے بعد پورے اسرائیل میں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔

اسرائیل کے متعدد شہروں میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، جن میں سے کچھ نے دھرنا دیا، سڑکیں بلاک کیں اور ٹائر جلائے۔

ٹیکا کا واقعہ ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والے ایک اور 24 سالہ اسرائیلی یہودا بیاڈگا کے قتل کے چھ ماہ بعد پیش آیا جو ذہنی بیماری میں مبتلا تھا، اور جسے پولیس کے مطابق ایک پولیس اہلکار کو چاقو سے دھمکی دینے کے بعد گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان کے قتل پر تل ابیب میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

مئی 2015 میں، دو پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں ایک ایتھوپیائی نژاد اسرائیلی فوجی کی پٹائی کے بعد بھی مظاہرے ہوئے، یہ واقعہ ویڈیو میں ریکارڈ کیا گیا اور بڑے پیمانے پر پھیلا۔

ٹیکا کے والد نے اپنے بیٹے کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا ہم اتنے مختلف ہیں؟ ہم قوانین اور رسم و رواج کا احترام کرتے ہیں، تو وہ ہمارا احترام کیوں نہیں کرتے؟ ہم ایک ساتھ رہتے ہیں، جو کچھ ہوا کافی ہے، آئیں امن سے رہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.