کیپ ٹاؤن کی اداس شام سے کلین سویپ کی خفت لیے مایوس پلٹتے پاکستان کے ساتھ ہی شائقین کا وہ دو دہائیوں کا انتظار بھی مایوس پلٹ آیا جسے اپنا پھل پانے کو اب کرکٹرز کی ایک نئی جنریشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔ پڑھیے سمیع چوہدری کی تحریر۔
ٹیسٹ کرکٹ کی روایت اور جنوبی افریقہ میں پاکستان کا سابقہ ریکارڈ ملحوظ رکھا جائے تو حالیہ ٹیسٹ سیریز کا حتمی نتیجہ بھی حیران کن ہرگز نہیں کہ تین دہائیوں پر محیط دو طرفہ ٹیسٹ روابط میں پاکستان فقط دو ہی ٹیسٹ میچز اس سرزمین پہ جیتنے میں کامیاب ہوا ہے۔
کیپ ٹاؤن میں اگر کچھ حیران کن تھا تو پاکستانی بیٹنگ کا وہ جواب تھا جو جنوبی افریقہ کی طرف سے فالو آن کی ندامت مسلط کیے جانے کے ردِعمل میں اس نے دیا۔ شان مسعود کا یہ جواب اگر ایسا شاندار نہ ہوتا تو شاید یہ میچ تیسری شام کا سورج ڈھلنے سے پہلے ہی تمام ہو چکا ہوتا۔
زندگی شان مسعود کے لیے کبھی آسان نہیں رہی۔ اپنے کرئیر کا بہترین وقت انھوں نے ڈومیسٹک سرکٹ اور کاؤنٹی کرکٹ میں محض اس وجہ سے گزار دیا کہ تب کی کرکٹ اسٹیبلشمنٹ کچھ الگ ترجیحات رکھتی تھی۔
اور پھر جب انھیں ٹیسٹ ٹیم کی قیادت بھی تھمائی گئی تو شائقین کی اکثریت ان کی ناقد محض اس سبب ہو رہی کہ یہ قیادت کی چھڑی انھیں کسی اور سے نہیں، بلکہ ان کے ہر دلعزیز بابر اعظم سے لے کر دی گئی تھی۔
پاکستان کی قیادت تھامنے کے بعد شان مسعود کا پہلا دورہ ہی ان آسٹریلوی کنڈیشنز کا تھا جہاں سے خالی پلٹنے والے کپتان عموماً کپتان رہا نہیں کرتے۔ حسبِ توقع اس دورے سے شان بھی بے ثمر واپس لوٹے مگر سابقہ تین دوروں کے برعکس وہاں پاکستان نے ایسی سخت جان کرکٹ کھیلی کہ مائیکل کلارک کے بقول، وہ دو میچز میں جیت کے عین قریب تک آ گئے۔
بنگلہ دیش کے ہاتھوں تاریخی کلین سویپ کے بعد انگلش دورہِ پاکستان بھی اسی سمت گامزن تھا کہ ’عاقب بال‘ کی آمد نے نتائج پلٹ دیے اور بالآخر دو فتوحات شان مسعود کی قیادت کے بھی نام ہوئیں۔
دورہِ جنوبی افریقہ پہ اگرچہ پاکستان سے بہت زیادہ توقعات تو نہ تھیں مگر سینچورین میں محمد عباس کا جادو پاکستان کو فتح کے اس قدر قریب لے آیا کہ جنوبی افریقی ڈریسنگ روم کا اضطراب بھی کیمروں کی نظر سے اوجھل نہ رہ پایا۔
مگر نیولینڈز میں جہاں ٹیم سلیکشن پاکستان کے لیے دردِ سر بنی، وہیں صائم ایوب کی انجری بھی الگ خسارہ دے گئی۔ اور پھر جو بولنگ اٹیک شان مسعود کو میسر تھا، اس میں بھی تیز ترین بولر عامر جمال تھے جن کے سوا کوئی دوسرا بولر 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کا وہ ہندسہ چھونے سے قاصر تھا جو اس پچ پہ نہایت ضروری تھا۔
سو، جب تیسری شام ٹیمبا باوومہ نے فالو آن کروانے کا فیصلہ کیا تو توقع انھیں یہی تھی کہ پہلی اننگز میں رینگ رینگ کر بھی 200 کا مجموعہ نہ بنا پانے والی بیٹنگ لائن اگر بہت مزاحمت بھی کر گئی تو بھی 300 تک تھوڑا ہی جا پائے گی۔
مگر جو جواب پاکستان نے واپس انھیں دیا، وہ فالو آن کے جواب میں دہائیوں پرانے ریکارڈ بھی توڑ گیا۔
شان مسعود نہ صرف اپنی ٹیم کی اس خفت کے جواب میں بطور قائد ڈٹ کر کھڑے ہوئے بلکہ ایسی رفتار سے رنز پاکستان کے کھاتے میں ڈالتے گئے کہ دیکھتے دیکھتے وہ ضخیم خسارہ گھٹنے لگا اور اننگز سے بھی بڑی شکست کا خطرہ ٹلنے لگا۔
جس نہج پہ شان کی اننگز پاکستان کو لے آئی تھی، وہاں ایک متبادل منظرنامہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ جو لڑائی انھوں نے لڑی، ویسی ہی شدت سے کوئی ایک اور بلے باز بھی لڑ جاتا اور میچ کو پانچویں دن تک دھکیل پاتا تو شاید معاملات دلچسپ ہو جاتے۔
مگر باوومہ نے پہلی گیند کی معیاد پوری ہونے کے بعد اٹھتی ریورس سوئنگ کو بھی اہمیت نہ دی اور نئی گیند لینے کا بجا فیصلہ کیا۔ اور پھر کوینا مپھاکا کے برق رفتار ہاتھوں میں نئی گیند پاکستان کے سبھی مزاحمانہ عزائم پاش پاش کر گئی۔
بائیں ہاتھ کے دونوں بلے باز اوپر تلے گنوانے کے بعد پاکستانی بیٹنگ اس تزویراتی برتری سے بھی محروم ہو گئی جو سٹرائیک روٹیشن کے ساتھ بولرز کی لائن و لینتھ کو بھی متاثر کر سکتی تھی۔ محمد رضوان اور سلمان آغا نے بہرحال نئی گیند کا بھرپور مقابلہ کیا اور باوومہ کے صبر کا امتحان طویل تر کر دیا۔
دونوں نے چائے کے وقفے تک پاکستان کی پوزیشن اس قدر مستحکم رکھی کہ میچ بآسانی پانچویں دن کی طرف بڑھ سکتا تھا۔
مگر چار روز تک فاسٹ بولرز کے قدموں کی تھاپ سہنے والی اس بے جان پچ میں بھی کئی ایسے گرد آلود گوشے نمودار ہو چکے تھے جہاں سے کیشو مہاراج بلے بازوں کے اعتماد میں دراڑ ڈال سکتے تھے۔
اگرچہ اننگز سے بھاری شکست کے خواب دیکھتی میزبان ٹیم کو دوبارہ بیٹنگ پہ مجبور کر ڈالنا پاکستان کے لیے ایک چھوٹی سی اخلاقی فتح ضرور ہو سکتی ہے مگر زندگی کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریکارڈز کی کتابیں اخلاقیات پہ نہیں، اعدادوشمار پہ مرتب ہوتی ہیں۔
اگرچہ پاکستان کا یہ شاندار فائٹ بیک تمام اطراف سے تحسین کے انبار وصول کر سکتا ہے مگر یہ بھی غلط ٹیم سلیکشن، پیس بولنگ وسائل کی کمیابی اور پہلی اننگز کی بیٹنگ کوتاہیوں کا ازالہ نہ کر پایا۔
آخری بار پاکستان جب جنوبی افریقہ میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتا تھا، تب محمد آصف کا ہنر اپنے عروج پہ تھا۔ محمد آصف کو کرکٹ سے گئے ہوئے ڈیڑھ دہائی ہو چکی اور جنوبی افریقہ میں کسی نایاب ٹیسٹ فتح کو پاکستانی شائقین کا انتظار دو دہائیوں تک پہنچنے کو ہے۔
کیپ ٹاؤن کی اداس شام سے کلین سویپ کی خفت لیے مایوس پلٹتے پاکستان کے ساتھ ہی شائقین کا وہ دو دہائیوں کا انتظار بھی مایوس پلٹ آیا جسے اپنا پھل پانے کو اب کرکٹرز کی ایک نئی جنریشن کا انتظار کرنا پڑے گا۔