ذوالفقار علی بھٹو کی ’چالاکی‘ اور اندرا گاندھی کی ’سیاسی غلطی‘

سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں بھٹو کی سفارت کاری سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا اور اندرا گاندھی کو اس معاہدے کی وجہ سے آج بھی تنقید کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟
بے نظیر بھٹو
Getty Images

نوٹ: یہ تحریر پہلی بار 4 جولائی 2021 کو شائع کی گئی تھی اور اسے آج ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر دوبارہ شیئر کیا جا رہا ہے۔

یہ معاہدہ جو ’شملہ اگریمنٹ‘ یا ’شملہ ایکارڈ‘ بھی کہلاتا ہے، اس کی دستاویز پر دستخطوں کی تاریخ 2 جولائی، سنہ 1972 درج ہے جبکہ حقیقت میں اس دستاویز پر دستخط 3 جولائی کی علی الصبح ہوئے تھے۔ مذاکرات جو بظاہر ناکام ہو گئے تھے، ان پر آخری وقت تک رد و بدل ہوتا رہا اور اس طرح اگلا دن شروع ہو گیا تھا۔

اس لیے شملہ معاہدے پر انڈین وزیرِ اعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط 3 جولائی کی صبح کیے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی افواج مشرقی پاکستان میں انڈین افواج کے سامنے ہتھیار ڈال چکی تھیں۔ پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 73 ہزار جنگی قیدی انڈیا کی حراست میں تھے جن میں 45 ہزار فوجی یا نیم فوجی تھے اور مغربی پاکستان کا تقریباً پانچ ہزار مربع میل رقبہ انڈیا کے قبضے میں تھا۔

انڈیا اور پاکستان نے سنہ 1971 کی جنگ کے بعد، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ایک آزاد ملک بنگلہ دیش کی صورت میں وجود میں آیا تھا، دونوں ممالک ’پرامن ذرائع سے اپنے اختلافات کو باہمی بات چیت کے ذریعے یا کسی اور پرامن ذرائع سے باہمی اتفاق رائے سے حل کرنے کے عزم‘ پر متفق ہوئے تھے۔

پاکستان کی سیاسی صورتِحال یہ تھی کہ پاکستان میں کوئی آئین نہیں تھا۔ سنہ 1970 کے عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی تھی۔ انتخابات میں شکست کھانے والی جماعتیں ان انتخابات کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔

ادھر انڈین وزیرِ اعظم اندرا گاندھی ایک فاتح ملک کی لیڈر کے طور پر اپنے عوام میں زیادہ مقبول لیڈر بن چکی تھیں۔ اُس وقت کے حزب مخالف کے ایک رہنما اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو ہندو دیوی ’دُرگا‘ کا خطاب دیا اور انڈین اخبارات میں انھیں ’ہندوستان کی مہا رانی‘ لکھا جا رہا تھا۔

ایسے میں انڈیا کے سامنے ’پاکستان کو مزید سبق سکھانے‘ کے منصوبے کی بات کی جا رہی تھی اور کئی اخبارات میں کہا جا رہا تھا کہ ایک ’شکست خوردہ پاکستان‘ کو مجبور کیا جائے کہ وہ کشمیر سمیت باقی تنازعات کو انڈیا کی شرائط کے مطابق مستقل بنیادوں پر طے کرے۔

مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے بعد پاکستان کی فوج میں بے چینی بڑھ چکی تھی اور قید فوجیوں کی رہائی کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ کوئی آئین نہیں تھا لہٰذا مارشل لا ریگولیشنز جاری کر کے اقتدار ایک سویلین کو منتقل کیا گیا۔ اس طرح ایک سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کا تقرر ہوا۔

اندرا گاندھی فتح کے نشے میں چور پاکستان سے مذاکرات کے لیے تیار نہ تھیں۔ پاکستان کے سویلین چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر صدر ذوالفقار علی بھٹو نے روس کا دورہ کیا اور کہا گیا کہ پاکستان اپنے ’دیرینہ‘ دوست روس کے ذریعے انڈیا پر مذاکرات کے آغاز کے لیے دباؤ ڈلوانا چاہتا تھا۔ کافی سفارتی کوششوں کے بعد اندرا گاندھی پاکستان سے مذاکرات کے لیے راضی ہوئی تھیں۔

مذاکرات کا آغاز: ’ہم اپنی فتح پر معذرت خواہ نظر آرہے تھے

رابطوں کا سلسلہ بحال ہوا اور وفود کا تبادلہ ہوا۔ پاکستان کے صدر کا انڈیا جا کر مذاکرات کرنے کا فیصلہ ہوا تاکہ جو بھی ابتدائی سطح پر طے پا رہا تھا اُسے ایک باقاعدہ معاہدے کی شکل دی جا سکے۔ مذاکرات کے آغاز میں انڈیا واضح طور پر ایک فاتح ملک تھا لیکن انہی مذاکرات کے دوران وہ موڑ بھی آیا جب بقول ایک انڈین سفارتکار کے، فاتح ملک ’معذرت خواہ‘ نظر آرہا تھا۔

انڈین مذاکراتی ٹیم کے ایک اہلکار کے این بخشی سنہ 2007 میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی فوج ہتھیار ڈال چکی تھی، دنیا کی رائے عامہ انڈیا کے ساتھ تھی، ’تب بھی ہم زیادہ حاصل نہیں کر سکے۔ ہم اپنی فتح پر معذرت خواہ نظر آرہے تھے۔ ہم معاہدہ کرنے کی خواہش میں پاکستان کے سامنے جھکے جا رہے تھے۔‘

انڈیا سے تعلق رکھنے والے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اُدھے بالا کرشنن 20 نومبر 2019 کے دن اندرا گاندھی کی سالگرہ کے موقع پر روزنامہ ہندو میں شائع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل میں اندرا گاندھی کی تعریفوں کے بعد سنہ 1972 کے شملہ معاہدے کو ان کی ایک ’سیاسی غلطی‘ قرار دیتے ہیں۔

شملہ معاہدہ
Getty Images

’ہمیں کبھی بھی یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ وہ کیا حالات تھے جنھوں نے اندرا گاندھی کو سنہ 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان سے ایک نقصان دہ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔ شملہ معاہدہ اور اُس کے بعد ہونے والے معاہدہِ دہلی نے وہ سب کچھ دے دیا جو پاکستان چاہتا تھا: وہ تمام پاکستانی علاقہ جس پر انڈین فوج نے قبضہ کر لیا تھا اور پاکستانی افواج میں سے کسی بھی افسر پر موجودہ بنگلہ دیش میں نسل کُشی کے جرم میں مقدمہ چلائے بغیر ان سب کی باحفاظت پاکستان واپسی۔‘

ڈاکٹر بالاکرشنن لکھتے ہیں کہ ’اگر کبھی بھی انڈیا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کوئی برتری اور اس کے مؤثر ہونے کا نقطہ نظر آیا تو یہ وہ لمحہ تھا جب انڈیا نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان کے پانچ ہزار مربع میل کے علاقے پر قبضہ کیا ہوا تھا اور اس کی فوج کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ جنگی قیدی بنا لیا تھا۔‘

بالا کرشنن لکھتے ہیں کہ ’یہ حیرت انگیز بات ہے کہ انڈیا نے آسانی سے دونوں کو کیوں لوٹا دیا۔‘

ایک سابق انڈین سفارتکار، ساشانکا بینرجی نے اس کی وضاحت یہ کہہ کر پیش کی تھی کہ پاکستانی جنگی قیدیوں کو وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ شیخ مجیب الرحمٰن کو زندہ اور بہتر طور پر اپنے ملک واپس بھیجے جانے کے لیے کیا گیا تھا۔‘

ساشانکا بینرجی کی اس دلیل کو بیان کرنے کے بعد اس کا جواب دیتے ہوئے اُدھے بالاکرشنن لکھتے ہیں کہ ’اُن کی یہ بات ٹھیک نہیں۔ جنگی قیدیوں کی وطن واپسی سنہ 1973 کے دہلی معاہدے پر دستخط کے بعد ہوئی جبکہ اس معاہدے سے کافی پہلے شیخ مجیب الرحمان جنوری سنہ 1972 میں بنگلہ دیش واپس پہنچ چکے تھے۔‘

شملہ معاہدے کے وقت انڈیا میں کیا سوچ تھی؟

تاہم اندرا گاندھی کے فیصلے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی شکست کے بعد ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کرنا چاہتی تھیں جو پہلی عالمی جنگ کے بعد کے ’معاہدہِ واسائے‘ جیسا ہو جس کی ذلت آمیز شرائط نے جرمنی میں بدلہ لینے کے شدید جذبے کو جنم دیا اور نتیجتاً جرمنی میں نازی قیادت ابھری تھی۔

کے این بخشی نے سنہ 2007 میں اپنے ایک انٹرویو میں اس معاہدے کے بارے میں شملہ میں ہونے والے آخری مراحل کی کہانی بیان کی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا کی فوجی کامیابی کے بعد شملہ معاہدے میں سفارتی سطح پر اس کی ’شکست‘ کی وجہ „واسائے سِنڈروم‘ کے ساتھ ساتھ پاکستانی صدر ذوالفقار علی بھٹو کی مذاکرات کی ’اعلیٰ حکمتِ عملی‘ بھی تھی۔

شملہ کی کہانی انڈین مذاکرتی ٹیم کے اہلکار کے این بخشی کیزبانی:

(شملہ معاہدے کی) تمام تیاریوں کے دوران، ہم نے کچھ بنیادی نکات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ پہلا یہ تھا کہ بھٹو قابل اعتماد نہیں تھے۔ ہم ان پر انحصار نہیں کر سکتے۔ زبانی طور پر ہم اس حد تک کہتے تھے کہ ان کی ماں بھی ان پر مکمل اعتماد نہیں کر سکتیں۔

زیڈ اے بی (ذوالفقار علی بھٹو)، جو ایک ہزار سال کی جنگ کی بات کرتے تھے، وہ اب ایک دم سے بہت ہی میٹھا بن چکا تھا، دودھ اور شہد کی نہریں، امن اور خوشحالی کی باتیں کر رہا تھا۔ یہ سب ہمارے کانوں کے لیے موسیقی تھی (اور ہم اُس پر یقین کر رہے تھے)۔

ہمارے سامنے بہت ہی میٹھی باتیں کی جا رہی تھیں جیسے کہ ’ہمارے دونوں ممالک کے عوام صرف امن سے ترقی کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے دونوں ممالک کے مابین تنازعات اور جنگ کی تاریخ کو ختم کرنا ہو گا۔ مجھ پر یقین کرو جب میں کہتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہی واحد راستہ ہے جس سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔'‘

انھوں (بھٹو) نے اپنی ساری گفتگو عوامی اور نجی طور پر اسی طرح کی۔ انھوں نے انڈین صحافیوں سے کہا کہ نئی جنگ بندی لائن، ’لائن آف پیس‘ بننی چاہیے۔ وہ اپنی جمہوری حیثیت پر زور دیتے رہے، فوجی حکمرانی کے طویل دور حکومت کے بعد پہلی بار وہ پاکستان کے پہلے منتخب رہنما تھے۔

(وہ ایسا ظاہر کر رہے تھے جیسا کہ) انھیں جمہوریت کے تحفظ میں مدد کی ضرورت ہے کیونکہ امن جیسے بنیادی امور پر صرف ایک جمہوری حکومت ہی فیصلہ لے سکتی ہے۔ لہذا انھیں ایک معاہدے کی ضرورت تھی جو وہ اپنے لوگوں کو بیچ سکتے تھے، وغیرہ، وغیرہ۔ یہ ان کا کردار ادا کرنے کا ایک پہلو تھا۔

(اس سفارتی ڈرامے کا) دوسرا کردار عزیز احمد نے ادا کیا تھا اور جو (کردار) سراسر منفی، پیچیدہ، مغرور اور اس نوعیت کا تھا کہ جیسا کہ پاکستانیوں نے ہمیشہ انڈیا کے ساتھ برا برتاؤ کیا ہے۔ یہ تقریباً ہالی ووڈ کی فلموں کی طرح کا منظر تھا، جس میں ایک اچھا پولیس اہلکار ہوتا ہے اور دوسرا برا۔

اور دونوں پولیس اہلکار مربوط انداز میں ایک ہی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ عزیز احمد نے برے پولیس اہلکار کا کردار ادا کیا، وہ کم گو تھے لیکن جب وہ بولتے تو وہ مختلف طریقوں سے ایک ہی بات کہتے اور یہ جموں و کشمیر سمیت ہمارے تعلقات کے تمام پہلوؤں پر زیادہ تر روایتی پاکستانی مؤقف تھا۔

(ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سےسفارتکاری کے اس ڈرامے کی ہدایت کاری‘ کے بارے اسلام آباد میں روزنامہ مساوات کے اُس وقت کے نامہ نگار احمد حسن علوی نے، جو شملہ وفد میں شامل تھے، کئی برسوں کے بعد صحافی دوستوں کوبتایا تھا ذوالفقاربھٹو نے بے نظیر بھٹو کو مسکرانے سے لے کر کپڑوں کے انتخاب تک پر بھی ہدایات دے رکھی تھیں۔کے این بخشیکی اس بات کی احمد حسن علوی کی باتوں سے توثیق ہوتی ہے کہ بھٹو ایک ماحول بنانا چاہتے تھے جس کے لیے سب کو ایک مخصوص مکالمے بولنے تھے اور اس ڈرامے کا سٹیج کوئی تھیٹر نہیں تھا بلکہ شملہ کا وہ بنگلہ تھا جہاں مذاکرات ہو رہے تھے۔)

اس (سفارتی ڈرامے کی) پروڈکشن میں اداکاروں کا ایک تیسرا گروپ بھی تھا۔ زیڈ اے بی شملہ مکمل تیاری کے ساتھ آئے تھے۔ وہ ایک 84 رکنی وفد لے کر آئے تھے، جس میں سیاستدان، سرکاری ملازمین، انٹیلی جنس افسران، صحافی، دانشور، فوجی افسران سبھی شامل تھے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے وہ رہنما بھی شامل تھے جن کا انڈیا میں اثر و رسوخ تھا۔

بے نظیر بھٹو
Getty Images

وہ نیشنل عوامی پارٹی کے ولی خان کو بھی انڈیا لے آئے تھے جو کہ انڈیا میں دوست سیاسی رہنما سمجھے جاتے تھے اور جن کے انڈیا میں کئی دوست اور مداح بھی تھے۔ بھٹو اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی ساتھ لے آئے تھے، جو کشمیری تھے اور انڈیا کے کئی افسران ان کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔

ہم میزبان ملک تھے۔ ہمارے آس پاس بھی بہت سارے لوگ تھے لیکن زیڈ اے بی جو کچھ کر رہے تھے اس کی منصوبہ بندی منظم اور مربوط تھی۔ جن لوگوں کو بھٹو اپنے ساتھ لائے تھے وہ اپنے تمام دوستوں اور کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ بات کر رہے تھے جو بھی ان سے گفتگو کرنے پر آمادہ نظر آئے۔

(اس سوال پر کہ کیا معاہدے میں دوطرفہ الفاظ پر اتفاق کیا گیا تھا) انھوں نے تقریباً ہر اس چیز پر اتفاق کیا جو ہم نے عام شرائط میں تجویز کیا تھا لیکن اگر ہم شملہ معاہدے پر نظر ڈالیں تو میرے خیال میں، معاہدے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا: ایک ٹھوس معاہدہ اور دوسرا اس کی ظاہری شکل۔

ہمارے نزدیک وہ (بھٹو) دھوکہ نہیں دے رہے تھے، ہمارا مطلب یہ تھا جب ہم یہ کہتے تھے کہ ہم پائیدار امن چاہتے ہیں یا ہم ایک دوسرے کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ نہیں کریں گے یا ہم تمام مسائل کو امن کے طریقے سے حل کریں گے، یا تعلقات معمول پر لائیں گے، سفر دوبارہ شروع کریں گے، تجارت، معاشی تعاون، سائنس اور ثقافت کے میدان میں تبادلہ اور تعاون کریں گے، تو سب مان لیتے تھے۔

دو طرفہ طریقہِ کار ہی ان فیصلوں کا سنگ بنیاد تھا لیکن ایسی دفعات پر عمل درآمد کا انحصار پوری طرح سے دونوں طرف کے سیاسی عزم پر منحصر ہوتا ہے لیکن اس معاہدے میں بھی ان معاملات میں دو چالاک اضافے کیے گئے تھے۔

پاکستانیوں کے ذریعے (شملہ معاہدہ میں) شامل کیے گئے پہلے پیراگراف نمبر 1.1 میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصول اور مقاصد دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی نوعیت اور مذاکرات کی سمت کا تعین کریں گے۔ پھر پیرا نمبر 1.5 (6) کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق وہ طاقت کے استعمال کے خطرے سے باز رہیں گے۔

سب سے زیادہ چالاکی پیرا نمبر 4.1 میں ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایل او سی (لائن آف کنٹرول) کا 17 دسمبر 1971 کی جنگ بندی کے نتیجے میں دونوں فریقین کی طرف سے کسی بھی فریق کی تسلیم شدہ پوزیشن کو تعصب کے بغیر، احترام کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے

شملہ معاہدہ: جب بے نظیر بھٹو کو نہ چاہتے ہوئے بھی ’پاکیزہ‘ فلم دیکھنا پڑی

مرتضیٰ بھٹّو: ’الذوالفقار‘ سے لے کر 70 کلفٹن کے باہر چلی پہلی گولی تک

جب اندرا گاندھی کو خون کی 80 بوتلیں لگیں

یہ شق یقیناً وزیرِ اعظم اندرا گاندھی اور زیڈ اے بی کے درمیان براہ راست ہونے والی بات جیت کے دوران آخری وقت میں شامل کی گئی تھی۔ (بخشی نے اس سوال کے جواب میں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگرچہ لائن میں ترمیم کی جائے گی لیکن بھٹو کشمیر سے متعلق اپنے دعوؤں سے دستبردار نہیں ہوں گے، بخشی نے کہا کہ یہ بالکل ایسا ہی تھا)۔ پاکستانی مؤقف یہ ہے کہ پورا خطہ متنازعہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے معاملے کو کسی استصواب کے ذریعے حل کرنا ہو گا۔

انھوں نے اس پوزیشن کو برقرار رکھا۔ ایک اور دلچسپ عنصر یہ ہے کہ تجارت، سفر، مواصلات اور یہاں تک کہ سفارتی مشنوں کے دوبارہ کھلنے کی دوسری شقوں میں سے کسی کے لیے بھی کوئی وقت مقرر نہیں لیکن پاکستانی علاقوں سے انڈین فوج کے انخلا کے لیے معاہدے کے نفاذ کے تیس دن کی مدت درج کی گئی تھی۔

اور پھر پیرا نمبر 6 کا آخری جملہ بہت اہم تھا جس میں واضح طور جموں و کشمیر کے آخری تصفیے کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا تھا۔

اندرا گاندھی، بھٹو
Getty Images

معاہدے سے فریقین کو کیا حاصل ہوا

پرنسٹن یونیورسٹی کے وُڈرو ولسن سکول کے بین الاقوامی امور کے پروفیسر گیری جے باس نے ’انٹرنیشنل سکیورٹی‘ نامی جریدے میں لکھا کہ ’انڈیا کے لیے پاکستان کے جنگی جرائم میں مبینہ طور پر ملوث فوجیوں کے خلاف مقدمہ چلانے سے کہیں زیادہ اہم مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا تھا۔ پھر بھی اندرا گاندھی نے بھٹو کی پاکستانی فوج کے بارے میں تشویش کو بنگلہ دیش کو تسلیم کرانے کے لیے چالاکی سے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔‘

ان کے مطابق اندار گاندھی نے اپنی 12 جولائی کی پریس کانفرنس میں میڈیا کو بتایا تھا کہ انھوں نے بھٹو سے کہا تھا کہ ’جہاں تک جنگ کے قیدیوں کا تعلق ہے، اس معاملے میں ایک تیسرا ملک بھی ہے جس کا اس سے بہت گہرا تعلق ہے یعنی بنگلہ دیش، اور وہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ بھی ان مذاکرات میں شامل نہ ہو (یعنی جب تک پاکستان اُسے تسلیم نہ کر لے)۔‘

جب ان سے بھٹو کے بیان کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر انڈیا نے پاکستانی فوجیوں پر مقدمہ چلانے کے لیے انھیں بنگلہ دیش کے حوالے کیا تو شاید مستقبل میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت ہونا ناممکن ہو جائے، اندار گاندھی نے بنگلہ دیش کے بارے کہا تھا کہ ’اس بارے میں ہم بہت کچھ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی فوج نے بنگلہ دیش میں مشترکہ کمانڈ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔۔۔ لہذا بنگلہ دیش کی حکومت نے طے کرنا ہے کہ کیا ہونا چاہیے اور اس کے علاوہ جنگی جرائم کے مقدمات کا انعقاد جنیوا کنونشن کے منافی تو نہیں۔‘

دوسری جانب انڈیا کی خواہش کے برعکس پاکستان کے لیے شملہ کی سربراہی کانفرنس اور طے پانے والا معاہدہ امکانات سے زیادہ فائدہ مند تھا۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کی پانچ ہزار مربع میل زمین جو انڈیا کے قبضے میں تھی اُس کی واپسی اُس سال کے آخر تک ہو گئی۔

معروف محقق فرزانہ شیخ نے اپنے ایک مقالے ’ذوالفقار علی بھٹو: اِن پرسوُٹ آف ایشیئن پاکستان‘ میں لکھا کہ بھٹو نے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے یا پاکستانی فوجیوں پر جنگی جرائم کے مقدمے چلانے پر راضی ہوئے بغیر انڈیا سے امن کا وعدہ حاصل کیا اور اسی معاہدے نے پاکستان کے جنگی قیدیوں کی انڈیا سے رہائی کی راہ ہموار کی۔

بے نظیر بھٹو
Getty Images

بینظیر بھٹو کا اپنے والد سے سوال

’ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ نامی کتاب میں بینظیر نے ایک منظر بیان کیا ہے جہاں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد بھٹو اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور وہ ان سے پوچھتی ہیں کہ انھوں نے جنگی قیدیوں کی بجائے جنگ میں ہارے ہوئے علاقے کی واپسی کو کیوں ترجیح دی؟ بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ وہ حیرت زدہ تھیں کیونکہ جنگی قیدیوں کے اہلخانہ ان کی واپسی کے منتظر تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی بیٹی کو جواب میں کہا کہ انڈین وزیراعظم نے جنگی قیدیوں یا علاقے میں سے کسی ایک کو واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔

بھٹو نے کہا کہ اُنھوں نے مقبوضہ علاقہ مانگا کیوں کہ جنگی قیدی ایک انسانی مسئلہ ہے۔ انھیں ہمیشہ کے لیے نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ عالمی رائے عامہ انڈیا کو انھیں واپس پاکستان بھیجنے پر مجبور کرے گی۔ دوسری طرف علاقہ کوئی انسان دوست مسئلہ نہیں۔ اس کو ضم کیا جا سکتا ہے۔

بھٹو نے فلسطین کی سرزمین کی مثال دی جو ان تمام برسوں کے بعد بھی واپس نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان واپسی پر انھوں نے اپنے ابتدائی بیانات میں اعلان کیا کہ پانچ سال ہو چکے ہیں جب سے عرب اپنی سرزمین واپس لینا چاہتے ہیں۔ ’مجھے یہ اپنی زمین پانچ ماہ سے بھی کم عرصے میں مل گئی‘۔ (اسرائیل نے سنہ 1967 میں غرب اردن پر قبضہ کیا تھا، آج تک یہ علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے)۔

کشمیر کی نئی آئینی حیثیت اور شملہ معاہدہ

سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں بھٹو کی سفارتکاری سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچا اور اندرا گاندھی کو اس معاہدے کی وجہ سے آج بھی تنقید کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں تجزیہ کاروں کے مطابق شملہ معاہدہ دونوں ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے اصول و ضوابط کے مطابق دو طرفہ طریقے سے اپنا تنازعات پرامن طریقوں اور مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔ اس پس منظر میں انڈیا کا 5 اگست سنہ 2019 کا متنازعہ ریاست جموں اور کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی ایک یکطرفہ اقدام ہے جو کہ شملہ معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

شملہ معاہدے میں معاملات اور تنازعات کو دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے (بالیٹرل میکینازم) کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ انڈیا اس شق کی توضیح کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کرتا ہے کہ دو طرفہ مذاکرات کا مطلب ہے کہ اب کسی بھی اور فریق، حتّٰی کہ اقوام متحدہ کا بھی کوئی کردار نہیں بنتا کہ وہ ان دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کو طے کرائے۔

جب کہ اس کے برعکس شملہ معاہدے کی اسی شق کی توضیح کرتے ہوئے پاکستان کہتا ہے کہ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور قواعدہ وضوابط پر کاربند رہنے کا پابند ہے اور اُنہی کے مطابق اِسے اپنے تنازعات طے کرنے ہیں۔ اس لحاظ سے اسلام آباد میں شملہ معاہدے کو آج بھی ایک مستند اور مؤثر معاہدے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور اصرار کیا جاتا ہے کہ شملہ معاہدہ ایک دو طرفہ تنازعے میں اقوام متحدہ کے کردار کو ختم نہیں کر سکتا۔

تاہم بعض تجزیہ کار شملہ معاہدے کو اب ایک ’بیکار دستاویز‘ بھی قرار دیتے ہیں۔

شملہ معاہدے میں یکطرفہ فیصلوں کا کوئی تصور نہیں

ابھی یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیری رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے بعد کشمیر کی آئینی حیثیت کے فیصلے پر نظرثانی کریں گے تاہم اس پیشرفت نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ خطے کے معاملات مذاکرات سے طے کیے جاسکتے ہیں، جنگوں اور زبردستی سے نہیں۔

مرزا صائب بیگ، کشمیری دانشور، محقق اور ماہرِ قانون جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں سینیئر فیلو ہیں کہتے ہیں کہ شملہ معاہدہ اب بھی نہ صرف مفید ہے بلکہ دستخط کرنے والے دونوں ممالک اس پر عملدرآمد کرنے کے پابند بھی ہیں۔

’یہ پاکستان کی نا اہلی ہے کہ وہ شملہ معاہدے کی خلاف ورزی پر انڈیا کو پکڑ میں نہیں لا رہا اور نہ کوئی بین الاقوامی دعویٰ کر رہا ہے۔ شملہ معاہدے میں یکطرفہ فیصلوں کا کوئی تصور نہیں۔ اس سلسلے میں صرف دو امکانات ہیں: (1) یا تو انڈیا کا یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی تھا اور پاکستان شملہ معاہدہ پر عملدرآمد کروانے اور اسے نافذ کروانے میں ناکام رہا یا (2) انڈیا کا یہ فیصلہ یکطرفہ نہیں تھا۔‘

مرزا صائب بیگ اصرار کرتے ہیں کہ پاکستان اپنے حقوق کے تحت معاہدے کی خلاف ورزی کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں پیش کرنا چاہتا تھا تاہم وہ (پاکستان) بہتر جانتا ہو گا کہ کن وجوہات کی بنا پر اُس نے (عالمی عدالت میں) ایسا کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا۔

مشرف خورشید قصوری اور واجپائی
Getty Images

خطے میں حالات شملہ معاہدے کے دور سے کہیں آگے جا چکے ہیں

پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس سوال پر کہ کیا ان کے زمانے میں ہونے والی انڈیا سے بات چیت شملہ معاہدے کے فریم میں ہو رہی تھی، کہا کہ ’اب خطے میں حالات شملہ معاہدے کے دور سے کہیں آگے جا چکے ہیں، پچھلی دہائی تک تو لاہور ڈیکلیریشن اور اسلام آباد ڈیکلیریشن سے بات آگے بڑھ رہی تھی جس کے نتیجے میں دونوں ممالک دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے تنازعے کا اختراحی حل تقریباً تلاش کر چکے تھے اور جس پر بات بہت زیادہ بڑھ چکی تھی۔‘

قصوری کا کہنا تھا کہ سنہ 2006 میں اگست کے مہینے میں اُس وقت کے انڈیا کے وزیرِ اعظم منموہن سنگھ اسلام آباد میں سرکریک کے تنازعے کو طے کرنے کے لیے دستخط کرنے آرہے تھے۔ یہ معاملہ تقریباً طے پا گیا تھا اور معمولی سے جزیات کو حتمی شکل دینا باقی رہ گیا تھا لیکن انڈیا میں ریاستی انتخابات کی وجہ سے انھوں نے تاریخ بدلنے کے لیے کہا۔‘

خورشید قصوری کہتے ہیں کہ پاکستان سے غلطی یہ ہوئی کہ دسمبر کی نئی تاریخ دینے کی بجائے منموہن سنگھ کو مارچ سنہ 2007 کی تاریخ دی گئی لیکن مارچ سنہ 2007 میں چیف جسٹس کا واقعہ پیش آ گیا اور پھر سب کچھ رک گیا۔‘

جب اُن سے یہ پوچھا گیا کہ کیا چیف جسٹس کے تنازعے کا تعلق کیا ان خارجہ پالیسی کے معاملات سے بنتا ہے تو خورشید قصوری نے کہا یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا فیصلہ تاریخ کرے گی، البتہ مارچ میں جب صدر پرویز مشرف نے اُن سے مشورہ کیا کہ کیا انڈین وزیرِاعظم کو آنے کی دعوت دی جائے تو انھوں نے منع کیا کیونکہ اُس وقت حزبِ احتلاف سے تعاون کی کوئی امید نہیں تھی۔

سابق وزیرِ خارجہ نے کہا کہ شملہ معاہدے میں متنازعہ معاملات دو طرفہ اور پر امن طریقوں سے طے کرنے پر زور دیا گیا لیکن انڈیا نے کشمیر کی آئینی حیثیت یکطرفہ اقدامات کے ذریعے بدل دی جو کہ اس دو طرفہ معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ’دونوں میں یہ طے پایا تھا کہ وہ ایل او سی کا احترام کریں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ شملہ معاہدے میں جو طے پایا تھا وہ زمینی حقائق کے بہت قریب تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات طے کرنے کے لیے نہ اس وقت جنگ کوئی درست راستہ تھا اور نہ آج ہے۔

’کشمیر کی آئینی حیثیت بدل دینے کے باوجود وہاں حالات بہتر نہیں ہوئے۔ یہ حقیقت اب ثابت کر رہی ہے کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک مقامی نوعیت کی ہے، پاکستان کی سپانسرڈ نہیں۔‘

ان کے مطابق ’اسی لیے آج دو برس بعد بقول انڈین میڈیا مودی حکومت کو یوٹرن لینا پڑ رہا ہے۔‘

تاہم قصوری یہ کہتے ہیں کہ شملہ معاہدے کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن انڈین حکومت کے ان اقدامات کی وجہ سے یہ معاہدہ کمزور ضرور ہوا۔ مودی صاحب کے اقدامات سے تو یہ معاہدہ ختم ہو چکا لیکن میں اسے رد نہیں کر سکتا ہوں کیونکہ حکومتیں اور پالیسیاں ایک جیسی نہیں رہتی ہیں۔

اندرا گاندھی
Getty Images

پاکستان کی کامیابی

سینیٹر مشاہد حسین کے مطابق ’شملہ معاہدہ تنازعات کو طے کرنے کا طریقہ کار نہیں تھا بلکہ یہ سنہ 1971 کی جنگ کے بعد قیام امن کا فریم ورک تھا اور یہ پاکستان کی کامیابی تھی کہ ہم نے مسٹر بھٹو کی سفارتکاری اور مذاکرات کے اعلیٰ ہنر کی بدولت اسے ایک ’فاتح کا امن‘ معاہدہ نہیں بننے دیا تھا۔‘

’یہ سنہ 1971 کے بعد سیز فائر لائن کے لائن آف کنٹرول بننے کے بعد پاک انڈیا تعلقات کے لیے ایک فریم ورک تھا تاہم تنازعہ کشمیر کو زندہ رکھا گیا، اگرچہ یہ طریقہ کار بنیادی طور پر دو طرفہ تھا لیکن اس معاہدے نے بین الاقوامی ثالثی کو کہیں بھی روکا نہیں تھا کیونکہ جموں اور کشمیر اب بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ایک متنازعہ خطہ ہے۔‘

’دو طرفہ طور پر شملہ معاہدے کا طریقہ کار انڈیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ لہذا اب اس تنازعہ کو ایک بار پھر بین الاقوامی ایشو کے طور پر لیا جا رہا ہے اور پاکستان پچھلے 2 برسوں میں دو بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسے لے کر گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کے عوام نے سٹیٹس کومسترد کر دیا لہذا موجودہ حالات ناقابلِ قبول ہیں۔‘

سینیٹر مشاہد حسین کے مطابق ’مستقبل کے لیے شملہ معاہدے کے طریقہِ کار کو شملہ پلس بننا ہو گا، جس کا مطلب ہے کہ بین الاقوامی برادری اور اس کے علاوہ دو نئے عوامل کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا: 5 اگست، 2019 کو کشمیر کے انڈیا میں ضم ہونے بعد چین بھی اب اس تنازعہ کا ایک فریق ہے، دوسرا یہ کہ نریندر مودی کی ہندوتوا کی پالیسیوں نے خطے کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔‘

اندرا گاندھی
Getty Images

انڈیا میں شملہ معاہدہ منسوخ نہیں ہوا

انڈیا کے معروف دفاعی تجزیہ نگار پراوین سوانہی نے اس سوال پر کہ اگر شملہ معاہدہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ طریقے سے تنازعات طے کرانے میں ناکام رہا ہے تو کیا یہ اب بھی کوئی حیثیت رکھتا ہے، انھوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے کی طرح شملہ معاہدہ صرف ایک میکینزم مہیا کرتا ہے، اس نے کسی نتیجے کی ضمانت نہیں دی اور نہ یہ ایسا کر سکتا ہے۔

’یہ سچ ہے کہ دونوں ممالک وقتاً فوقتاً خارجی ذرائع کی مدد کی جانب دیکھتے ہیں، مثلاً کارگل جیسے واقعے پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے (امریکہ کی) مدد حاصل کی گئی تھی۔یا 2001-2002 میں جب دونوں ممالک جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے۔‘

’لیکن دونوں ممالک نے دو طرفہ طور پر بھی اپنے معاملات میں پیشرفت کی، مثال کے طور پر منموہن سنگھ اور پرویز مشرف کے مذاکرات یا حالیہ ایل او سی جنگ بندی کے معاملے میں ایسا ہی نظر آیا۔ لہٰذا میری نظر میں یہ معاہدہ آج بھی مؤثر اور کار آمد ہے کیونکہ معاہدے کا بنیادی خیال دونوں ممالک کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل کو حل کرنے کو موقع فراہم کرتا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا شملہ معاہدہ آج بھی کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے لیے کار آمد ہو سکتا ہے، سوانہی نے کہا کہ ’بالآخر انڈیا اور پاکستان کو کشمیر کے بارے میں تصفیہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے جس کے بعد ہی دونوں اچھے تعلقات کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔‘

’یاد رہے کہ سنہ 1947 سے لے کر سنہ 1963 تک ثالثی کے لیے متعدد بین الاقوامی کوششیں کی گئیں تھیں جو ناکام رہیں۔ اب بھی یہ نظر نہیں آتا کہ بین الاقوامی طاقتیں کسی بھی فریق کو کس طرح ایسا کوئی بھی سمجھوتہ قبول کرنے پر کیسے مجبور کرسکتی ہیں جو وہ قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ لہذا آپ پسند کریں یا نہ کریں، دونوں ممالک کو پیشرفت کے لیے باہمی طور پر کوئی نہ کوئی قابلِ قبول راستہ تلاش کرنا ہوگا۔‘

اس سوال پر کہ آیا شملہ معاہدے میں بہتری لا کر دونوں ممالک اپنے تنازعات طے سکتے ہیں، پراوین سوانہی نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہاں بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ یہ ایسا کوئی عمل یا معاہدہ ہے جس میں کشمیر میں امن قائم کرنے کی کوئی چابی پوشیدہ ہے۔ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کی جڑیں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم میں موجود ہیں۔‘

’یہ کوئی تکنیکی مسئلہ نہیں جیسے سرحدوں کی نشاندہی یا پانی کی تقسیم۔ یہ تنازعہ اس وقت حل ہو گا جب دونوں ملکوں میں سیاسی قیادت نہ صرف کسی معاہدے پر متفق ہونے کے قابل ہوجائے گی بلکہ اپنے عوام کو اس کے کسی دانشمندانہ حل کے لیے راضی بھی کر لے گی۔ فی الحال یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں۔‘

اندرا گاندھی، بھٹو
Getty Images

دونوں ممالک آج بھی شملہ معاہدے کے پابند ہیں

دلی سے تعلق رکھنے والے دفاعی انتظامی مشاورت کے نجی ادارے ’سکیورٹی رِسک یشیا‘ کے سربراہ ریٹائرڈ بریگیڈیر راہول بھونسل نے کہا کہ ’اگرچہ دونوں حریفوں نے اپنے اپنے زیرِ انتظامکشمیر میں بڑی اور بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں تاہم شملہ معاہدہ اس کی تقدیر کے بارے میں دونوں فریقوں کے درمیان آئندہ ہونے والے کسی بھی مذاکرات کے لیے اہم دستاویز ہے۔

بریگیڈیر بھونسل کہتے ہیں کہ اس وقت کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ دلی اور اسلام آباد کے درمیان دوطرفہ بات چیت کب ہو گی لیکن شملہ معاہدے کا فریم ورک دونوں کو پابند کرتا ہے کہ دونوں ممالک کو کشمیر سمیت اپنے متنازعہ معاملات کو باہمی دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنا ہے۔

شملہ معاہدے کے بارے میں بھٹو اور گاندھی کا نظریہ

بھٹو نے شملہ معاہدے میں اپنی کامیابی کے لیے جو بھی اقدامات کیے، مبصرین اور مصنفین نے اُن کی ’چالاکی یا سفارتی ہنرمندی‘ کہا ہو، ان کے حمایتیوں نے اسے ان کی پاکستانی قوم پرستی کی ایک مثال قرار دیا۔ وہ مشرقی پاکستان میں فوجی شکست کو سفارتی میز پر اپنے ملک کے لیے ایک فتح کے طور پر بدلنا چاہتے تھے۔ اسی لیے بھٹو نے ایک امریکی میگیزین ’فارن افیئرز‘ کے اپریل، سنہ 1973 کے شمارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھا:

’پاکستان بلاشُبہ ایک جارحیت کا شکار ہوا تھا۔ اس کا مشرقی حصہ انڈین فورسز نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ وہ حقیقت تھی جس کی وجہ سے ہمارے لوگوں کو قسمت کے لکھے کے ساتھ سمجھوتہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ جارحیت کا ایک الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ اس کے برعکس یہ دونوں محض خودمختار اور آزاد ریاستوں کے قیام کے بعد سے ہی انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف دشمنی اور جارحانہ کارروائیوں کا ایک طویل سلسلے کا حصہ تھا۔‘

تاہم دوسری جانب جب انڈیا کی لوک سبھا میں اندرا گاندھی پر حزب اختلاف کی جانب سے تنقید کرنے والوں نے یہ شکایت کی کہ وہ پاکستان کے ساتھ نرمی سے کیوں پیش آئیں تو انھوں نے کہا تھا کہ ’اگر یورپی ممالک جرمنی کے ساتھ پہلی جنگِ عظیم کے بعد ویسا سلوک کرتے جیسا کہ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ (شملہ معاہدہ میں) کیا تو ہٹلر نہ پیدا ہوتا اور نہ ہی دوسری عالمی جنگ ہوتی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.