کبھی کسی مرد سے ہاتھ ملانے پر اعتراض تو کبھی چہرے سے متعلق تبصرے، انڈیا اور پاکستان میں اکثر خواتین سیاستدانوں کو اپنے جنس کی بنیاد پر بلاجواز تنقید اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کبھی کسی مرد سے ہاتھ ملانے پر اعتراض تو کبھی چہرے سے متعلق تبصرے، انڈیا اور پاکستان میں اکثر خواتین سیاستدانوں کو اپنے جنس کی بنیاد پر بلاجواز تنقید اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کی حالیہ مثال انڈیا میں بی جے پی رہنما اور سابق رکن پارلیمان رمیش بیدھوری کی ہے جنھوں نے کانگریس سے تعلق رکھنے والی اپنی سیاسی مخالف پرینکا گاندھی کے چہرے کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
جبکہ حالیہ عرصے کے دوران پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز پر اس وقت تنقید ہوئی جب انھوں نے ایک سرکاری دورے کے دوران متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید سے ہاتھ ملایا۔
اس قسم کے بیانات اور تبصروں کو دونوں ہی ملکوں میں بعض حلقوں نے جنسی طور پر متعاصبانہ قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ رمیش بیدھوری اس طرح کے متنازع بیان کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس سے قبل پارلیمان کے اندر ایک مسلم رکن پارلیمان کے لیے انھوں نے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا تھا جس کے بعد انھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ پارٹی نے انھیں ان کی سیٹ سے دوبارہ ٹکٹ نہیں دیا۔
لیکن بیدھوری کو بے جے پی نے آنے والے دنوں میں دہلی اسمبلی الیکشن میں اپنا امیدوار بنایا ہے۔
’پرینکا گاندھی کے بارے میں شرمناک بیان‘
سوشل میڈیا پر کانگریس رہنما پرینکا گاندھی کے متعلق رمیش بیدھوری کا بیان گردش کر رہا ہے جس میں وہ اپنے اسمبلی حلقے میں ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سڑکوں کو ان کے ’گال کی طرح‘ بنا دیں گے۔
بہار کے سابق وزیر اعلی لالو پرساد کو بھی اس سلسلے میں یاد کیا جا رہا ہے جنھوں نے یہی بات ہیما مالنی کے متعلق کہی تھی۔ انڈین خبر رساں ادارے کے مطابق سنہ 2007 لالو پرساد نے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ 'یہ بات سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہی تھی، جسے میرے سر منڈھ دیا گیا۔'
بہر حال اس بابت ہیما مالنی کا بیان بھی گردش کر رہا ہے جس میں وہ کہتی ہیں کہ 'لالو پرساد کے بیان سے یہ ٹرینڈ شروع ہوا اور اب بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔
’ہم عام آدمی کی بات نہیں کر رہے ہیں لیکن پارلیمان میں پہنچنے والوں سے اس قسم کا بیان آتا ہے تو یہ بے مزہ ہے۔ کسی بھی خاتون کے بارے میں ایسی باتیں ناگوار ہیں۔'
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے نہ صرف کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے حامیان چراغ پا ہیں بلکہ عوام بھی اس طرح کی زبان اور بیان سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔
کانگریس کی ترجمان سوپریا شرینیت نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا: 'بی جے پی خواتین مخالف ہے۔ پرینکا گاندھی کے بارے میں رمیش بیدھوری کا بیان نہ صرف شرمناک ہے بلکہ ان کی حقیقی بیمار خواتین مخالف ذہنیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
’نہ صرف رمیش بیدھوری بلکہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو اس پر معافی مانگنی چاہیے۔‘
خواتین سیاستدانوں پر تنقید جس سے اندرا گاندھی، بینظیر بھی نہ بچ سکیں
برصغیر کی سیاست میں خواتین کو کمتر سمجھنے اور ان کے خلاف جنسی نوعیت کے بیانات کی روایت کئی دہائیوں سے عام ہے۔
سیاست میں اپنے حریف کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے اکثر ان کے جنس، مذہب یا پس منظر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
خواتین کے حق کے لیے آواز اٹھانے والی سماجی کارکن کویتا کرشنن کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہر جگہ سماجی برابری اور خواتین کے مساوی حقوق کی بات کی جاتی ہے لیکن سماج میں پھیلی ذہنیت اس سے مختلف نظر آتی ہے۔
آپ اسے شروع سے دیکھ سکتے ہیں جیسے انڈیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم اندرا گاندھی کو 'گونگی گڑیا' پکارا جانا ہو یا پھر ملک میں طاقتور خواتین کو ان کے جسم، ان کی صورت اور ان کے کپڑے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جانا ہو۔
وہ کہتی ہیں کہ نہ صرف انڈیا میں طاقتور خواتین کو کمتر گننا یا پاکستان میں مریم نواز یا پھر بے نظیر بھٹو کو ان کے جنس کی وجہ سے تنقید بنانا عام ہے بلکہ امریکہ جیسے ملک میں جب صدارتی انتخابات ہوتے ہیں تو کملا ہیرس اور ہیلری کلنٹن کے متعلق بھی سیکسسٹ چیزیں نظر آتی ہیں۔ اتنا ہی نہیں، انھوں نے کس رنگ کا کپڑا پہنا ہے، ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے یا نہیں کے علاوہ جب اوباما صدارتی میدان میں تھے تو ان کی اہلیہ مشیل نے کیسے کپڑے پہنے ہیں، اس پر باتیں ہوتی رہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ جنسی بنیاد پر خواتین کو جانچنے کی خوفناک ذہنیت ہے۔ ’یہ نہ صرف مضبوط آزاد خواتین کے ساتھ بلکہ ان لوگوں کے ساتھ بھی گہری بے چینی کو ظاہر کرتا ہے جن کی جسمانی شکل اور شخصیت صنفی دقیانوسی تصورات کے مطابق نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ صرف سیاست تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر شعبے میں ہے جہاں خواتین اچھا کر رہیں۔ ’آپ ثانیہ مرزا سے پوچھیں کہ کیا ان کے خلاف بیانات نہیں آئے ہیں یا ان کو جنسی بنیاد پر نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔‘
’کسی بھی خاتون سیاستدان سے پوچھیں، وہ آپ کو بتائیں گی‘
نومبر سنہ 1997 میں کیمبرج یونیورسٹی کے کینیڈی سکول آف گورمنٹ میں 'کونسل آف ویمن ورلڈ لیڈرز لیکچرز' کے ایک سلسلے کے دوران بے نظیر بھٹو نے سیاسی ماحول پر بات کرتے ہوئے کہا شخصیت اور امیج پر غیر ضروری زور دیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا: ’میں قائدین پر تنقید کرنے کے عوام کے حق کا آخری سانس تک دفاع کروں گی، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ہم کہاں لکیر کھینچیں، پالیسی پر توجہ دیں نہ کہ شخصیت پر۔‘
بھٹو نے کہا کہ 'میں نے اکثر دیکھا کہ لوگ اس بات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں کہ میرا وزن بڑھ گیا ہے یا میں نے سلوٹوں والے کپڑے پہن رکھے ہیں۔'
اسی طرح پنجاب کی وزیر اعلی مریم نواز شریف کے متعلق نومبر 2022 میں ایک انتخابی ریلی کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے ایک بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے سیکسٹ کہا گیا۔ ان پر گذشتہ سال اپریل میں عمران خان کی جماعت کے رہنما علی امین گنڈاپور نے بھی جنسی بنیادوں پر تعصب زدہ بیان دیا۔
دوسری طرف گذشتہ سال انڈیا میں پارلیمانی انتخابات کے دوران خواتین سیاست دانوں کے خلاف سیکسسٹ کمنٹس اتنے عام ہو گئے تھے کہ انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی اور مذہبی انفلوئنسر سدگرو نے ایک ٹویٹ میں اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: 'گذشتہ دو ہفتوں میں سیاسی گفتگو میں خواتین کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی اس میں 'ریٹ کارڈ'، والدین کے بارے میں سوالات اور 75 سالہ خاتون کے بارے میں نفرت انگیز تبصرے شامل ہیں۔
’ہمیں کیا ہو گيا ہے؟ میری میڈیا اور بااثر افراد سے گزارش ہے کہ ایسے لوگوں پر پابندی لگائیں۔ ہمیں خواتین کے بارے میں بیانیہ کو تبدیل کرنا ہوگا۔'
واضح رہے کہ گذشتہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں کانگریس رہنما سونیا گاندھی، مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کے ساتھ ساتھ بی جے پی امیدوار کنگنا رناوت کو بھی جنسی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس سے قبل سمرتی ایرانی اور شبانہ اعظمی وغیرہ کو تحقیر آمیز الفاظ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حالت اس قدر تشویشناک ہے کہ سوشل میڈیا پر تو ہر بے باک خاتون کو خواہ وہ سیاست کے شعبے سے ہوں یا کھیل اور صحافت کے شعبے سے انھیں ریپ تک کی دھمکیاں تک دی جاتی ہیں۔
خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے سماجی کارکن رنجنا کمار نے اس ٹرینڈ تر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ صرف حریفوں کے درمیان ہی نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی تمام خواتین سیاستدانوں کو اپنے مرد ساتھیوں کی طرف سے سیکسسٹ تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’آپ کسی بھی خاتون سیاستدان سے پوچھ سکتے ہیں اور وہ آپ کو بتائیں گی۔'