کیا ڈیڑھ لاکھ سرکاری نوکریاں ختم کرنے سے حکومت پر معاشی بوجھ کم ہوگا؟

وفاقی حکومت نے اخراجات میں کمی لانے کے لیے اپنے اداروں اور ذیلی وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کر دیا ہے۔
Pakistan
Getty Images

وفاقی حکومت نے اخراجات میں کمی لانے کے لیے اپنے اداروں اور ذیلی وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کر دیا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ وفاقی وزارتوں اور اداروں میں ایسی خالی آسامیاں جن پر ابھی بھرتیاں نہیں ہوئی تھیں، ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا گیا، جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اب ان خالی آسامیوں پربھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ’حکومتی اخراجات میں کمی کے اقدامات کو 30 جون تک مکمل کر لیا جائے گا۔‘

وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کیسے کی جا رہی ہے؟

حکومت نے ’رائٹ سائزنگ‘ کے نام سے ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت مختلف اداروں کی نجکاری، غیر ضروریمحکموں کی بندش ہو سکتی ہے اور اس عمل کا بنیادی ہدف اربوں روپے کی بچت ہے۔

منگل کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اس کمیٹی میں حکومت، اتحادی جماعتوں، سرکاری افسران اور بزنس کمیونٹی کے نمائندے شامل ہیں، کمیٹی کے ٹی او آرز طے کرلیے گئے تھے، جن کے مطابق بنیادی مقصد حکومتی اخراجات میں کمی لانا تھا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق کہ کمیٹی نے 43 وزارتوں اور ان کے ذیلی اداروں کو دیکھنا تھا۔ اس مد میں وفاقی حکومت کا خرچہ 900 ارب روپے تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس اگست کے آخری ہفتے میں وزیر اعظم شہباز شریف کے زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں یہ کہا گیا تھا کہ ’وفاقی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے، افرادی قوت کے صحیح استعمال، پالیسی سازی اور فیصلوں کے نفاذ میں غیر ضروری تعطل کو ختم کرنے اور صرف انتہائی ضروری محکموں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں چھ وزارتوں پر وزیر خزانہ کی سربراہی میں قائم ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے قائم کی گئی رائٹ سائزنگ آف دی فیڈرل گورمنٹ کمیٹی کی سفارشات کا نفاذ شروع کر دیا گیا ہے۔‘

اس سے قبل رواں برس جون میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے نجکاری عبدلعلیم خان کا کہنا تھا کہ حکومت 24 ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری کا ارادہ رکھتی ہے جن میں قومی ایئر لائن پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، فرسٹ وومن بینک، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور دیگر شامل ہیں۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق حکومت نے ابتدا میں جن چھ وزارتوں کو لیا تھا ان میں کشمیر افیئر، جی بی سیفران، آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام، انڈسٹریز اینڈ ری پروڈکشن، نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن، وزارت کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن یعنی کیڈ شامل ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ’وفاقی وزارتوں کے 80 اداروں کی تعداد نصف کرکے 40 کردی گئی، ان میں سے کچھ اداروں کو ضم کیا گیا ہے، دو وزارتوں کو ضم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔‘

پاکستان، سرکاری محکمے
Getty Images

وفاقی حکومت کے مطابق کشمیر افیئر، جی بی اینڈ سیفران کو ضم کیا جا رہا ہے اور کیڈ کو ختم کیا جا رہا ہے۔

صحافیوں کو بتایا گیا کہ آج شام ہی پہلے مرحلے میں کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے متعلقہ وزارتوں اور ذیلی اداروں کے حکام کو بلوایا گیا ہے تاکہ پوچھا جائے کہ اس ضمن میں صورتحال کہاں تک پہنچی ہے۔

وزیر خزانہ کے مطابق دوسرے مرحلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس ڈویژن، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور نیشنل فوڈ سکیورٹی ریسرچ کے 60 ذیلی اداروں میں سے 25 اداروں کو ختم کیا جائے گا 20 میں کمی اور 9 کو ضم کیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہم نے دوسرے مرحلے میں چار وزارتوں کو لیا اور اس کے بعد اب ہم نے پھر سے 5 پانچ وزارتوں کو لیا ہے۔

ان میں فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفینشنل ٹریننگ، انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ، پاور ڈویژن، فنانس ڈویژن اور نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے حجم کو کم کرنے کے لیے گذشتہ کئی برسوں میں کام ہوا لیکن 'اس میں سقم یہ تھا کہ اگر آپ ہر ممکنہ چیز کو ایک ہی بار میں کرنا چاہیں تو وہ ہو نہیں سکتا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ اس عمل کو بتدریج مرحلہ وار کریں۔ '

ایک ہی بار 43 وزارتوں کو بلا دینے سے کام نہیں ہوتا اس لیے ہم نے پہلے پانچ وزارتوں اور ان کے ذیلی اداروں کو لیا اور ان کے متعلقہ حکام کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ ٹی او آرز کو دیکھتے ہوئے بتائیں کہ ان کی وزارتوں اور اداروں کے کام کو کیسے آگے بڑھایا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تفصیلی ملاقاتوں کے بعد رائٹ سائزنگ کے لیے حکمت عملی بنتی ہے، سارے عمل کی نگرانی وزیراعظم خود کر رہے ہیں۔

'جن لوگوں کے بارے میں ہم فیصلہ کرنے جا رہے ہیں ان سے بات تو کرنی چاہیے۔ کونسی چیزیں صوبوں کو جا رہی ہیں کونسی چیزوں کو بند کر دیا جائے

اب تک کیا ہوا؟

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ان فیصلوں کے بارے میں آگاہ کیا جو لیے گئے۔ وہ درج ذیل ہیں۔

1) چھ ماہ کے اندر خالی آسامیاں جن پر ابھی بھرتی نہیں ہوئی ان میں سے 60 فیصد کو ختم کر دیا جائے، یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ بنتی ہے۔ یہ وہ پوسٹیں ہیں جو بجٹ میں موجود تھیں لیکن اب انھیں ختم کر دیا گیا تھا۔

2) جنرل نان کور سروسز یعنی صفائی کا کام، پلمبر کا کام اور مالی کا کام اس کو ہم ممحکموں کے حواالے کر دیں انھیں آؤٹ سورس کر دیں۔ تاکہ ان کی استعداد اچھی کی جا سکے۔

3) یہ تعین کیا گیا کہ عارضی ملازمتوں کو کس حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

4) فنانس منسٹری کو تمام حکومتی اداروں کے کیش بیلنس کو دیکھنے کی اجازت ہو گی۔

رائٹ سائزنگ کی ٹائم لائن کیا ہے؟

وزیرخزانہ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران یعنی چھ ماہ کے اندر رائٹ سائزنگ کا کام مکمل کیا جائے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ جون 2025 تک، رواں مالی سال ختم ہونے سے قبل تمام وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان وزارتوں اور اداروں کے اخراجات کس طرح مزید کم کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کا مقصد ہی یہی تھا کہ صوبوں کو جو محکمے یا ادارے منتقل کیے جائیں، ان کے تمام اختیارات اور وسائل بھی دیے جائیں۔

dollar
Getty Images

اس منصوبے سے کتنی بچت ممکن ہو سکے گی؟

وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ کابینہ کی اس کمیٹی کا حصہ ہیں جو اس وقت وفاقی سطح پر تمام وزارتوں، اداروں اور محکموں کا جائزہ لے رہی ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہو۔ گذشتہ برس اگست میں بی بی سی نے ان سے حکومت کے اس پلان سے متعلق تفصیل سے بات کی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’پاکستان کے ایسے ادارے جو سٹریٹجک یعنی ناگزیر نہیں، ان کی ہم نجکاری کریں گے یا پھر پبلک پرائیویٹ پارٹنرسپ میں دیں گے۔‘

’زیادہ تر اداروں میں بہت خسارہ ہے اور عوام بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔‘

ان کے مطابق ’تمام ان اداروں کو جو اہم نہیں، ان سے حکومت جان چھڑا لے گی۔ بہت کم ہی ادارے ایسے ہیں جو سٹریٹجک نوعیت یعنی ملک کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں۔‘

قیصر احمد شیخ کے مطابق ’ہم چاہتے ہیں حکومت ’گڈ گورننس‘ پر توجہ مرکوز کرے اور پرفارمنس دے۔ ہم ابھی غور کر رہے ہیں کہ کن وزارتوں اور محکموں کو ختم کرنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم وزارتوں کو کم کریں گے تاکہ اخراجات میں کمی ہو۔‘

قیصر احمد شیخ کے مطابق ’کابینہ غور کر رہی ہے کہ نئی سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کر دی جائے، نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی ہو گی اور سب اکانومی کلاس میں سفر کریں گے۔‘

وزارت خزانہ کے سابق ترجمان ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق یہ بچت ترقیاتی بجٹ کی صورت میں ہو گی یعنی ان وزارتوں اور محکموں کو ختم کر دیا گیا تو پھر ان کے لیے ترقیاتی بجٹ نہیں مختص کرنا پڑے گا۔

وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ کے مطابق اس وقت ’حکومت کے کل تقریباً 35 ہزار ارب روپے ان وزارتوں اور اداروں میں انوسٹمنٹ کی صورت میں موجود ہیں اور اس سرمایہ کاری کے بدلے میں حکومت کو ہر سال اوسطاً تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔‘

قیصر احمد شیخ کے مطابق ’پاکستان کے کل قرضوں کا حجم کوئی 80 ہزار ارب روپے کے قریب بنتا ہے تو پھر ایسے میں پاکستان کیوں اپنا 35 ہزار ارب ایسی جگہ بہا دے جہاں سے سرمایہ کاری کرنے سے منافع کے بجائے خسارے کا حساب لگانا پڑے۔‘

وفاقی وزیر کے مطابق بات یہیں نہیں رکتی اس کے بعد پھر آئی ایم ایف اور دیگر اداروں اور ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان ایک طرف آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور پارٹنرز ممالک سے قرضوں میں نرمی اور مزید قرضوں کی درخواست کر رہا ہے تو ایسے میں کہیں زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آگے ملک کو معاشی استحکام کے رستے پر ڈالا جا سکے۔

واضح رہے کہ پاکستان چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اپنے قرضوں میں مزید مہلت کی درخواست کر رہا ہے تاکہ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر کے سات ارب ڈالر حاصل کر سکے۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہماری اتحادی جماعت ہے اور ہم ان کے ساتھ مشاورت سے اس عمل کو آگے بڑھائیں گے۔

قیصر احمد شیخ نے کہا کہ سیاسی اتفاق رائے کے بعد وفاقی کابینہ کی منظوری سے ہی یہ سب ممکن ہو سکے گا۔ ان کے مطابق ’سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے متعدد بار اصلاحات کا یہ ایجنڈا آگے نہیں بڑھ سکا۔‘

ppp
Getty Images

پیپلز پارٹی کو اصلاحات پر کیا اعتراضات ہیں؟

حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی اصلاحاتی کمیٹی کے رکن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما چوہدری منظور نے گذشتہ برس اگست میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی نے حکومت سے یہ کہا ہے کہ مزید وزارتوں اور محکموں میں چھیڑ چھاڑ سے قبل ان 17 وزارتوں کی قسمت کا فیصلہ کیا جائے جنھیں 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کیا جانا تھا۔

ان کے مطابق حکومت نے اب جو پلان دیا ہے اس کے تحت تو تمام وزارتوں اور ان کے متعدد محکموں کو مرحلہ وار ختم کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ صوبوں کو خود مختاری دینے کے لیے وفاق نے جن محکموں کو صوبوں کے حوالے کیا ان میں تعلیم، صحت، زراعت، آبپاشی، ماحولیات، ثقافت، توانائی، سیاحت، آبپاشی، کھیل، لوکل گورنمنٹ، انسانی حقوق، خوراک، ایکسائیز، ریونیو، ٹرانسپورٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات اور غیر قانونی تارکین وطن کی وزارتیں اور محکمے شامل ہیں۔

چوہدری منظور احمد نے ’ہائی پاور کمیٹی فار رائٹ سائزنگ‘ سے متعلق کہا کہ اس میں ’پیپلز پارٹی سے ایک رکن اور نجی شعبے سے ایک رکن ہیں جبکہ باقی سب ن لیگ کے نمائندے ہیں۔‘

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ جو کرنا چاہتے ہیں کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں اور اس حوالے سے انھوں نے تفصیلی رپورٹ مرتب کر کے اپنی جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھیج دی ہے۔‘

چوہدری منظور کے مطابق وزیر خزانہ سول سروس ایکٹ میں تبدیلی بھی چاہتے ہیں اور متعدد ملازمین کو گھر بھیجنے کے خواہاں ہیں۔

parliament
Getty Images

’یہ باتیں کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں‘

حکومت کے اس منصوبے پر بی بی سی نے جن سیاسی، آئینی اور قانونی ماہرین سے بات کی ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ اصلاحات 14 برس قبل اس وقت ہو جانی چاہیے تھیں جب ملک کی پارلیمنٹ نے آئین میں 18ویں ترمیم کی منظوری دی تھی۔

تاہم ان کے مطابق ابھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور خزانے میں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے یہ اقدام اٹھایا مگر ضروری ہے کہ پھر اسے ماضی کی طرح سیاسی سمجھوتے کی نظر نہ کر دیا جائے۔

منصوبہ بندی کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ باتیں کرنے کے بعد بھول جاتے ہیں۔‘ ان کی رائے میں ابھی بھی ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت یہ اصلاحات نہیں کر سکے گی۔

ندیم الحق کے مطابق پارلیمنٹ تک پہنچنے والے سب وزارتیں چاہتے ہیں اور پھر سیاسی بنیادوں پر نوکریاں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔

ان کے مطابق جب تک غیر ضروری طور پر بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو گھر نہیں بھیجا جاتا تو ان اصلاحات کا زیادہ فائدہ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔

ان کی رائے میں جہاں ایک طرف وزارتیں ختم کرنا انتہائی ضروری ہے وہیں اس وقت نوکریاں دی جا رہی ہیں۔

ندیم الحق کے مطابق ان کے ادارے کی ایک تحقیق کے مطابق ’حکومت کے ایک چپڑاسی پر ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں اور اس کے اوپر والے ملازمین کا خرچہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق اس وقت ’اسلام آباد میں 150 ٹریننگ اکیڈمیاں ہیں، جن کی اپنی عمارتیں اور ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں۔‘

ان کی رائے میں ’جو کام آسانی سے یونیورسٹیوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے اس کے لیے اس قدر اخراجات بڑھا دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسے اداروں کا قیام نوکریاں بانٹنے کا بہانہ ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق ’حکومت بہت زیادہ رقم الاؤنسز کی شکل میں دیتی ہے۔ بجلی، گھر اور پیٹرول دیا جاتا ہے مگر ملک کی معیشیت اس سب کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘

سول سروس سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بیوروکریٹس کو بہت زیادہ عملہ دیا جاتا ہے جس کی دنیا میں شاید کہیں مثال نہیں ملتی۔‘

’حکومت کی جیب خالی ہوئی تو اصلاحات یاد آئیں‘

تجزیہ کار ظفراللہ خان اٹھارویں آئینی ترمیم کے عمل میں خاصے متحرک رہے۔ انھوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں جو باتیں تھیں ان پر اگر 14 برس قبل عمل کر دیا جاتا تو یہ وقت ضائع نہ ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ یہ طے ہوا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اب صرف اسلام آباد میں واقع یونیورسٹیوں کے معاملات دیکھے گی جبکہ صوبوں میں اپنے کمیشن ہوں گے ’مگر پھر ایسا ہوا نہیں اور اس عرصے کتنی ہی نئی بھرتیاں ہوئیں اور وسائل ضائع ہوئے۔‘

ان کے مطابق ’جہاں کچھ وزارتوں کو صوبوں کو منتقل کیا گیا تو وہیں مختلف ناموں سے بالکل اسی طرح کی وزارتیں اور قائم کر دی گئیں جیسے لیبر کی وزارت ختم ہوئی تو پھر ہیومن ریسورس سامنے آ گئی اور انوائرنمنٹ کی وزارت ختم کی گئی تو پھر کلائمنٹ چینج کی وزارت بنا دی گئی۔ صحت کی وزارت ختم کی گئی تو پھر نیشنل ہیلتھ کے نام سے وہی کام شروع کر دیا گیا۔‘

ان کے مطابق جہاں درجہ چہارم کی ملازمتوں پر سیاست چلتی رہی تو وہیں دوہرا ظلم یہ کیا گیا کہ صوبوں کو نیا نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ نہیں دیا جا رہا۔ ان کے مطابق ’ابھی جب حکومت کی جیب خالی ہوئی تو پھر اصلاحات کا خیال آیا۔‘

utility stores
Getty Images

ظفرااللہ خان کے مطابق اس وقت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت یہ سب کسی وژن کی بنیاد پر نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے کر رہی ہے۔

ظفراللہ خان کے مطابق ’وفاقی حکومت کا زیادہ خرچہ پینشن کی مد میں کرنا ہوتا ہے۔ اس شعبے میں اصلاحات بہت ضروری ہیں کیونکہ تیسری نسل تک سرکاری خزانے سے پینشن لے رہی ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق حکومت نے جب ایف بی آر میں اصلاحات کی کوشش کی تو وہاں سے بڑا سخت ردعمل سامنے آیا۔ ان کی رائے میں ’ہماری پوری معیشیت غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے مہلت پر چل رہی ہے اور حکومت صرف وقت گزار رہی ہے۔‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے احمد بلال محبوب اس بات سے متفق ہیں کہ اصلاحات کا فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا کیونکہ ’ایک ہی طرح کے ادارے اور وزارتوں کا مطلب قومی خزانے پر بوجھ ہیں۔‘

ان کے مطابق وزیر خزانہ جس طرح ان اصلاحات کو آگے لے کر جا رہے ہیں تو انھیں وہ دباؤ معلوم ہے جو اب پاکستان پر ہے۔ آئی ایم ایف کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ اصلاحات کان پکڑ کر کروائی جا رہی ہیں۔‘

اصلاحات سے متعلق سیاسی اختلافات پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نجکاری کی بھی مخالف ہے مگر اب یہ چیزیں ’آؤٹ آف فیشن‘ یعنی غیرمتعلقہ ہو چکی ہیں۔

ان کے مطابق اس وقت پاکستان کی معیشیت جہاں پر پہنچ چکی ہے اب سیاسی جماعتوں کو اپنے نکتہ نظر کو بدلنا ہوگا۔ ان کے مطابق حکومتی وزارتوں اور محکموں میں ضرورت سے زیادہ بھرتی کیے جانے والے عملے کی بھی خبر لینا ہوگی۔

کیا حکومت کے اس منصوبے کے نتیجے میں کوئی سرکاری ملازم نوکری سے جائے گا؟

اس وقت وفاقی سطح پر 33 وزارتیں ہیں اور ہر وزارت میں مختلف ڈویژن اور محکمے کام کر رہے ہیں، جن میں لاکھوں ملازمین بھی ہیں۔

وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ کے مطابق ان ملازمین کو ’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ انھیں یا تو گولڈن ہینڈ شیک کی آفر دی جائے گی یا پھر انھیں کہیں اور ایڈجسٹ کر لیا جائے گا۔‘

ان کے مطابق صرف اس وقت جو ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیاں ہیں ان کو ختم کیا جا رہا ہے اور نئی نوکریوں کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر نجیب نے کہا کہ اس وقت حکومت کا ملازمین کو گھر بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ جو وزارتیں اور محکمے ختم بھی ہوئے تو ان کے ملازمین کو سرپلس پول میں ڈال دیا جائے گا۔

’یہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی مرضی ہوتی ہے کہ انھیں کہیں کسی اور جگہ تعینات کر دے یا پھر ریٹائرمنٹ تک انھیں صرف تنخواہیں دیتی رہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر سرکاری ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک نہیں دیا جاتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.