ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہے، ہمیں کام کے دوران لنچ بریک دیا جاتا ہے، اور پھر ہماری سماجی اور خاندانی زندگی شام کے کھانے کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن کیا یہ کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ ہے؟
ہم محاورے میں ’دو وقت کی روٹی‘ سنتے آئے ہیں۔ اس ضمن میں دیکھیں تو دن میں تین وقت کھانا بہت نیا خیال ہے۔ بہر حال یہ سوال اپنے آپ میں اہمیت رکھتا ہے کہ دن میں کتنی بار کھانا ہماری صحت کے لیے بہترین ہیں؟
اس بات کا امکان ہے کہ آپ دن میں تین وقت کا کھانا کھاتے ہیں اور غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جدید زندگی کھانے کے اسی طریقے کے اردگرد گھومتی ہے۔
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ناشتہ دن کا سب سے اہم کھانا ہے، ہمیں کام کے دوران لنچ بریک دیا جاتا ہے، اور پھر ہماری سماجی اور خاندانی زندگی شام کے کھانے کے گرد گھومتی ہے لیکن کیا یہ کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ ہے؟
اس بات پر غور کرنے سے پہلے کہ ہمیں کتنی بار کھانا چاہیے آئیے ہم یہ جانتے ہیں کہ سائنسدان اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں کب نہیں کھانا چاہیے۔
اگرچہ آپ آٹھ گھنٹے کے وقفے سے کھانے کے عادی ہیں لیکن وقفے وقفے سے روزہ رکھنا یا بھوکے رہنا پر تحقیق کی جا رہی ہے۔
کیلیفورنیا میں سالک انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل سٹڈیز کی کلینیکل ریسرچر اور ’کب کھائیں‘ کے عنوان سے سنہ 2019 میں ایک مقالے کی مصنفہ ایملی مانوگین کہتی ہیں کہ اپنے جسم کو دن میں کم از کم 12 گھنٹے کھانے کے بغیر رہنے دینے سے ہمارے نظام انہضام کو آرام ملتا ہے۔
یونیورسٹی آف وسکانسن کے سکول آف میڈیسن اینڈ پبلک ہیلتھ کی ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر روزلین اینڈرسن نے کیلوری کی پابندی کے فوائد کا مطالعہ کیا ہے۔
اس کے تحت انھوں نے جسم میں سوزش کے حوالے سے تحقیق کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’روزانہ کچھ گھنٹے بھوکا رہنے سے ان میں سے کچھ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں کیونکہ بھوک جسم کو ایک مختلف حالت میں ڈال دیتا ہے، جہاں یہ نقصان کی تلافی اور نگرانی کے لیے زیادہ تیار ہوتا ہے اور مس فولڈڈ پروٹین کو صاف کرتا ہے۔‘
مس فولڈڈ پروٹین عام پروٹینز کا ناقص ورژن ہیں جو کہ مالیکیولز ہیں اور یہ جسم میں بہت زیادہ اہم کام انجام دیتے ہیں۔ مس فولڈڈ پروٹین کا تعلق کئی بیماریوں سے ہے۔
اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وقفے وقفے سے روزہ رکھنا ہمارے جسموں کے ارتقا کے مطابق ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے جسم کو ایک وقفہ ملتا ہے اس لیے وہ خوراک کو ذخیرہ کرنے اور توانائی حاصل کرنے کے قابل ہوتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہمارے جسم کے ذخیروں سے توانائی خارج کرنے کے طریقہ کار کو متحرک کرتا ہے۔
اٹلی کی پاڈووا یونیورسٹی میں ورزش اور کھیل کے سائنس کے پروفیسر انتونیو پاؤلی کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ہمارے گلیسیمک ردعمل کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں کھانے کے بعد ہمارے خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہونے سے آپ کو جسم میں چربی کم ذخیرہ کرنے کی اجازت ملتی ہے۔
پاؤلی کا کہنا ہے کہ ’اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ رات کا کھانا جلدی کھانے اور بھوکے رہنے کا وقت بڑھانے سے جسم پر بہتر گلیسیمک کنٹرول جیسے کچھ مثبت اثرات ہوتے ہیں۔‘
پاؤلی نے مزید کہا کہ گلائی کیشن نامی ایک عمل کی وجہ سے تمام خلیوں کے لیے بہتر ہے کہ ان میں شکر کی سطح کم ہو۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں گلوکوز پروٹینز سے جڑتا ہے اور مرکب بناتا ہے جسے ’ایڈوانسڈ گلائسیشن اینڈ پروڈکٹس‘ کہا جاتا ہے، جو جسم میں سوزش کا باعث بنتا ہے اور اس کی وجہ سے ذیابیطس اور دل کی بیماری کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
لیکن اگر وقفے وقفے سے روزہ رکھنا یا بھوکا رہنا ایک صحت بخش طریقہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کتنی بار کھانے کی گنجائش نکلتی ہے؟
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ دن میں ایک کھانا کھانا بہتر ہے۔ ایسا خیال رکھنے والوں میں نیویارک میں کارنیل یونیورسٹی کے کالج آف ہیومن ایکولوجی کے پروفیسر ڈیوڈ لیوِٹسکی شامل ہیں اور وہ خود اس پر عمل پیرا ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’اس بارے میں بہت سے اعداد و شمار موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اگر آپ کے سامنے کھانا ہو یا کھانے کی تصویریں ہوں، تو آپ کے کھانے کا امکان زیادہ ہے اور جتنا زیادہ کھانا آپ کے سامنے ہو گا آپ اس دن اتنا ہی زیادہ کھائیں گے۔‘
وہ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ہمارے پاس فرج اور سپر مارکیٹس نہیں تھیں تو ہمیں جب کھانا دستیاب ہوتا تو ہم کھاتے تھے۔
خوراک کی تاریخ دان سیرن چارنگٹن-ہولنز کا کہنا ہے کہ تاریخ سے یہ پتا چلتا ہے کہ ہم دن بھر میں صرف ایک بار کھانا کھاتے تھے، یہاں تک کہ قدیم رومی بھی ایسا ہی کرتے تھے اور وہ دوپہر کے وقت ایک کھانا کھاتے تھے۔
کیا دن میں محض ایک بار کھانے سے ہمیں بھوک نہیں لگے گی؟ ڈیوڈ لیوٹسکی اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بالکل نہیں‘ کیونکہ بھوک اکثر ایک نفسیاتی احساس ہوتا ہے۔
'جب گھڑی رات کے 12 بجاتی ہے تو ہمیں کھانے کا احساس ہو سکتا ہے، یا آپ کو صبح کا ناشتہ کرنا چاہیے جیسی شرط ٹھیک نہیں۔ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ ناشتہ نہیں کرتے ہیں، تو اس دن آپ مجموعی طور پر کم کیلوریز کھاتے ہیں۔'
وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری فزیالوجی دعوت اڑانے اور بھوکے رہنے کے لیے بنائی گئی ہے۔‘ تاہم وہ ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لیے اس طریقہ کار کی پیروی کرنے کی سفارش نہیں کرتے ہیں۔
لیکن مانوگين دن میں ایک کھانے پر قائم رہنے کی سفارش نہیں کرتیں کیونکہ ہمارے نہ کھانے کی صورت میں یہ خون میں گلوکوز کی سطح کو بڑھا سکتا ہے۔ اسے ہم فاسٹنگ گلوکوز کہتے ہیں۔ طویل عرصے تک فاسٹنگ گلوکوز کی سطح زیادہ ہونے سے ٹائپ 2 ذیابیطس ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔
مانوگین کا کہنا ہے کہ خون میں گلوکوز کی سطح کو کم رکھنے کے لیے دن میں ایک بار سے زیادہ باقاعدگی سے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یہ جسم کو یہ سوچنے سے روکتا ہے کہ وہ بھوک سے مر رہا ہے اور جب آپ اس کے جواب میں کھاتے ہیں تو زیادہ گلوکوز خارج ہوتا ہے۔
اس کے بجائے وہ کہتی ہیں کہ ایک دن میں دو سے تین کھانے بہترین ہیں اور آپ زیادہ تر کیلوریز دن کے اوائل میں کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رات کو دیر سے کھانا ذیابیطس اور دل کی بیماری سمیت ديگر کارڈیو میٹابولک بیماری سے منسلک ہوتا ہے۔
مانوگین کا کہنا ہے کہ 'اگر آپ اپنا زیادہ تر کھانا پہلے کھاتے ہیں، تو آپ کا جسم اس توانائی کو استعمال کر سکتا ہے جو آپ پورے دن میں کھاتے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے آپ کے سسٹم میں چربی کے طور پر ذخیرہ کیا جائے۔'
لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ صبح جلدی کھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے آپ کو روزہ رکھنے کے لیے کافی وقت نہیں ملے گا۔ اس کے علاوہ، جاگنے کے بعد بہت جلد کھانا ہماری سرکیڈین ردم کے خلاف کام کرتا ہے، جسے ہماری باڈی کلاک کہا جاتا ہے۔ اسے محققین نے جسم کے ذریعے دن بھر کھانے کو مختلف طریقے سے پروسس کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
ہمارا جسم راتوں کو میلاٹونن چھوڑتا ہے تاکہ ہمیں سونے میں مدد ملے۔ لیکن میلاٹونن انسولین کی تخلیق کو بھی روکتا ہے، جو جسم میں گلوکوز کو ذخیرہ کرتا ہے۔ مانوگین کا کہنا ہے کہ چونکہ میلاٹونن آپ کے سوتے وقت خارج ہوتا ہے، اس لیے جسم اسے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جب ہم سو رہے ہوں اور کھاتے نہ ہوں تو زیادہ گلوکوز نہ لیں۔
'اگر آپ کا میلاٹونن زیادہ ہونے پر آپ کیلوریز لیتے ہیں تو آپ کو واقعی بہت زیادہ گلوکوز لیول ملتا ہے۔ رات کے وقت بہت زیادہ کیلوریز کا استعمال جسم کے لیے ایک اہم چیلنج بنتا ہے کیونکہ اگر انسولین کو دبا دیا جائے تو آپ کا جسم گلوکوز کو صحیح طریقے سے ذخیرہ نہیں کر سکتا۔'
اور ہم یہ جانتے ہیں کہ طویل عرصے تک گلوکوز کی زیادہ مقدار ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیں ناشتہ بالکل چھوڑ دینا چاہیے، لیکن کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ انڈے کو توڑنے سے پہلے ہمیں جاگنے کے بعد ایک یا دو گھنٹے انتظار کرنا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ناشتہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں آج نسبتاً نیا تصور ہے۔
چارنگٹن-ہولنز کہتی ہیں کہ 'قدیم یونانیوں نے سب سے پہلے ناشتے کا تصور متعارف کرایا، وہ شراب میں بھیگی ہوئی روٹی کھاتے، پھر انھوں نے دوپہر کا کھانا، پھر شام کا کھانا کھایا کرتے تھے۔'
چارنگٹن-ہولنز کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ناشتہ اشرافیہ کے طبقے کے لیے مخصوص تھا۔ یہ سب سے پہلے 17 ویں صدی میں دیکھا گيا۔ یہ ان لوگوں میں عیش و عشرت کی چیز بن گیا جو کھانا اور صبح کے وقت آرام سے کھانے کا وقت برداشت کر سکتے تھے۔
چارنگٹن-ہولنز کہتی ہیں: 'جدید ناشتے کا تصور 19ویں صدی میں صنعتی انقلاب اور اس کے کام کے اوقات کے تعارف کے ساتھ آیا۔ اور اس نے کھانے میں تین وقت کا معمول بنایا ۔ 'پہلا کھانا محنت کش طبقے کے لیے کافی سادہ ہوتا۔ وہ کسی خوانچہ فروش سے لیا گیا سٹریٹ فوڈ یا محض بریڈ ہو سکتا ہے۔'
لیکن جنگ کے بعد جب کھانے کی دستیابی کم ہو گئی تو پورا ناشتہ کرنے کا خیال ممکن نہ رہا اور بہت سے لوگوں نے اسے چھوڑ دیا۔ چارنگٹن-ہولنز کا کہنا ہے کہ 'دن میں تین بار کھانے کا خیال وقت کی قید سے باہر چلا گیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ 'سنہ 1950 کی دہائی میں ناشتہ ناشتہ اس شکل میں وجود میں آیا جس طرح ہم اسے آج پہچانتے ہیں، یعنی اس میں اناج اور ٹوسٹ شامل ہے جبکہ اس سے پہلے ہم جام کے ساتھ بریڈ کا ایک ٹکڑا کھا کر خوش ہوتے تھے۔'
لہذا، سائنس یہ کہتی ہے کہ دن بھر کھانے کا سب سے صحت بخش طریقہ یہ ہے کہ آپ رات کا طویل وقفہ بھوکے یا روزہ سے گزارنے کے بعد دن میں دو یا تین بار کھائیں۔ دن میں بہت جلدی یا بہت دیر سے نہ کھائیں اور زیادہ کیلوریز کا استعمال پہلے ہی کرلیں۔ کیا یہ طریقہ کار حقیقت پسندانہ ہے؟
مانوگین کا کہنا ہے کہ کھانے کے بہترین اوقات کی وضاحت نہ کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ یہ ذمہ داریوں اور وقت کی بے قاعدگی کے ساتھ کام کرنے والے لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے، جیسے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے۔
انھوں نے کہا: 'لوگوں کو شام 7 بجے تک کھانا بند کرنے کا کہنا مددگار نہیں ہے کیونکہ لوگوں کے مختلف شیڈول ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے جسم کو باقاعدگی سے رات میں روزہ کی حالت میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کوشش کریں کہ رات میں زیادہ دیر یا صبح جلدی نہ کھائیں اور آخری کھانا زیادہ مقدار میں نہ کھانے کی کوشش کریں۔ یہ عام حالات میں آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ لوگ کم از کم اس کے کچھ حصوں کو اپنا سکتے ہیں۔'
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’آپ اپنے پہلے کھانے میں تھوڑی تاخیر اور اپنے آخری کھانے کو آگے بڑھانے سے ڈرامائی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں۔ کسی اور چیز کو تبدیل کیے بغیر اسے باقاعدگی سے اپنانے سے بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔‘
لیکن آپ جو بھی تبدیلیاں کرتے ہیں، محققین اس بات پر متفق ہیں کہ مستقل مزاجی بہت ضروری ہے۔
اینڈرسن کا کہنا ہے کہ 'جسم پیٹرن میں کام کرتا ہے۔ ہم کھانا کھلائے جانے کی توقع کا جواب دیتے ہیں۔ وقفے وقفے سے روزہ رکھنے سے ایک چیز ہوتی ہے کہ یہ ایک نمونہ نافذ کرتا ہے، اور ہمارے حیاتیاتی نظام ایک پیٹرن کے ساتھ اچھا کام کرتے ہیں۔'
وہ کہتی ہیں کہ جسم ہمارے کھانے کے طرز عمل کا اندازہ لگانے کے اشارے پر اٹھاتا ہے لہذا جب ہم اس پیٹرن پر کھاتے ہیں تو یہ کھانے کے ساتھ بہترین سلوک کر سکتا ہے۔
جب کتنی بار کے کھانے کو نارمل سمجھا جائے کی بات آتی ہے تو چارنگٹن-ہولنز کو اس کے متعلق افق پر تبدیلی نظر آتی ہے۔
’صدیوں کے دوران ہم دن میں تین وقت کے کھانے کے عادی ہو چکے ہیں، لیکن اب اس کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور کھانے کے لیے لوگوں کا رویہ بدل رہا ہے۔ ہمارے پاس زیادہ پر سکون طرز زندگی ہے، ہم اس سطح کا کام نہیں کر رہے جس طرح ہم پہلے 19ویں صدی میں کر رہے تھے، اس لیے ہمیں کم کیلوریز کی ضرورت ہے۔
’میرے خیال میں طویل مدت میں یہ ہوگا کہ ہم کام کے لحاظ سے اس کا انتخاب کریں گے اور ہم ہلکے کھانے کے بعد ایک اہم کھانے پر واپس جائیں گے۔ ہمارے کام کے اوقات ہی ہمارے کھانے کو طے کریں گے۔
’جب ہم راشن کی قلت سے نکلے تو ہم نے دن میں تین وقت کا کھانا قبول کیا کیونکہ اچانک ہمارے پاس کھانے کی فراوانی تھی۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ کھانا اب ہر جگہ ہے۔‘