سو سال قبل آج کے دن یعنی 12 جنوری سنہ 1925 کو بمبئی (اب ممـبئی) کے مضافاتی علاقے کے ایک بڑے بازار میں چند لوگوں نے ایک کار پر حملہ کیا جس پر ایک جوڑا سوار تھا۔ مرد کو گولی مار کر ہلا کر دیا گيا جبکہ عورت کے چہرے پر زخم آئے۔
بظاہر یہ کسی عام قتل کی طرح تھا۔
سو سال قبل آج کے دن یعنی 12 جنوری سنہ 1925 کو بمبئی (اب ممـبئی) کے مضافاتی علاقے کے ایک بڑے بازار میں چند لوگوں نے ایک کار پر حملہ کیا جس پر ایک جوڑا سوار تھا۔ مرد کو گولی مار کر ہلا کر دیا گيا جبکہ عورت کے چہرے پر زخم آئے۔
لیکن جب اس قتل کے پيچھے کی کہانی سامنے آنے لگی تو اس نے اس معاملے پر عالمی توجہ مرکوز کردی، جبکہ اس قتل کی پیچیدگیوں نے ملک کے اس وقت کے برطانوی حکمرانوں کو پریشانی میں ڈال دیا، یہاں تک کہ ایک ہندوستانی راجہ کو تخت چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔
اخبارات اور رسائل نے اس قتل کو 'برطانوی ہندوستان کے شاید سب سے زیادہ سنسنی خیز جرم' کے طور پر بیان کیا اور تحقیقات اور مقدمے کی سماعت کے دوران اس قتل کا چرچا سارے شہر کے لبوں پر تھا۔
25 سالہ مقتول عبدالقادر باولہ شہر میں کپڑوں کے ایک بااثر تاجر اور شہر کے سب سے کم عمر میونسپل اہلکار تھے۔ ان کی خاتون ساتھی 22 سالہ ممتاز بیگم تھیں جو کہ طوائف تھیں اور ایک شاہی ریاست کے حرم سے فرار تھیں۔ وہ گذشتہ چند مہینوں سے باولہ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔
قتل کی شام باولہ اور ممتاز بیگم تین دیگر افراد کے ساتھ کار میں سوار تھے اور وہ بحیرہ عرب کے ساحل کے ساتھ بمبئی میں آباد امیروں کے علاقے مالابار ہل میں کار چلا رہے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں کاریں نایاب تھیں اور صرف انتہائی امیروں کے پاس ہوا کرتی تھیں۔
اچانک ایک دوسری کار نے ان کو اوور ٹیک کیا۔ انٹیلی جنس اور اخباری رپورٹس کے مطابق اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردعمل ظاہر کرتے وہ کار باولہ کی کار سے ٹکرا گئی اور انھیں کار کو روکنے پر مجبور کر دیا۔
ممتاز بیگم نے بعد میں بمبئی ہائی کورٹ کو بتایا کہ حملہ آوروں نے باولہ پر مغلظات کی بارش کر دی اور چیخ کر کہا 'عورت کو باہر نکالو'۔
اس کے بعد انھوں نے باولہ پر گولی چلادی۔ اور وہ چند گھنٹوں کے بعد فوت ہو گئے۔
اسی دوران گولف کھیل کر واپس آنے والا برطانوی فوجیوں کا ایک گروپ غلط موڑ لینے کی وجہ سے وہاں آ نکلا۔ انھوں نے جب گولیوں کی آوازیں سنیں تو وہ ادھر لپکے۔
وہ حملہ آوروں میں سے ایک مجرم کو پکڑنے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس دوران فائرنگ میں ایک فوجی کو گولی لگ گئی۔
فرار ہونے سے پہلے باقی حملہ آوروں نے زخمی ممتاز بیگم کو انگریز افسران سے دو بار چھیننے کی کوشش کی۔ فوجی زخمی خاتوں کو ہسپتال پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
میڈیا میں شائع خبروں سے پتا چلتا ہے کہ حملہ آوروں کا مقصد ممکنہ طور پر ممتاز بیگم کو اغوا کرنا تھا اور یہ کہ وہ باولہ سے چند ماہ قبل ممبئی میں ایک پروگرام میں پرفارم کرتے ہوئے ملی تھی اور تب سے وہ ان کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ اس کے علاوہ باولہ کو اس خاتون کو پناہ دینے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔
مراٹھی اخبار نواکل نے رپورٹ کیا کہ انڈیا سے نکلنے والے انگریزی زبان کے ہفت روزہ الیسٹریٹڈ ویکلی نے قارئین کے لیے ممتاز بیگم کی خصوصی تصاویر پیش کیا جبکہ پولیس نے اس بابت پریس کے لیے روزانہ ایک بلیٹن جاری کرنے کا منصوبہ بنایا۔
یہاں تک کہ بالی وڈ نے بھی اس معاملے کو اتنا دلچسپ پایا کہ چند مہینوں کے اندر ہی اس نے اس قتل پر ایک خاموش فلم بنا ڈالی۔ یہ دور خاموش فلموں کا تھا کیونکہ انڈیا میں پہلی گویا فلم سنہ 1931 میں آئی تھی۔
'دی باولا مرڈر کیس: لَو، لَسٹ اینڈ کرائم ان کالونیل انڈیا' نامی کتاب کے مصنف دھول کلکرنی کہتے ہیں: 'یہ معاملہ قتل کے عام معمے سے آگے نکل گیا تھا کیونکہ اس میں ایک امیر اور نوجوان تاجر، ایک راجہ اور ایک خوبصورت عورت شامل تھی۔'
میڈیا میں بتایا گيا کہ تفتیش کرنے والوں کو حملہ آوروں کے سراغ وسطی شاہی ریاست اندور کی طرف لے گئے جو کہ حکومت برطانیہ کی حلیف ریاست تھی۔ پتا چلا کہ بمبئی آنے سے قبل مسلم خاتون ممتاز بیگم اندور کے ہندو راجہ مہاراج توکوجی راؤ ہولکر سوم کے حرم میں تھیں۔
ممتاز بیگم اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھیں۔ کے ایل گاوبا نے 1945 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب 'فیمس ٹرائلز فار لَو اینڈ مرڈر' میں لکھا: کہ 'وہ اپنے آپ میں ایک کلاس تھیں اور کہا جاتا ہے ممتاز بے نظیر حسن کی مالک تھیں۔'
کلکرنی کا کہنا ہے کہ مہاراجہ کی ان کو قابو کرنے کی کوششیں، انھیں اپنے خاندان سے تنہا ملنے سے باز رکھنے اور مسلسل نگرانی میں رکھنے کی وجہ سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے۔
ممتاز بیگم نے عدالت میں گواہی دی کہ 'مجھے نگرانی میں رکھا گیا۔ مجھے ملاقاتیوں اور اپنے رشتے داروں سے ملنے کی اجازت تھی لیکن کوئی نہ کوئی ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا تھا۔'
اندور میں انھوں نے ایک بچی کو جنم دیا لیکن اس کی ولادت کے بعد موت ہوگئی۔
ممتاز بیگم نے عدالت کو بتایا کہ 'بچی کی پیدائش کے بعد میں اندور میں رہنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ میں اس لیے تیار نہیں تھی کہ نرسوں نے پیدا ہونے والی بچی کو مار ڈالا تھا۔'
اس کے چند مہینوں کے اندر وہ فرار ہو گئیں اور شمالی ہندوستان کے شہر امرتسرپہنچیں جو کہ ان کی والدہ کی جائے پیدائش تھی۔ اس فرار کے دوران انھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
وہاں بھی ان کی نگرانی کی جاتی رہی۔ ممتاز بیگم کے سوتیلے والد نے عدالت کو بتایا کہ مہاراجہ نے گڑگڑاتے ہوئے اس سے واپس آنے کی درخواست کی۔ لیکن اس نے انکار کر دیا اور بمبئی چلی گئی، وہاں بھی ان کی نگرانی جاری رہی۔
اخباروں کی قیاس آرائیوں کی مقدمے کی سماعت دوران تصدیق ہوئی کہ مہاراجہ کے نمائندوں نے صحیح معنوں میں باولہ کو دھمکیاں دی تھیں کہ اگر وہ ممتاز بیگم کو پناہ دیتے رہے تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے، لیکن انھوں نے دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے نظر انداز کر دیا۔
جائے وقوعہ پر پکڑے جانے والے واحد حملہ آور شفیع احمد کی طرف سے دی گئی معلومات کے بعد بمبئی پولیس نے اندور سے مزید سات افراد کو گرفتار کیا۔
تحقیقات میں ان کےمہاراجہ سے ایسے روابط سامنے آئے جنھیں نظر انداز کرنا مشکل تھا۔ گرفتار کیے گئے زیادہ تر افراد اندور کی شاہی ریاست کے ملازم تھے، انھوں نے ایک ہی وقت چھٹی کے لیے درخواست دی تھی اور جرم کے وقت سب کے سب بمبئی میں تھے۔
اس قتل نے برطانوی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔ اگرچہ یہ قتل بمبئی میں ہوا تھا لیکن تحقیقات سے صاف ظاہر تھا کہ سازش اندور میں بنائی گئی تھی اور یہ کہ اس شاہی خاندان کے انگریزوں سے مضبوط تعلقات تھے۔
اسے برطانوی حکومت کے لیے 'انتہائی عجیب و غریب معاملہ' قرار دیتے ہوئے انگریز روزنامہ 'دی نیو سٹیٹس مین' نے لکھا کہ اگر یہ کوئی معمولی ریاست ہوتی تو برطانوی حکومت کے 'اضطراب کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔'
اس میں مزید لکھا: 'لیکن اندور (برطانوی) راج کی ایک طاقتور جاگیر رہی ہے۔'
برطانوی حکومت نے ابتدا میں قتل کے اندور سے تعلق کے بارے میں عوام کے سامنے خاموش رہنے کی کوشش کی۔ لیکن علیحدگی میں اس نے اس پر بہت سنجیدگی سے سوچ و وچار کیا، جس کے متعلق بمبئی اور برٹش انڈیا کی حکومتوں کے درمیان کی خط و کتابت سے پتہ چلتا ہے۔
بمبئی کے پولیس کمشنر پیٹرک کیلی نے برطانوی حکومت کو بتایا کہ تمام شواہد 'اس وقت اندور میں رچی جانے والی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا اندور سے ممتاج (ممتاز کی جگہ یہی لکھا ہے) کو کرائے کے بدمعاش افراد کے ذریعے اغوا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔'
حکومت کو مختلف اطراف سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ باولہ کی امیر میمن برادری ایک مسلم برادری ہے جس کی جڑیں جدید دور کے گجرات میں ہیں۔ اس برادری نے حکومت کے ساتھ اس قتل کے مسئلے کو اٹھایا۔ مقتول کے ساتھی میونسپل عہدیداروں نے باولہ کی موت پر سوگ کا اظہار کرتے ہوئے کہا: 'یقینی طور پر در پردہ کچھ تو ضرور ہے۔'
ہندوستانی قانون سازوں نے برطانوی ہندوستان کی مقننہ کے ایوان بالا میں جواب طلب کیا اور برطانوی ہاؤس آف کامنز میں بھی اس معاملے پر بحث ہوئی۔
ایک سابق پولیس افسر روہیداس نارائن دوسر اس قتل کے متعلق اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ تفتیش کاروں پر سستی کا مظاہرہ کرنے کا دباؤ تھا، لیکن اس وقت کے پولیس کمشنر کیلی نے استعفیٰ دینے کی دھمکی دی۔
جب یہ مقدمہ بمبئی ہائی کورٹ پہنچا تو اس نے دفاع اور استغاثہ دونوں کے سرکردہ وکلا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
ان وکیلوں میں سے ایک محمد علی جناح تھے جو 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان کے بانی اور بابائے قوم بنے۔ جناح نے اندور کی فوج کے ایک اعلیٰ جنرل ملزم آنند راؤ گنگارام پھانسے کا دفاع کیا اور وہ اپنے مؤکل کو سزائے موت سے بچانے میں کامیاب رہے۔
عدالت نے اس قتل کے معاملے میں تین افراد کو سزائے موت اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی، لیکن مہاراجہ کو جوابدہ ٹھہرانے سے گریز کیا۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس ایل سی کرمپ نے یہ لکھا کہ 'ان کے پیچھے ایسے لوگ تھے جن کی ہم واضح طور پر نشاندہی نہیں کر سکتے۔'
'لیکن جہاں تک ایک خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کا سوال ہے جو کہ 10 سال تک اندور کے مہاراجہ کے حرم میں تھی، ایسے میں اندور کو اس نظر سے دیکھنا کہ حملے کا حکم وہاں سے ہوا ہو کم از کم غیر معقول نہیں ہے۔'
کیس کی اہمیت کی خاطر برطانوی حکومت کو مہاراجہ کے خلاف فوری کارروائی کرنی پڑی۔ انھوں نے مہاراجہ کے سامنے یہ شرط رکھی کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کو پیش کردہ دستاویزات کے مطابق یا انکوائری کمیشن کا سامنا کریں یا عہدہ چھوڑ دیں۔
مہاراجہ نے تاج چھوڑنے کا انتخاب کیا۔
انھوں نے برطانوی حکومت کو لکھا کہ 'میں اپنے بیٹے کے حق میں اپنے تخت سے اس خیال کے ساتھ دستبردار ہو رہا ہوں کہ ملابار ہل سانحہ کے ساتھ میرے مبینہ تعلق کے بارے میں مزید کوئی انکوائری نہیں کی جائے گی۔'
ریاست کی گدی سے دستبرداری کے بعد مہاراجہ نے اپنے خاندان اور برادری کی مرضی کے خلاف ایک امریکی خاتون سے شادی کرنے پر اصرار کرکے مزید تنازع کھڑا کیا۔ برطانوی محکمہ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بالآخر امریکیخاتون نے ہندو مذہب اختیار کیا اور انھوں نے شادی کر لی۔
اسی دوران ممتاز بیگم کو ہالی وڈ سے پیشکشیں موصول ہوئیں اور بعد میں وہ اپنی قسمت آزمانے کے لیے امریکہ چلی گئیں۔۔۔ مگر پھر گمنامی میں ڈوب گئیں۔