ایف بی آر کا ایک ہزار سے زائد نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ جو ’زیادہ ٹیکس کے لیے ضروری ہیں‘

تاہم سوشل میڈیا اور سماجی حلقوں میں اس فیصلے پر تمام تر تنقید کے باعث یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر یہ نئی گاڑیاں کیوں خرید رہا ہے، اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا اور کیا یہ حکومتی کفایت شعاری کے دعوؤں کے برعکس نہیں؟

پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے افسران کے لیے ایک ہزار نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے ان گاڑیوں کی خریداری کے لیے مقامی طور پر گاڑیاں تیار کرنے والی ایک کمپنی کو یہ گاڑیاں اگلے پانچ مہینوں میں دینے کے لیے ایک خط بھی بھیجا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق یہ گاڑیاں ادارے کے افسران کو فیلڈ میں جا کر ٹیکس وصولی کے لیے دی جا رہی ہیں۔

وفاقی ادارے کے جانب سے ایک ہزار کاریں خریدنے کے فیصلے کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے ایک جانب حکومت ملکی معاشی حالات کے پیش نظر حکومتی اخراجات کو کم کرنے کا اعلان کرتی ہے تو دوسری جانب اربوں روپے مالیت کی کاریں خریدی جا رہی ہیں۔

https://twitter.com/WahajSiraj1/status/1878500917785321575

اینکر پرسن شفا یوسف زئی نے ایکس پر اپنے پیغام میں ایف بی آر کی جانب سے ایک ہزار کاریں خریدنے پر تبصرہ کرتے ہوئے مزاحیہ انداز میں میم کے ساتھ لکھا کہ ہمارا ٹیکس کہا جاتا ہے۔

محمد آفاق نامی صارف نے لکھا ’تنخواہ دار طبقے سمیت ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائے گئے چھ ارب روپے سے ایف بی آر کے افسران کے لیے 1010 ہونڈا سٹی کاریں خریدنے پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔‘

تاہم سوشل میڈیا اور سماجی حلقوں میں اس فیصلے پر تمام تر تنقید کے باعث یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایف بی آر یہ نئی گاڑیاں کیوں خرید رہا ہے، اس سے کیا فائدہ حاصل ہو گا اور کیا یہ حکومتی کفایت شعاری کے دعوؤں کے برعکس نہیں؟

FBR
Getty Images

ایف بی آر نئی کاریں کس مقصد کے لیے خرید رہا ہے؟

ایف بی آر کے ایک ہزار سے زائد کاریں خریدنے کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے ایف بی آر اور حکومت کے ذمہ داران نے اس کو ’وقت کی ضرورت‘ قرار دیا ہے۔

تاہم غیر جانبدار ٹیکس ماہرین کی جانب سے نئی کاروں کی خریداری کے ذریعے ٹیکس وصولی میں اضافے کو ایک ’پرانا طریقہ کار‘ قرار دیا گیا ہے جس سے کوئی خاص فائدہ ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

نئی کاروں کی خریداری کے مقصد کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایف بی آر کے ترجمان سعید اکرم نے بتایا کہ ان کاروں کی خریداری ایف بی آر کے ٹرانسفارمشین پلان کے تحت کی جا رہی ہے جس کی منظوری وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ دی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کاروں کی خریداری فیلڈ اہلکاروں کے لیے کی جا رہی ہے جو فیلڈ میں جا کر ٹیکس وصولیاں کریں گے۔ انھوں نے کہا ’زیادہ ٹیکس وصولی کے لیے فیلڈ افسروں کو زیادہ سرعت کے ساتھ کام کرنے کے لیے یہ کاریں خریدی جا رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’ٹیکس وصولی کے لیے ڈیجیٹل استعداد میں اضافہ تو کیا جا رہا ہے تاکہزیادہ ٹیکس وصولی کو ممکن بنایا جا سکے تاہم اس کے ساتھ فیلڈ افسروں کو زیادہ متحرک رہنے کے لیے کاروں کی بھی ضرورت ہے جس کے لیے یہ گاڑیاں خریدی جا رہی ہے۔‘

نئی کاروں کی خریداری کی ضرورت اس وقت کیوں پیش آئی؟

ایف بھی آر کی جانب سے موجودہ وقت میں نئی گاڑیاں خریدنے کے فیصلے پر بات کرتے ہوئے ترجمان ایف بی آر سعید اکرم نے کہا ’اس فیصلے پر تنقید بلاجواز ہے کیونکہ اس خریداری کے لیے ایف بی آر حکومت سے کوئی اضافی فنڈز نہیں لے رہا اور اپنے مختص کردہ بجٹ سے یہ گاڑیاں خرید رہا ہے۔‘

انھوں نے اس خریداری پر چھ ارب سے زائد کی رقم کے خرچ ہونے کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’خریداری پر 4.7 ارب روپے خرچ ہوں گے۔‘

انھوں نے اس وقت میں اس خریداری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ’سب سے پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ کاریں بڑے افسران کے لیے نہیں خریدی جا رہی ہیں بلکہ گریڈ 18 کے افسران اور اہلکار انھیں فیلڈ ورک کے لیے استعمال کریں گے۔‘

انھوں نے کہا ’ان کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ان کے اندر ٹریکر سسٹم لگے ہوں گے اور سنٹرل کنٹرول روم سے ان کاروں کے استعمال پر نظر رکھی جائے گی۔‘

ترجمان ایف بی آر نے بتایا کہ ’اس وقت اگر پاکستان کا ٹیکس گیپ دیکھیں تو یہ چھ ہزار ارب کا ہے۔‘ انھوں نے کہا پاکستان کی بہت بڑی آبادی ہے تاہم اس میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

انھوں نے کہا ’اس ٹیکس گیپ کو کم کرنے کے لیے یعنی زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے لیے جہاں ایف بی آر جدید ڈیجٹیل طریقے بروئے کار لایا ہے تو اس کے ساتھ فیلڈ میں زیادہ متحرک ہونے کا فیصلہ بھی کیا ہے جس کے تحت یہ نئی کاریں خریدی جا رہی ہیں۔‘

ترجمان نے بتایا ’اس کی ایک مثال پاکستان کا ریٹیل کا شعبہ ہے جو کہ ٹیکس نظام میں بہت کم حصہ ڈالتا ہے۔‘

انھوں نے کہ ریٹیل سیکٹر پاکستان کے مختلف شہروں میں بازاروں، شاپنگ پلازوں اور گلیوں میں ہے جس کے لیے زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت ہے اور ’یہ کام فیلڈ اہلکار کریں گے کہ وہ ان کاروں کے ذریعے سرعت سے حرکت میں آسکیں گے۔‘

FBR
Getty Images

’ایک روپیہ خرچ ہو گا تو دس روپے کی آمدن ہو گی‘

موجودہ حکومت کی جانب سے کفایت شعاری اور حکومت اخراجات میں کمی کے بارہا اعلانات سامنے آئے ہیں جن میں تازہ ترین ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ ہے تاکہ اس کے ذریعے حکومت کے اخراجات کو کم کیا جا سکے تاہم ایف بی آر کی جانب سے نئی کاروں کی خریداری کیا حکومتی پالیسی کے برعکس ہے؟

اس بارے میں وزیر اغطم پاکستان کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ایف بی آر ملک کا ریونیو انجن ہے اور اسے چلانے کے لیے خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’دنیا میں ٹیکس بورڈ ریونیو کا دو سے تین فیصد خرچ کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں اس کی شرح ایک فیصد ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس ادارے میں انویسٹ کریں گے تو ریکوری بہتر ہوگی یعنی ایک روپیہ خرچ ہو گا تو دس روپے کی آمدن ہو گی۔‘

رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ ’نئی کاروں کی خریداری بلاوجہ نہیں ہے بلکہ اس کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت کو مزید دستاویزی بنانا ہے تاکہ زیادہ ٹیکس اکٹھا ہو سکے۔‘

انھوں نے کہا ’وزیر اعظم شہاز شریف جو کفایت شعاری کے داعی ہیں اگر انھوں نے اس کی اجازت دی ہے تو اس کا مطلب واضح ہے کہ نئی کاروں کی خریداری کتنی ضروری ہے اور اس سے ریونیو میں اضافے کی صورتحال بہتر ہو گی۔‘

انھوں نے کہا ’ملکی معیشت میں بہتری کے لیے حکومت سوشل میڈیا پر ہونے والی بلا جواز تنقید سے نہیں گھبرائے گی۔‘

نئی کاروں سے کیا زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل ہو سکے گا؟

TAX
Getty Images

پاکستان میں کسی حکومتی ادارے کی جانب سے بڑی تعداد میں کاریں خریدنے کا فیصلہ پہلا نہیں ہے۔ اس سے پہلے ماضی میں بھی ایسے فیصلے کیے گئے۔

گذشتہ سال ستمبر میں سندھ حکومت کی جانب سے 138 ڈبل کیبن لگژری گاڑیوں کی خریداری کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کا جواز دیتے ہوئے صوبائی حکومت نے کہا تھا کہ یہ گاڑیاں اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے خریدی جا رہی ہیں تاکہ وہ فیلڈ میں امن و امان اور دوسرے امور کی انجام دہی کر سکیں۔

ایف بی آر کی جانب سے بھی اب فیلڈ اہلکاروں کی جانب سے زیادہ ٹیکس وصولی کے لیے کام کرنے کا جواز دیا گیا ہے۔

ٹیکس اور معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی اردو سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس صدی کے شروع میں دیکھیں تو پرویز مشرف کے دور میں ایف بی آر کی جانب سے جیپیں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس سے زیادہ ٹیکس وصولی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا میں ٹیکس وصولی کے لیے ہیومن انٹرایکشن کم ہو رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کے الٹ ہے کہ فیلڈ افسر اب دکانوں پر جا کر یہ کام کریں گے۔‘

ڈاکٹر اکرام کہتے ہیں کہ ’ریٹیل شعبے کے لیے یہ کام کیا جا رہا ہے مگر کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں ایسے گنجان علاقے ہیں کہ وہاں گاڑیاں تو کیا موٹر سائیکل بھی نہیں جا سکتی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل طریقہ کار میں بہتری سے ہی یہ کام ہو سکتا ہے کہ جس میں ٹرانزیکشنز کو ٹریک کر کے زیادہ وصولی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔‘

ڈاکٹر اکرام کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر کیونکہ ہماری بیوروکریسی نو آبادیاتی وراثت کی حامل ہے اس لیے یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ جو اس میں چلا آرہا ہے کہ جس میں بڑی بڑی کاروں میں بیٹھ کر فیلڈ ورک کرنا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.