پیر کو سالانہ پریس کانفرنس میں انڈین فوج کے سربراہ جنرل دِویدی نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ ان کا پڑوسی ملک ابھی بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کو بھیج رہا ہے تاہم اس بیان پر پاکستان کی جانب سے ابھی تک سرکاری سطح پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
انڈین فوج کے سربراہ جنرل اوپیندر دِویدی کی جانب سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی علاقوں میں پاکستان سے عسکریت پسندوں کی دراندازی کے دعوے کی پاکستان کے دفتر خارجہ نے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پاکستانی دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان 13 اور 14 جنوری کو انڈیا کے وزیر دفاع اور آرمی چیف کی جانب سے عائد کردہ بے بنیاد الزامات اور دعوؤں کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
پیر کو سالانہ پریس کانفرنس میں جنرل دِویدی نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کا پڑوسی ملک ابھی بھی انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کو بھیج رہا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’سنہ 2024 میں مارے گئے 73 دہشت گردوں میں سے 60فیصد پاکستانی تھے جبکہ اس وقت جو دہشتگرد سرگرم ہیں ان میں 80 فیصد پاکستانی ہیں۔‘
انڈین فوج کے سربراہ کے مطابق لائن آف کنٹرول پر موٴثر جنگ بندی کے باوجود مسلح عسکریت پسندوں کی دراندازی کا سلسلہ جاری ہے اور ’دہشت گردی کا بنیادی ڈھانچہ‘ اب بھی موجود ہے۔
’اگر (مسلح گروپوں کو) پاکستان کی حمایت جاری رہی تو ایل او سی پر دراندازی کا سلسلہ جاری رہے گا تاہم سرحدی علاقوں میں 15 ہزار اضافی فوجیوں کی تعیناتی کے بعد مسلح تشدد میں معنی خیز کمی آئی ہے۔‘
فوجی سربراہ نے مزید کہا کہ کشمیر میں ’ٹیرراِزم کی جگہ اب ٹوراِزم نے لے لی ہے۔‘
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق ’جموں و کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے، جس کی حتمی حیثیت کا تعین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا ہے۔ اس تناظر میں انڈیا کے پاس جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں پر فرضی دعوے کرنے کی کوئی قانونی یا اخلاقی بنیاد نہیں۔‘
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ انڈین قیادت کی جانب سے اس طرح کی بیان بازی سے جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور انڈیا کے غیر قانونی اقدامات سے عالمی توجہ کو نہیں ہٹایا جا سکتا۔ یہ اقدامات کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی جائز اور منصفانہ جدوجہد کو دباتے ہیں۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ اس نوعیت کے اشتعال انگیز بیان علاقائی امن اور استحکام کے لیے نقصان دہ ہیں۔
’انڈیا دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگانے کی بجائے غیر ملکی سرزمین میں ٹارگٹڈ قتل، تخریب کاری کی کارروائیوں اور ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں اپنی ثابت شدہ شمولیت کا جواب دے۔‘
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا ماضی میں تین باقاعدہ بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اس کے علاوہ متعدد ایسے مواقع بھی آئے جب یہ دونوں چوتھی باقاعدہ جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے۔ دونوں ممالک کے حکام ایک دوسرے پر دہشتگردی پھیلانے کے الزامات بھی عائد کرتے رہے ہیں۔
گذشتہ برس دسمبر کے آخری ہفتے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے دعویٰ کیا تھا کہ اس برس انڈیا نے 25 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی۔
جنرل دِویدی کا بیان کتنا اہم؟
تجزیہ کار اور مبصرین انڈین فوج کے سربراہ جنرل دِویدی کے بیان کو وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے بیانیے کی ہی ایک کڑی قرار دے رہے ہیں۔
کشمیر امور کے ماہر اور مصنف غلام رسول شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کئی برسوں سے پاکستان کے تئیں انڈیا کی فوجی اور سِول قیادت کا لہجہ نرم ہے۔ جنرل دِویدی دراصل ان اعداد و شمار سے یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ کشمیریوں کی اکثریت نے موجودہ صورتحال کو تسلیم کیا اور وہ تعمیر و ترقی اور سیاحت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔‘
خیال رہے وزیر اعظم مودی کی حکومت نے اگست 2019 میں انڈین آئین سے آرٹیکل 370 کا حذف کردیا تھا جس کے تحت اس کے زیرِ انتظام کشمیر کو نیم خودمختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔
اس شق کے خاتمے کے بعد انڈیا کے تمام مرکزی قوانین ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیر کشمیر میں نافذ ہو گئے تھے۔
غلام رسول شاہ کا کہنا ہے کہ اب انڈین فوج کی توجہ کا مرکز چین ہے۔
’جنرل دِویدی نےاسی پریس کانفرنس میں تسلیم کیا کہ لداخ میں چینی سرحد پر حالات حساس ہیں اور اس بات پر انڈیا میں سب کا اتفاق ہے کہ انڈیا بیک وقت دو محاذوں پر نہیں لڑ سکتا۔‘
انڈیا اور چین کے تعلقات میں بھی گذشتہ کئی برس سے تناؤ پایا جاتا ہے اور وزیر اعظم مودی کی حکومت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع گاندربل میں لداخ ہائی وے پر ایک سُرنگ بھی بنائی ہے جسے انڈین افواج کو چینی سرحد تک فوری رسائی کے حولے سے ایک اہم ترین دفاعی منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔
تاہم دیگر سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل دِویدی کے بیان کی سیاسی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
معروف تجزیہ کار اور صحافی ہارون ریشی کہتے ہیں کہ ’یہ اہم نہیں کہ (انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں متحرک عسکریت پسند) کتنے پاکستانی ہیں یا کشمیری۔ اہم بات یہ ہے کہ فوج کے سربراہ نے اشارہ دیا کہ کشمیر میں عسکریت پسندی اب ان کے لیے کوئی بڑا چیلنج نہیں بلکہ اب اصل چیلنج چین ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف بھی اہم ہے کہ ایل او سی کے قریبی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی کے باوجود وہاں پندرہ ہزار اضافی فوجی تعینات کرنے کی ضرورت پڑی۔ اس کا مطلب ہے کہ عسکریت پسندی کا مکمل خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہو پایا۔‘
کیا واقعی کشمیر میں پاکستانی عسکریت پسند موجود ہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ماضی میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد دہشت گردی سے منسلک رہنے والے معروف مصنف لَو پُوری کہتے ہیں کہ یہ غلط فہمی ہے۔
’ایل او سی کے سب سے قریبی ضلع پونچھ میں جب عسکریت پسندی شروع ہوئی تو پاکستان کی جانب سے جو بھی عسکریت پسند اِس طرف آئے وہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے رہنے والے تھے۔ اُن کی زبان، رہن سہن اور تمدن وہی ہے جو پونچھ کے لوگوں کا ہے۔ انھیں غیر ملکی دہشتگرد نہیں کہا جا سکتا۔‘
لَو پُوری اپنی کتاب ’ملی ٹینسی اِن جموں اینڈ کشمیر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1947 سے پہلے پونچھ برطانیہ کے زیرِ نگرانی ایک باقاعدہ جاگیر تھی اور یہاں کے لوگوں کے رابطے اور مراسم غیرمنقسم پنجاب کے علاقوں خاص طور پر راولپنڈی کے ساتھ بہت گہرے تھے۔ یہاں عسکریت پسندی اس لیے بھی مقبول ہوئی کیونکہ سرینگر اور جموں سے پونچھ بہت دُور ہے اور یہاں غربت، بے روزگاری اور ترقی کی کمی سے بھی لوگ عسکریت پسندی کی طرف راغب ہوگئے۔‘
اسی طرح وہ راجوری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ راجوری کا علاقہ نوشہرہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے ضلع میرپور کا حصہ تھا۔
لَو پُوری کے مطابق پونچھ اور راجوری کے اضلاع میں رہنے والے لوگوں اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقوں کے درمیان تہذیبی، ثقافتی اور لسانی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
’یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں اُس پار کے کشمیر سے لوگ یہاں لڑنے کے لئے آئے تھے۔‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے پیر کے روز ہی دعویٰ کیا کہ ’ہم نے آرٹیکل 370 کو ہٹا کر جموں کشمیر سے دہشت گردی کو ختم کیا اور مارچ 2026 تک انڈیا سے نکسل ازم کا بھی صفایا کیا جائے گا۔‘
لیکن اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برس کے دوران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایل او سی کے قریبی علاقوں یہاں تک کہ ہندو اکثریتی علاقوں کٹھوعہ اور ریاسی میں مسلح حملوں کے بعد انڈین سکیورٹی اداروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ 2024 میں جموں کے 10 میں سے آٹھ اضلاع میں مسلح حملے ہوئے جن میں 18 فوجیوں اور 13 مسلح عسکریت پسندوں سمیت 44 افراد مارے گئے۔
اس دوارن انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی چند حملے ہوئے لیکن وادی میں مجموعی طور پر حالات پرسکون ہی رہے۔ فوجی حکام کا دعویٰ ہے کہ ایسے حملے پاکستان کی جانب سے مسلح دراندازی کے بغیرممکن نہیں۔
’کیسے پتہ چلے کہ مارا گیا عسکریت پسند پاکستانی تھا یا کشمیری‘
واضح رہے کہ پچھلے چار برس میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جھڑپوں میں مارے گئے عسکریت پسندوں کی لاشیں ان کے خاندان والوں کو نہیں دی جاتیں بلکہ انھیں سرحدی علاقوں میں پولیس کی نگرانی میں دفنایا جاتا ہے۔
ایک معروف وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ایسے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ مارے گئے عسکریت پسند کشمیری تھے یا پاکستانی۔ جب کوئی غیرکشمیری عسکریت پسند بھی مارا جاتا ہے تو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ ایک غیر ملکی دہشتگرد مارا گیا، کوئی شناخت ظاہر نہیں کی جاتی۔ اب کیسے پتا چلے کہ مارا گیا عسکریت پسند پاکستانی تھا یا کشمیری؟‘
تاہم انڈین فوج کے ایک سابق افسر کہتے ہیں کہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پاکستانی عسکریت پسندوں کی موجودگی کے حوالے سے جنرل دِویدی کا بیان زمینی حقائق پر مبنی ہے۔
انھوں نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پاکستان کی مبینہ دراندزی کے حوالے سے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 1965 میں آپریشن جبرالٹر کیا تھا؟ کیا اُس وقت پاکستانی مسلح افراد یہاں نہیں گھُس آئے تھے؟ یہاں 1990 میں جو دہشت گردی شروع ہوئی، اس پر تو پہلے پہل پاکستانی دہشت گردوں کا ہی غلبہ تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ فوجی قیادت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس حوالے سے آگاہی پیدا کرے تاکہ زمینی سطح پر جو دفاعی مشینری موجود ہے وہ خبردار رہے۔
’یہی کام جنرل دِویدی نے کیا۔ یہ ایک اندازہ ہوتا ہے، آپ دہشت گردوں کی مردم شماری تو نہیں کر سکتے۔‘