غزہ کی پٹی میں 15 ماہ کی جنگ سے کتنا نقصان ہوا اور بحالی میں کتنا وقت لگے گا؟

حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ غزہ کے لوگوں کے مسائل حل ہونے اور اُن کے علاقوں کی بحالی میں کئی سال، بلکہ دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
Gaza
BBC

غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے لیکن 15 ماہ سے جاری لڑائی اور جنگ کے ساحلی فلسطینی علاقے پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے اس علاقے پر فضائی حملے اور زمینی کارروائی 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے غیر معمولی سرحد پار حملے کے جواب میں شروع ہوئے، حماس کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا۔

حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ کے دوران 46 ہزار 600 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔

غزہ کے باسیوں کو اس بات کی امید ہے کہ تازہ ترین جنگ بندی بالآخر امن کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اس جنگ میں ہونے والی تباہ کاری کے بعد بحالی میں کئی سال یا دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

بی بی سی کی ان تصاویر کی مدد سے یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ یہاں (غزہ) میں جنگ کے دوران زندگی کس تیزی سے تبدیل ہوئی۔

تباہی کیسے پھیلی

اسرائیلی انتظامیہ کی توجہ ابتدا میں شمالی غزہ پر مرکوز تھی، اسی مقام اور علاقے کے بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ حماس کے جنگجو انھیں گنجان آباد شہری آبادی کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔

سرحد سے صرف 2 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شمالی قصبہ بیت حنون اسرائیلی حملوں کا پہلا نشانہ بننے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔ اس علاقے کو اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے بھاری نقصان پہنچا۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

اسرائیل نے غزہ شہر اور شمال میں دیگر شہری مراکز پر بمباری جاری رکھی اور اکتوبر کے آخر میں زمینی حملہ شروع کرنے سے پہلے شہریوں کو اپنی حفاظت کو مدِنظر رکھنے کی خاطر اس علاقے کو خالی کرنے اور 'وادی غزہ' کے جنوب میں منتقل ہونے کا حکم دیا۔

لیکن اس انتباہ کے باوجود اسرائیلی فوج نے جنوبی شہروں پر بھی فضائی حملے جاری رکھے جن کی طرف شمال سے لاکھوں غزہ کے باشندے منتقل ہو رہے تھے۔ نومبر کے آخر تک علاقے کے جنوب کے کچھ حصے کھنڈرات میں بدل چُکے تھے جیسا کہ اس سے قبل شمال کا زیادہ تر حصہ دکھائی دے رہا تھا۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

اسرائیل نے دسمبر کے اوائل میں غزہ کے ایک اور اہم اور گنجان آباد علاقے خان یونس پر زمینی کارروائی کے آغاز سے قبل جنوبی اور وسطی غزہ پر اپنی بمباری کی رفتار اور شدت میں اضافہ کر دیا تھا اور جنوری تک غزہ کی نصف سے زیادہ عمارتوں کو تباہ کردیا گیا تھا۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

سیٹلائٹ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے والے سی یو این وائی گریجویٹ سینٹر اور اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق 15 ماہ سے جاری تنازع نے ممکنہ طور پر غزہ کی پٹی میں تقریبا 60 فیصد عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے جس میں غزہ شہر کو سب سے زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق تباہ ہونے والی عمارتوں میں غزہ میں 90 فیصد سے زیادہ رہائشی یونٹ شامل ہیں، جن میں سے 160،000 تباہ ہوئے اور مزید 276،000 کو جزوی طور پر نقصان پہنچا۔

جنگ کے دوران حماس، جسے اسرائیل، برطانیہ اور بہت سے دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے کی جانب سے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے جاتے رہے ہیں اور اس سب کے دوران حماس کے اتحادی اسرائیلی افواج کے خلاف زمینی کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔

ایک وسیع خیمہ بستی کو آباد کیا گیا

غزہ میں اس حالیہ جنگ سے قبل بھی حالات اچھے نہیں تھے اور یہاں زندگی گُزارنا انتہائی مُشکل تھا، برسوں سے خطے میں کسی داخل ہونا ہے اور کسے نہیں اس بات کا فیصلہ اسرائیلی اور مصری انتظامیہ نے کیا۔ تاہم اس بارے میں دونوں ممالک کا کہنا تھا کہ ایسا سکیورٹی اور اپنی سلامتی کی غرض سے کیا جاتا رہا ہے۔

عالمی بینک کے مطابق اگرچہ تقریباً دو تہائی آبادی غربت میں تھی اور ہزاروں افراد اقوام متحدہ کے زیر انتظام پناہ گزین کیمپوں میں رہتے تھے لیکن وہاں ہسپتال، سکول اور دکانیں بھی موجود تھیں۔

لیکن غزہ صرف 41 کلومیٹر (25 میل) لمبا اور 10 کلومیٹر چوڑا اور بحیرہ روم سے گھرا ہوا ہے اور اسرائیل اور مصر کے ساتھ بند سرحدیں ہیں، تاہم اب یہاں کا بڑا حصہ رہائش کے قابل نہیں ہے۔

GAZA
Getty Images

پورے ضلع کو زمین بوس کر دیا گیا۔ زرعی زمین جہاں کبھی گرین ہاؤس ہوا کرتے تھے، اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے علاقے میں چھاپوں اور بھاری فوجی گاڑیوں اور ٹینکوں کی وجہ سے ریت اور ملبے میں تبدیل ہو گئی ہے۔

جنگ سے پہلے غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے زیادہ تر اس کے چار اہم شہروں جنوب میں رفح اور خان یونس، مرکز میں دیر البلاح اور غزہ شہر میں رہتے تھے جو 775000 افراد کا گھر تھا لیکن اب تقریباً پوری آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

اسرائیل کی جانب سے غزہ میں اپنی حکمتِ عملی کی مسلسل تبدیلی کی وجہ سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو کئی بار اپنا ٹھکانہ بتبدیل کرنا پڑا، ابتدائی طور پر شمال کے لوگوں کو وادی غزہ کے جنوب میں منتقل ہونے کے لیے کہا گیا اور بعد میں جنوب میں انخلا کا اعلان کیا گیا۔

سیٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصاویر میں مصر کی سرحد کے قریب بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ زرعی زمین کی ایک پتلی پٹی المواسی میں بے گھر افراد کی جانب سے لگائے گئے خیموں کا وسیع پھیلاؤ دیکھا جا سکتا ہے جسے اسرائیل نے اکتوبر 2023 میں 'ہیومینٹیرین زون' قرار دیا تھا۔

GAZA
BBC

اسرائیل نے مئی میں رفح میں اپنی زمینی کارروائی شروع کرنے کے بعد خان یونس اور دیر البلاح کے کچھ حصوں کو شامل کرنے کے لیے اس زون میں توسیع کی تھی جہاں دس لاکھ سے زیادہ افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔

لیکن اس کے بعد سے اس کے حجم میں بار بار کمی آتی رہی کیونکہ اسرائیل نے ان علاقوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی جانب سے اس علاقے کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا کیونکہ انھیں اس بات کا شق تھا کہ حماس کے عسکریت پسند بے گھر ہونے والے افراد کے درمیان چھپے ہوئے ہیں۔

اگست میں اقوام متحدہ نے تخمینہ لگایا تھا کہ 12 لاکھ سے زیادہ افراد المواسی میں پناہ لیے ہوئے ہیں جس میں اہم بنیادی ڈھانچے اور بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور اس علاقے کا حجم تقریباً 7 کلومیٹر مربع (2.7 مربع میل) کے قریب ہے تاہم اس سے قبل اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ علاقہ 72 کلومیٹر مربع (27.8 مربع میل) پر مشتمل ہے۔

وسطی اور جنوبی غزہ میں اقوام متحدہ کی ہنگامی پناہ گاہوں میں بھیڑ ایک تشویش ناک حد تک بڑھ گئی ہے جن میں سے کچھ میں اپنی گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ آباد ہیں۔ دیگر خاندان خیموں یا عارضی پناہ گاہوں میں یا زمین اور ساحلوں کے کھلے علاقوں میں زندگی گُزارنے پر مجبور ہیں۔

خوراک کے لیے جدوجہد

قحط کا اعلان کرنے کے ذمہ دار عالمی ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) کے مطابق تقریباً 18 لاکھ افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں جن میں تقریباً 133000 افراد تباہ کن غذائی عدم تحفظ کا سامنا کر رہے ہیں۔

GAZA
Getty Images

قحط کا اعلان کرنے کے ذمہ دار عالمی ادارے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کی جانب سے ستمبر 2024 سے اگست 2025 تک کے حالات اور تجزیے میں خبردار کیا گیا ہے کہ شدید غذائی قلت کی سطح جنگ شروع ہونے سے پہلے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہوگی۔

موجودہ جنگ سے پہلے بھی غزہ کی تقریباً 80 فیصد آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت تھی۔

اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد اسرائیل اور مصر کی جانب سے اپنی گزرگاہیں بند کیے جانے کے بعد تقریباً 10 روز تک امدادی سامان کی فراہمی مکمل طور پر رک گئی تھی اور جنوری میں اب تک روزانہ تقریباً 50 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو رہے ہیں۔

اسرائیل اقوام متحدہ کے اعداد و شمار سے اختلاف کرتا ہے۔

مارچ میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے غزہ میں داخل ہونے اور خوراک کی تقسیم کے لیے روزانہ کم از کم 300 ٹرکوں کی ضرورت ہوگی۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے اس صورتحال کا ذمہ دار امداد کی ترسیل پر اسرائیلی فوج کی پابندیوں، جاری کشیدگی اور امن و امان کی خراب صورتحال کو قرار دیا ہے۔

اسرائیل کا اصرار ہے کہ غزہ اور اس کے ارد گرد فراہم کی جانے والی امداد کی مقدار کی کوئی حد نہیں ہے اور وہ رسد کی تقسیم میں ناکامی پر اقوام متحدہ کے اداروں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ اس میں حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے جس کی حماس کی جانب سے تردید کی گئی ہے۔

غربت بڑھتی جا رہی ہے

اس تنازعے نے غزہ کی معیشت پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں جس کے بارے میں عالمی مالیاتی ادارے یعنی ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ 2024 کی پہلی سہ ماہی میں اس میں 86 فیصد کمی آئی ہے جو 'ریکارڈ پر سب سے بڑا معاشی تنزلی' ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریباً 100 فیصد آبادی جنگ سے پہلے کے 64 فیصد کے مقابلے میں اب غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور بنیادی سامان کی قیمت میں تقریباً 250 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

اقوام متحدہ کے تجارتی اور ترقیاتی ادارے یو این سی ٹی اے ڈی کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 18.5 ارب ڈالر ہے جو 2022 میں غزہ کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے۔

ادارے نے اکتوبر میں متنبہ کیا تھا کہ جنگ بندی کے بعد بھی غزہ کی معیشت کو 2022 کی سطح پر بحال کرنے میں 350 سال لگیں گے اگر یہ 2007 سے نافذ معاشی اور نقل و حرکت کی پابندیوں کے تحت زیادہ تیزی سے ترقی کرنے کے قابل نہیں ہوا۔

بہت سے طبی مراکز نقصان یا رسد اور ایندھن کی کمی کے نتیجے میں کام کرنے سے قاصر ہیں۔

اسرائیلی فورسز نے کئی ہسپتالوں پر بھی چھاپے مارے ہیں اور فوج نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس نے انھیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ حماس اور ہسپتال کے حکام نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

غزہ شہر کا الشفا ہسپتال جو کبھی غزہ کا سب سے بڑا طبی مرکز ہوا کرتا تھا، اب تباہ ہو گیا ہے تاہم اب اس نے اپنے شعبہ حادثات کو ایک مرتبہ پھر سے فعال کیا ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ اس نے سینکڑوں 'دہشت گردوں' کو ہلاک یا گرفتار کیا ہے اور انھیں اپنے دو بڑے آپریشنز میں 'پورے ہسپتال میں' ہتھیار اور اہم خفیہ معلومات ملی ہیں۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
Getty Images

اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے صرف 18 اب بھی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔

بحالی کا طویل عمل

بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے علاوہ، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں ہونے والے نقصانات کی تلافی میں کافی وقت لگے گا۔

رپورٹ میں پانی اور صفائی ستھرائی کے نظام کو 'تقریباً مکمل طور پر ناکارہ' قرار دیا گیا ہے، کیمپوں اور پناہ گاہوں کے ارد گرد بڑھتے ہوئے کچرے اور تباہ شدہ سولر پینلز اور استعمال کیے جانے والے گولہ بارود کے کیمیکلز مٹی اور پانی کی فراہمی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔

ادارے کا اس بارے میں مزید کہنا ہے کہ تباہی سے 50 ملین ٹن سے زیادہ ملبہ جمع ہوا ہے۔

15 ماہ کی جنگ نے غزہ کی پٹی میں زندگی کو کس طرح تبدیل کیا
BBC

یو این ای پی کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے ملبے اور دھماکہ خیز مواد کو صاف کرنے میں 21 سال کا طویل وقت لگ سکتا ہے۔

ایگزیکٹیو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے کہا کہ 'غزہ میں ماحولیاتی نقصانات میں اضافے سے اس کے لوگوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ان کی بحالی میں طویل وقت لگ سکتا ہے۔‘

GAZA
BBC

News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.