قدیم رومی شہر پومپے میں تقریباً دو ہزار برس تک آتش فشاں پہاڑوں کے پتھروں اور راکھ کے نیچے دبی کچھ ایسے کھنڈرات ملے ہیں جسے ایک ایسی دریافت قرار دیا جا رہا ہے جس کو کسی ’صدی میں صرف ایک بار‘ ہی ڈھونڈنا ممکن ہوتا ہے۔
روم کے قدیم شہر پومپے میں تقریباً دو ہزار برس تک آتش فشاں پہاڑوں کے پتھروں اور راکھ کے نیچے دبی کچھ ایسے کھنڈرات ملے ہیں جسے ایک ایسی دریافت قرار دیا جا رہا ہے جس کو کسی ’صدی میں صرف ایک بار‘ ہی ڈھونڈنا ممکن ہوتا ہے۔
ماہرینِ آثار قدیمہ کو یہاں ایسے بڑے اور شاندار حمام ملے ہیں جہاں گرم اور ٹھنڈے دونوں کمرے بنائے گئے ہیں، جہاں دیواروں پر نقش و نگار بنے ہوئے ہیں اور یہاں نہانے کے لیے پول بھی ہیں۔
سپا کی طرح نظر آنے والے یہ کھنڈرات ایک بڑے رہائشی گھر میں واقع ہیں جنھیں گذشتہ دو برسوں میں کھدائی کے دوران دریافت کیا گیاہے۔
پومپے میں ارکیالوجیکل پارک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر گیریل زُکٹریگل نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’انھیں (کھنڈرات کو) دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کچھ لوگ بس چند ہی منٹوں پہلے یہاں سے گئے ہوں۔‘
اس گھر سے ملنے والے دو انسانی ڈھانچوں کا تجزیہ کرنے سے ان خوفناک مناظر کی جھلک بھی نظر آتی ہے جن کا سامنا سنہ اے ڈی 79 میں پومپے کے رہائشیوں کو کوہ ویسوویوس کے آتش فشاں کے پھٹتے وقت کرنا پڑا تھا۔
ان میں سے ایک ڈھانچہ کسی عورت کا ہے جس کی عمر 35 سے 50 برس ہوگی اور دوسرا کسی نوجوان کا۔ انھوں نے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا تھا لیکن وہ پھر بھی علاقے میں آتش فشاں کی گیس اور سلگتی ہوئی راکھ کے پھیلنے کے سبب مارے گئے۔
پومپے میں خدمات سرانجام دینے والے ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر لڈوویچا الیسے کہتی ہیں کہ ’یہ ایک ڈرامائی مقام ہے اوریہاں دریافت ہونے والی ہر چیز آپ کو اس ڈرامے سے متعلق کہانی سنا رہی ہوتی ہے۔‘
اس قدیم شہر کا ایک تہائی حصہ آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد ملبے میں دب گیا تھا لیکن وہاں ہونے والی کھدائی کے سبب جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ آپ کو قدیم روم میں بسنے والی زندگیوں کی جھلک دکھاتی ہیں۔
پومپے میں کام کرنے والے ماہرینِ آثار قدیمہ کی سرگرمیوں کو بی بی سی اور لائنز ٹی وی کی ڈاکیومینٹری ’پومپے: دا نیو ڈِک‘ بنانے والی ٹیم نے انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔
حال ہی میں پومپے میں پورا ایک بلاک دریافت کیا گیا ہے جہاں ایک کپڑے دھونے کا مقام، ایک بیکری اور ایک بڑا سے گھر واقع تھا۔ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ تمام املاک ایک ہی امیر اور بااثر سیاستدان اولس رُستیس ویرس کی ملکیت تھے۔
ڈاکٹر زُکٹریگل کہتے ہیں کہ یہاں دریافت ہونے والے حمام یہاں کے لوگوں کی رئیس حیثیت کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
’یہاں صرف چند ہی مکانات ہیں جن میں نجی حمام تھے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف رئیسوں کے لیے تھے۔ یہ شاید پومپے میں کسی بھی گھر میں دریافت ہونے والا حماموں کا سب سے بڑا کمپلیکس ہے۔‘
ان حماموں میں نہانے والے لوگوں نے یہاں خوش قمستی سے لال دیواریں اور مُزائک کے فرش دیکھے ہوں جو اس وقت روم کی سلطنت میں ہر جگہ بنائے جاتے تھے۔
اس کے بعد وہ حمام کے اندر جاتے ہوں گے، گرم پانی اور وہاں دیواروں سے نکلنے والے گرم بھاپ سے لطف اندوز ہوتے ہوں گے۔
اس کے بعد وہ ایک اور کمرے میں آتے ہوں گے جہاں ان کی جِلد پر تیل لگایا جاتا ہوگا اور پھر اسے کسی مخصوص آلے سے صاف کیا جاتا ہوگا۔ آخر میں وہ یہاں موجود سب سے خوبصورت جگہ کا رُخ کرتے ہوں گے جہاں لال ستون تھے اور نہانے کے لیے ایک پول تھا جہاں کم سے کم ایک وقت میں 20 سے 30 افراد موجود رہ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر زُکٹریگل کہتے ہیں کہ ’شدید گرمی میں آپ یہاں پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھ سکتے ہیں اور وائن کے گلاس سے لُطف اندوز ہوتے ہوئے اپنی دوستوں سے باتیں کر سکتے ہیں۔‘
یہ حمام اس غیرمعمولی گھر کے اندر سے سامنے آنے والی تازہ ترین دریافت ہے۔
گذشتہ برس یہاں ایک اور کمرہ دریافت ہوا تھا جس کی دیواریں سیاہ تھیں اور ان پر دل کو لُبھانے والے نقش ق نفار بنے ہوئے تھے۔ یہاں ایک اور کمرہ تھا جس کی دیواروں پر آسمانی رنگ کیا گیا تھا، اس گھر کے رہائشی وہاں اپنے خداؤں کی عبادت کرنے آتے ہوں گے۔
یہ گھر اپنی تباہی کے وقت بھی تزین و آرائش کے مرحلے سے گزر رہا تھا کیونکہ کھدائی کے دوران یہاں گھروں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے اوزار اور دیگر سامان ملا ہے۔
یہاں ایک اور کمرا بھی دریافت ہوا تھا جس میں کوئی سجاوٹ نہیں کی گئی تھی اور اس کمرے سے دو انسانی ڈھانچے ملے تھے جو شاید آتش فشاں کے پھٹنے کے وقت یہاں سے باہر نہیں نکل پائے۔
یہاں ایک خاتون کا ڈھانچہ بیڈ پر پڑا ہوا ملا تھا، جبکہ ایک نوجوان کا ڈھانچہ اسی چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں ملا تھا۔
ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر صوفی ہائے کہتی ہیں کہ ’کوہ ویسوویوس سے نکلنے والا آتشی لاوا اس کمرے کے باہر سڑک تک آیا تھا اور اس کے سبب ایک دیوار گِر گئی تھی اور یہ لوگ اس کے تلے دب کر ہلاک ہو گئے تھے۔‘
’جب وہ نوجوان مر رہا تھا اس وقت اس کمرے میں موجود خاتون زندہ تھیں، سوچین ان کا درد کیسا ہوگا۔ اس کے بعد یہ کمرا لاوے سے بھر گیا اور وہ خاتون بھی ہلاک ہو گئیں۔‘
نوجوان کے ڈھانچے کا معائنہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کم عمری کے باوجود ان کی ہڈیاں کمزروں تھی جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ شاید وہ کوئی امیر شخص نہیں تھے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی غلام ہوں۔
جن خاتون کا یہاں سے ڈھانچہ برآمد ہوا ہے ان کی عمر زیادہ تھی لیکن ان کی ہڈیاں اور دانت اچھی حالت میں تھے۔
ڈاکٹر صوفی کہتی ہیں کہ ’شاید وہ یہاں کہ معاشرے میں اعلیٰ درجہ رکھتی ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ اس گھر کے مالک کی اہلیہ ہوں یا پھر اہلیہ کی خدمت کرنے والی کوئی ملازمہ، ہمیں اس کے بارے میں حتمی علم نہیں ہے۔‘
یہاں موجود ایک ماربل کی ٹیبل بھی کھدائی کے درمیان دریافت ہوئی ہے جس پر کانچ اور کانسی کی اشیا بھی موجود تھیں۔ شاید یہ دونوں افراد ان اشیا کو اپنے ساتھ کمرے میں لے آئے ہوں اور امید کر رہے ہوں کہ وہ آتش فشاں کے پھٹنے کے بدع یہاں سے نکل جائیں گے۔
لیکن ان دونوں افراد کی مُٹھیوں سے جو چیزیں برآمد ہوئی ہیں وہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ نوجوان لڑکے کے پاس کچھ چابیاں تھیں جبکہ خاتون کے پاس کچھ سونے، چاندی کے سکّے اور کچھ زیورات۔
ماہرِ آثارِ قدیمہ کہتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں دیگر قیمتی اشیا کے ساتھ پومپے کی تجوری میں رکھی ہوئی تھیں اور ہمیں دیگر ماہرین کے ہمراہ انھیں دیکھنے کا موقع ملا۔
وہ کہتے ہیں کہ سونے کے سکّے اس وقت بھی ایسے چمک رہے تھے جیسے بالکل نئے ہوں، وہاں موجود سونے اور قدرتی موتیوں سے تیار کردہ جھمکے اور پتھروں سے بنے گلے کے ہاروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ اشیا کسی کے ذاتی استعمال میں تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہمیں ایسی اشیا ملتی ہیں تو قدیم اور جدید زمانوں کے درمیان فاصلہ کم ہو جاتا ہے اور ہم آتش فشاں کے پھٹنے کے سبب ہلاک ہونے والے لوگوں کی زندگیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو چھو سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر صوفی اس گھر میں کھدائی کے درمیان ملنے والے حماموں کو ’صدی میں ایک بار ہاتھ آنے والی دریافت‘ قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس سے ہمیں روم کی قدیم زندگیوں میں موجود سیاہی کا بھی پتا چلتا ہے۔
اس گرم حمام کے بالکل پیچھے ایک بوائلر روم تھا جہاں سے ایک پائپ کے ذریعے پانی سڑک سے اندر کی طرف آ رہاتھا۔ وہاں موجود پانی کے والو ایسے تھے جنھیں آج بھی کھولا اور بند کیا جا سکتا ہے۔
جتنی کالک اور سیاہی وہاں موجود ہے اسے دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ نظام کام کر رہا ہوتا ہوگا تو اس کمرے میں رہنا غلاموں کے لیے ناقابلِ برداشت ہی ہوتا ہوگا۔
ڈاکٹر صوفی مزید کہتی ہیں کہ ’اس کھدائی کے دوران ہمیں جس چیز میں سب سے زیادہ فرق نظر آیا وہ غلاموں اور رئیس افراد کا رہن سہن تھا۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عیش و عشرت میں زندگی گزارنے کے لیے شاندار حمام بنائے گئے ہیں اور دوسری جانب بوائلر روم ہے جہاں غلام پورے دن آگ بھڑکا رہے ہوتے ہوں گے۔‘
’ان دو مختلف جہانوں کو صرف ایک دیوار کے ذریعے تقسیم کیا گیا تھا۔‘
اب یہاں جاری کھدائی اپنے اختتامی ہفتوں میں داخل ہو چکی ہے اور یہاں موجود راکھ کو ہٹاتے وقت نئی دریافتیں اب بھی ہو رہی ہیں۔ یہاں چونکہ کھدائی کا کام جاری ہے اس لیے یہاں صرف محدود تعداد میں ہی لوگوں کو رسائی دی جاتی ہے، لیکن جب یہاں کام مکمل ہو جائے گا تو اس مقام کو عام عوام کے لیے بھی کھول دیا جائے گا۔
اس کھدائی کے عمل کی نگرانی کرنے والی ڈاکٹر انا اونیسٹی کہتی ہیں کہ ’یہاں ہر دن ہمارے لیے نیا سرپرائز لے کر آتا ہے۔‘
’کبھی میں یہاں یہ سوچ کر آتی ہوں کہ آج ہمیشہ کی طرح نارمل دن ہوگا لیکن اس وقت پھر ہمیں کچھ غیرمعمولی چیز مل جاتی ہیں۔ یہ مقام پومپے میں زندگی کے جادوئی لمحات کی عکاسی کرتا ہے اور یہاں ہونے والے کھدائی کے کام کے سبب ہم یہ سب عام عوام کو بھی دکھا پائیں گے۔ ‘