منگل کو نیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملک ریاض ’عدالتی مفرور‘ ہیں اور ساتھ یہ تنبیہ بھی کی کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔ تو کیا نیب قانونی طور پر شہریوں کو کسی غیر ملکی رہائشی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری سے روک سکتا ہے؟
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا شمار پاکستان کی ان بااثر کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں دونوں میں اہم لوگوں سے رابطے رکھتے ہیں۔
حکومتیں بدلتی رہیں لیکن ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن پھلتا پھولتا رہتا تھا لیکن گذشتہ چند برسوں میں پاکستان کی اس بااثر کاروباری شخصیت کے قسمت کے ستارے گردش میں ہیں۔
منگل کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ملک ریاض ’عدالتی مفرور‘ ہیں اور ساتھ یہ تنبیہ بھی کی گئی کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو ’منی لانڈرنگ‘ تصور کیا جائے گا۔
ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور نیب کا کہنا ہے کہ ’حکومتِ پاکستان قانونی چینلز کے ذریعے ملک ریاض کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات سے رابطہ کر رہی ہے۔‘
کیا نیب قانونی طور پر شہریوں کو کسی غیرملکی رہائشی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری سے روک سکتا ہے اور کیا ملک ریاض کو قانونی راستوں کے ذریعے عرب امارات سے پاکستان لایا جا سکتا ہے؟
ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ملک میں طاقتور ترین شخصیت سمجھے جانے والے ملک ریاض کے ستارے گردش میں کیسے آئے؟
’ملک ریاض گواہی نہیں دے گا‘
گذشتہ روز نیب کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’نیب کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی اور نیو مری میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اراضی پر بھی ناجائز قبضہ کر کے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائیٹیز قائم کی ہیں اور وہ لوگوں سے دھوکہ دہی کے ذریعے بھاری رقم وصول کر رہے ہیں۔‘
نیب کے بیان میں لکھا ہے کہ ملک ریاض 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عدالت اور نیب دونوں کو مطلوب ہیں اور ان کو مفرور قرار دیا گیا۔
بظاہر یہ 190 ملین پاؤنڈ کیس ہی کاروباری شخصیت کے زوال کی وجہ نظر آتا ہے۔ یہ وہی مقدمہ ہے جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 14 برس اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سات سال قید کی سزا سُنائی گئی۔
قومی احتساب بیورو کا الزام ہے کہ یہ القادر یونیوسٹی کی زمین عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ملک ریاض کی جانب سے عطیہ نہیں کی گئی تھی بلکہ یہ ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک مبینہ خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جو 190 ملین پاؤنڈز کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس سوسائٹی کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔
گذشتہ برس احتساب عدالت نے اسی مقدمے میں ملک ریاض کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر انھیں اور ان کے بیٹے کو مفرور قرار دیا تھا اور پاکستان میں موجود ان کی جائیدادیں منجمند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
ملک ریاض نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا نام تو نہیں لیا لیکن سوشل میڈیا پر جاری ہونے والا ان کا بیان پڑھ کر یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ انھیں کسی مقدمے میں گواہی دینے کو کہا جا رہا ہے۔
ان کے طویل بیان کی پہلی سطر میں لکھا تھا کہ ’میرا کل بھی یہ فیصلہ تھا، آج بھی یہ فیصلہ ہے کہ چاہے جتنا مرضی ظلم کر لو، ملک ریاض گواہی نہیں دے گا۔‘
انھوں نے نیب کی جانب سے جاری بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان ’بلیک میلنگ کا نیا مطالبہ‘ ہے۔
ان کے اس بیان میں کہیں ایک دھمکی بھی چھپی تھی کہ ’میں ضبط کر رہا ہوں لیکن دل میں ایک طوفان لیے بیٹھا ہوں، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ یہ مت بھولنا کہ پچھلے 30، 35 سال کے سب راز ثبوتوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔‘
دبئی میں ملک ریاض کا تعمیراتی منصوبہ کیا ہے؟
بحریہ ٹاؤن کی سوسائیٹیز اور دیگر منصوبے پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور نوابشاہ میں موجود ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کی ویب سائٹ کے مطابق ریئل سٹیٹ کمپنی دبئی ساؤتھ میں رہائشی اور تجارتی تعمیرات پر مشتمل ایک بڑا پروجیکٹ شروع کر چکی ہے جو کہ المکتوم ایئرپورٹ کے قریب واقع ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق بحریہ ٹاؤن دبئی میں ایک بنگلے کی قیمت ڈھائی کروڑ سے 50 کروڑ روپے تک ہے جبکہ وہاں پلاٹ کی قیمت ڈیڑھ کروڑ سے لے کر 10 کروڑ روپے تک ہے۔
بحریہ ٹاؤن کی ویب سائٹ کے مطابق غیرملکی شہری بھی دبئی میں اس کے منصوبے میں پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔
'پاکستان، انڈیا، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم افراد اپنی رجسٹریشن کروا کر دبئی جیسے خوبصورت شہر میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع حاصل کر سکتے ہیں۔'
نیب کو اس پر کیا اعتراض ہے؟
بی بی سی اردو نے نیب کے ایک ترجمان سے پوچھا کہ کیا دبئی میں ملک ریاض کا نیا پروجیکٹ غیرقانونی ہے اور کیا ان کا ادارہ قانونی طور پر پاکستانی شہریوں کو اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری سے روک سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ ’چونکہ ملک ریاض پر پاکستان میں فراڈ کا الزام ہے اس لیے وہ دبئی میں بھی فراڈ کر سکتے ہیں۔‘
’ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ایک مفرور ملزم کے پروجیکٹ کے لیے پیسہ یہاں سے جا رہا ہے اور یہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔‘
بی بی سی نے بحریہ ٹاؤن میں حکام سے بات کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نیب کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ بڑی عجیب بات ہے کہ نیب کی جانب سے پریس ریلیز جاری ہونے کے باوجود دبئی میں پروجیکٹ لانچ کیے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے عدالت کی جانب سے ملک ریاض کو مفرور قرار دیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اپنا دفاع کر سکتے تو آپ کورٹ کے سامنے کھڑے ہوتے 190 ملین پاؤنڈ کے کرپشن کیس میں بھی، آپ کورٹ کے سامنے کھڑے ہوتے دوسرے کیسز میں بھی۔‘
تاہم ماضی میں نیب کے ساتھ بطور ڈپٹی پراسیکیوٹر منسلک رہنے والے والے وکیل منصف جان کہتے ہیں کہ پاکستانی شہریوں کی قانونی ذرائع کے ذریعے بحریہ ٹاؤن دبئی یا کسی اور غیر ملکی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو قانونی طور پر منی لانڈرنگ نہیں کہا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی پاکستانی دبئی میں رہتا ہے، وہیں کماتا اور وہاں ہی سرمایہ کاری کرتا ہے تو یہ منی لانڈرنگ نہیں۔ اگر کوئی پاکستان میں مقیم شہری قانونی طریقے کے ذریعے ٹیکس ادا کرنے کے بعد قانونی طریقے سے سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اسے بھی منی لانڈرنگ نہیں قراد دیا جا سکتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ صرف اس صورت میں اسے منی لانڈرنگ کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے غیرقانونی طریقہ کار جیسے کہ حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے باہر پیسے بھیجے گئے ہوں۔
ملک ریاض نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں اس پروجیکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’اب تک درجنوں ملکوں سے سرمایہ کار دبئی میں آنے والے بحریہ ٹاؤن کے منصوبوں میں مثالی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘
کیا ملک ریاض کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان لانا ممکن ہے؟
نیب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے کی جانب سے حوالگی کے لیے عمل شروع کر دیا گیا ہے اور ملک ریاض کی باضابطہ حوالگی کے لیے بہت جلد درخواست کی جائے گی۔
ماضی میں نیب کے ساتھ بطور ڈپٹی پراسیکیوٹر منسلک رہنے والے والے وکیل منصف جان کہتے ہیں کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں حوالگی کا معاہدہ تو موجود ہے لیکن ’کسی ملزم کی حوالگی ایک انتہائی تھکا دینے والا عمل ہوتا ہے۔‘
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ انکوائری کے دوران تو انٹرپول کے ذریعے کسی ملزم کو پاکستان لایا جاسکتا ہے لیکن جب عدالت کسی کو مفرور قرار دیتی ہے تو اس کے بعد ریڈ وارنٹ جاری کرنا پڑتا ہے۔
'یہ دو ممالک کے درمیان ایک پیچیدہ معاملہ ہے، اس عمل میں سفارت خانے شامل ہوتے ہیں اور آپ کے ملک کے سفارت خانے کو دوسرے ملک کی حکومت سے بات کرنی ہوتی ہے اور پھر دوسرے ملک کی پولیس کو اس میں شامل کر کے ملزم کو گرفتار کرنا پڑتا ہے۔‘
منصف جان کے مطابق ماضی میں متعدد مقدمات میں ملوث ملزمان کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان لایا جا چکا ہے۔ ان کے مطابق ان میں سے متعدد مقدمات لوگوں کے علم میں ہیں اور دیگر ملزمان ایسے بھی ہیں جن کے مقدمات کو منظرِ عام نہیں لایا گیا۔