’چیلیاں والا‘ کی غیرفیصلہ کُن لیکن خونیں جنگ: برطانوی قبضے کے خلاف پنجاب کی آخری مزاحمت جس میں انگریز فوج سکھ توپوں کا شکار ہوئی

سکھ توپچیوں کو حکم تو تھا ابھی خاموش رہنے کا لیکن برطانوی سپہ سالار سرہیو گف کو اپنے سامنے دیکھا تو گولے چلائے بغیر نہ رہ سکے۔
چیلیاں والا جنگ
Getty Images

سکھ توپچیوں کو حکم تو تھا خاموش رہنے کا لیکن برطانوی سپہ سالار سرہیو گف کو اپنے سامنے دیکھا تو وہ گولے داغے بغیر نہ رہ سکے۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی پچھلے 80، 85 برسوں کے دوران ہندوستان کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر چکی تھی اور پنجاب میں مہاراجا رنجیت سنگھ کی ملتان، کشمیر، لداخ اور پشاور تک پھیلی سلطنت سنہ 1839 میں اُن کی موت کے بعد اس کا اگلا ہدف تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے سندھ پر سنہ 1843 میں قبضہ کرنے کے بعد سکھوں کے خلاف پہلی جنگ (1845-46) بھی جیت لی۔ پنجاب ایک ’سپانسرڈ سٹیٹ‘ بن گیا اور دریائے ستلج کے جنوب میں واقع سکھ سلطنت کے بعض علاقے براہ راست کمپنی کے کنٹرول میں آ گئے۔

محقق مارک رائٹ لکھتے ہیں کہ ’کئی سکھ رہنما اور عام سپاہی اپنے جرنیلوں سے مایوس تھے۔ اُن کے مطابق سکھ جرنیلوں نے اپنی مستقبل کی حیثیت کے پیش نظر جنگوں میں جارحانہ حکمت عملی اختیار نہیں کی۔‘

’بہت سوں کا ماننا تھا کہ چونکہ پہلی جنگ میں فیروز شاہ اور سبراؤں جیسی لڑائیوں میں انگریزوں نے بھاری نقصان اٹھایا تھا، اس لیے دوسری جنگ میں کامیابی کے اچھے امکانات موجود تھے۔‘

دوسری اینگلو، سکھ جنگ اپریل 1848 میں ملتان میں دو برطانوی افسران، ولیم اینڈرسن اور ریزیڈنٹ پیٹرک وینز ایگنیو کے قتل کے بعد شروع ہوئی تھی۔

ملتان کے سابق گورنر ملراج چوپڑا مزاحمت کے رہنما بن گئے اور یہاں کا قلعہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے سخت چیلنج ثابت ہوا۔ اس صورتحال میں مزاحمت اب پنجاب میں پھیل رہی تھی اور ایک بڑی جنگ ناگزیر لگ رہی تھی۔

سکھ توپوں کی انگریز فوج کے سپہ سالار پر گولہ باری

ستمبر، اکتوبر 1848 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے پنجاب میں دو بڑی فوجیں روانہ کیں: ایک ملتان کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اور دوسری لاہور کے شمال میں مزاحمت کو کچلنے کے لیے۔

ایک فوج 13 جنوری 1849 کی دوپہرتک وہ برطانوی سپہ سالار سرہیوگف کی قیادت میں جہلم دریا کے جنوب میں کئی میل تک پھیلے ایک گھنے جنگل کے قریب پہنچ چکی تھی جہاں امریندر سنگھ کے مطابق (اب لاہور کے شمال میں پاکستان کے ضلع منڈی بہاء الدین کے) انھیں ایک چھوٹی پہاڑی پر واقع چیلیاں والا گاؤں میں شیر سنگھ اٹاری والا کی سربراہی میں ایک مضبوط سکھ گھڑ سوار اور پیادہ فوج دکھائی دی۔

اپنی کتاب ’دی لاسٹ سن سیٹ‘ میں امریندر سنگھلکھتے ہیں کہ سکھ فوج کو ایک جنگل نے ڈھانپا ہوا تھا جس میں بیری، ڈھاک، شیشم اور کیکر کے درخت موجود تھے۔ شیر سنگھ کی ترتیب ایسی تھی کہ گف کے پاس سکھوں کی مضبوط مورچہ بندی کے خلاف براہ راست حملے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ بچا تھا۔

’گف نے میدان جنگ کا جائزہ لینے کے بعد حملہ اگلی صبح تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کر کے اپنے عملے کو اس کے مطابق احکامات دے دیے تھے، مگر تب سکھ توپوں نے انگریز فوج کے سپہ سالار کو سامنے دیکھ کر گولے اُگلنا شروع کر دیے۔

گف نے اب حملہ اگلی صبح تک ملتوی کرنے کی بجائے فوراً کرنے کا فیصلہ کیا۔

’دونوں جانب سے توپوں کی گولہ باری ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ برطانوی فوج جو مکمل طور پر پوزیشن سنبھال چکی تھی اس کے رکنے کا انتظار کرتی رہی۔‘

سہ پہر 3 بجے گف نے سکھوں پر سنگینوں کے ساتھ حملے کا حکم دیا۔

جارج بروس نے اپنی کتاب ’سکس بیٹلز فار انڈیا‘ میں اسے ایک الجھی ہوئی غیر فیصلہ کُن لیکن خونی جنگ قرار دیا ہے۔

چیلیاں والا جنگ
Getty Images

بریگیڈیئر پینیکیوک اور اُن کے بیٹے کا قتل

گف کی جانب سے حکام بالا کو بھیجے گئے ایک ڈسپیچ کے مطابق لڑائی کے دوران اُن کا واحد عمل یہ تھا کہ انھوں نے بریگیڈیئر پینی کی بریگیڈ کو بریگیڈیئر پینیکیوک کی بریگیڈ کی مدد کا حکم دیا، جسے سکھوں نے بُری طرح نقصان پہنچا کر پیچھے دھکیل دیا تھا۔

امریندر سنگھ لکھتے ہیں کہ دونوں برطانوی ڈویژن کمانڈرز اپنی فوج سے رابطہ کھو بیٹھے اور نتیجتاً بریگیڈز کا کنٹرول بھی ختم ہو گیا۔

گیلبرٹ نے اپنی ڈویژن کو سکھوں کے بائیں جانب بڑھایا کیونکہ للیانی گاؤں کی سمت جنگل میں زیادہ بہتر دکھائی دیتا تھا، جس سے اُن کو اپنی ڈویژن کا کنٹرول برقرار رکھنے میں مدد ملی۔

’اپنی ڈویژن سے رابطے میں نہ رہتے ہوئے، گف جنگل اور چیلیاں والا کے درمیان بھاری توپوں کے ساتھ موجود رہے، جنگ کی پیش رفت کو دیکھنے سے قاصر لیکن اپنے جرنیلوں کے لیے دستیاب ، جو ان کے مقام سے واقف تھے۔‘

’چیلیاں والا کے بائیں جانب، پینیکیوک اپنی بریگیڈ کو لے کر عطار سنگھ کے مخالف جنگل میں داخل ہوئے۔ تاہم جنگل اتنا گھنا تھا کہ لائن کو برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا اور کمپنیاں چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو گئیں۔‘

’سکھ توپیں مسلسل آگ برسا رہی تھیں۔ اُن کا سب سے زیادہ شکار بنی 24ویں رجمنٹ نے اپنی رفتار بڑھا دی۔ سب سے پہلے پہنچنے والی گرینیڈئر کمپنی کو بیدردی سے کاٹ دیا گیا۔ جب وہ بالآخر توپوں تک پہنچے تو توپچیوں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔ یہاں ایک بار پھر سنگین نے فیصلہ کُن کردار ادا کیا اور توپیں بالآخر قبضے میں لے لی گئیں۔‘

اسی دوران بریگیڈیئر پینیکیوک کو گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہو گئے۔ اُن کا بیٹا، جو حال ہی میں سینڈہرسٹ سے گریجویٹ ہوا تھا، اپنے والد کی لاش پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑا ہو گیا، لیکن بعدازاں وہ بھی قتل ہو گیا۔

توپوں پر حملوں کے بعد چیلیاں والا واپسی کا حکم

24ویں رجمنٹ نے ایک سنگین غلطی کی اور اپنی پوزیشن مضبوط کرنے سے پہلے توپوں کو ناکارہ بنانے پر توجہ مرکوز کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سکھ انفنٹری نے بندوق اور تلوار کے ساتھ جوابی حملہ کیا اور توپوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔

25ویں نیشنل انفنٹری کی دو بٹالینز، جن میں سے ایک نے 24ویں کے حملے کے فوراً بعد اپنی کارروائی شروع کی تھی، بھی روک دی گئیں اور جنگل میں واپس بلا لی گئیں۔ 45ویں رجمنٹ بھی سکھ توپوں کی پوزیشن تک پہنچ گئی لیکن بریگیڈ کے پیچھے ہٹنے پر وہ بھی پیچھے ہٹ گئی۔

61 ویں رجمنٹ نے بار بار فائرنگ کی، گھڑ سواروں کو منتشر کیا اور توپوں پر حملہ کیا، جنھیں انھوں نے حاصل کر کے ناکارہ بنا دیا۔ 36ویں رجمنٹ کا سامنا سکھ انفنٹری سے ہوا اور وہ شکست کھا کر جنگل میں پیچھے ہٹ گئی، اس دوران میں اپنے کلرز بھی کھو دیے۔ بائیں جانب 46ویں رجمنٹ توپوں کی پوزیشن تک پہنچی اور سکھ گھڑسواروں کے حملے کو کامیابی سے پسپا کر دیا۔

جنرل کیمبل نے ایک ’سکھ توپچی کو تلوار سے مار دیا، لیکن خود بھی ایک تلوار کے وار سے زخمی ہو گئے۔‘

’جیسے ہی اندھیرا چھایا، ماؤنٹین اور ہوگن کی بریگیڈز، وائٹ کی گھڑ سوار بریگیڈ کی مدد سے، سکھوں کے مورچے پر اپنی جگہ مضبوط کر چکی تھیں۔ اُن کے سامنے موجود سکھ فوج، جن کا پیچھا کرنل لین کی توپوں نے کیا، رسول کی گھاٹیوں میں غائب ہو گئی۔‘

’جنگ ختم ہو چکی تھی اور سورج غروب ہو چکا تھا۔‘

گف نے رات کے لیے سکھ مورچوں پر قبضہ برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ شیر سنگھ رات میں اِن مورچوں پر دوبارہ قابض نہ ہو جائیں۔ سکھوں کو شدید نقصان پہنچا تھا لیکن اُن کی فوج محفوظ تھی اور اب وہ اپنی اصل دفاعی لائن کے انتہائی بائیں جانب موجود تھی۔

تاہم گف کے دونوں ڈویژنل کمانڈروں نے اس فیصلے کی مخالفت کی کیونکہ اُن کے سپاہی شدید پیاس کا شکار تھے اور پانی صرف چیلیاں والا میں دستیاب تھا۔ اس لیے انھوں نے چیلیاں والا واپس جانے کا مشورہ دیا، جسے گف نے بادلِ نخواستہ قبول کر لیا اور سختی سے کہا ’میں اس وقت تک حرکت نہیں کروں گا جب تک کہ میرے زخمی محفوظ نہ ہوں۔‘

زخمیوں کو واپس لانے کے بعد انھوں نے چیلیاں والا واپسی کا حکم دیا۔ اُس رات شیر سنگھ نے اپنی وہ توپیں اٹھا لیں جو پیچھے رہ گئی تھیں اور جنھیں ناکارہ نہیں بنایا گیا تھا۔

ساڑھے تین گھنٹے لڑی گئی اسلڑائی میں، گف کے 706 فوجی ہلاک ہوئے اور 1651 زخمی۔ سکھوں کو بھی شدید نقصان پہنچا لیکن ان کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ 13 سکھ توپیں قبضے میں لی گئیں۔

جنرل الہٰی بخش نے شیر سنگھ کو چھوڑ کر ہتھیار ڈال دیے

اگلی صبح گف جب ہلکی بارش میں اپنی فوج کے سامنے سے گزرے تو سپاہیوں نے اُن کا پرتپاک استقبال کیا۔ لیکن برطانیہ میں شور مچ اٹھا۔ حکومت پر دباؤ ڈالا گیا اور گف کو برطرف کر دیا گیا اور سر چارلس نیپیئر کو اُن کی جگہ تعینات کر دیا گیا۔

چونکہ خبریں دیر سے پہنچی تھیں چنانچہ گف کو اپنی برطرفی کا علم نہیں تھا جب وہ 14 جنوری کو جنگ کے اگلے دن، سکھ دفاعی پوزیشنوں کا جائزہ لینے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔

جن توپوں کو وہ واپس لینے کی توقع کر رہے تھے وہ شیر سنگھ نے رات بھر میں کہیں اور منتقل کر دی تھیں اس لیے وہ لاشوں اور جنگ کے ملبے کو دیکھ کر مطمئن ہو گئے۔

امریندر سنگھ لکھتے ہیں کہ اگلے تین دن گف نے تیز بارش کے درمیان اپنے آپشنز پر غور کیا۔ وہ بے یقین تھے کہ آیا وہ فوراً شیر سنگھ پر حملہ کریں یا ملتان سے فوج کی کمک کے پہنچنے تک انتظار کریں۔

حفاظتی تدبیر کے طور پر انھوں نے اپنے کیمپ کے اردگرد گہری خندق کھودنے کا حکم دیا تاکہ اگر شیر سنگھ حملہ کریں تو وہ تیارہوں۔

شیر سنگھ کی شمال سے آنے والی کمک، جس کی قیادت ان کے والد چتر سنگھ کر رہے تھے، کسی بھی دن اس کے ساتھ مل سکتی تھی، جس سے گف بچنا چاہتے تھے۔

تیسرے دن افغان لباس میں ایک قدآور شخصیت گف کے کیمپ پر آئی۔ وہ پشاور بریگیڈ کے سکھ توپ خانے کے جنرل الہٰی بخش تھے جنھوں نے شیر سنگھ کو چھوڑ کر گف کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا۔

انھوں نے گف کو بتایا کہ ’شیر سنگھ ایک مضبوط پوزیشن پر ہیں اور وہ اسے دفاعی طور پر مضبوط بنا چکے ہیں۔ اس لیے انھوں نے رسول پر حملے کی مخالفت کی۔‘

یوں گف نے ملتان سے کمک کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔

چیلیاں والا جنگ
Getty Images

20 ہزار بندوقیں اور 41 توپیں برطانوی فوج کے حوالے

دودن بعد جب چتر سنگھ اپنے 6,000 فوجیوں کے ساتھ شیر سنگھ کے کیمپ میں داخل ہوئے تو انھیں 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔

امریندر سنگھ کے مطابق گف کا خیال تھا کہ شیر سنگھ کے لیے رسول میں ہمیشہ کے لیے رکنا مشکل ہو گا جب تک کہ ان کے پاس اضافی اناج اور چارہ نہ ہو۔

جنوری کے آخر تک شیر سنگھ نے گف کو رسول پر حملہ کرنے کی طرف لانے کی کوشش کی۔ لیکن گف نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔

22 جنوری 1849 کو شدید جنگ کے بعد ملتان فتح ہوا۔ مُلراج نے مذاکرات کے بعد ہتھیار ڈال دیے اور انھیں عمر قید دی گئی۔

ملتان سے نمٹنے کے بعد جنرل وِش اپنی فوج کے ساتھ شمال کی طرف بڑھے اور گجرات کی فیصلہ کن جنگ کے لیے گف کی فوج سے جا ملے۔

مارک کارٹرائٹ لکھتے ہیں کہ چیلیاں والا کی جنگ کے نتیجے میں جنرل گف کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں سر چارلس نیپیئر سے بدل دیا گیا۔

تاہم جب نیپیئر ہندوستان پہنچے تب تک گف گجرات کی فیصلہ کن جنگ پہلے ہی جیت چکے تھے۔

امریندر سنگھ کے مطابق اگلے ماہ دریائے سواں کے بائیں کنارے پر شیر سنگھ، چتر سنگھ اور دیگر سرداروں اور سکھ فوج کے افسران نے باضابطہ طور پر ہتھیار ڈالے اور اپنی تلواریں اور 17 توپیں انگریزوں کے حوالے کر دیں۔

دو روز بعد ایک میدان میں شیر سنگھ کی فوج کے سپاہی بٹالین کی صورت میں گزرے، ہر ایک اپنے ہتھیار زمین پر رکھتے ہوئے۔

مجموعی طور پر تقریباً 20,000 بندوقیں اور 41 توپیں برطانویوں کے حوالے کی گئیں۔

تمام سرداروں اور افسران کو جنگی قیدی بنا لیا گیا جبکہ سپاہیوں کو ایک روپیہ دے کر اپنے اپنے گاؤں واپس جانے کی اجازت دی گئی۔

چتر سنگھ اور شیر سنگھ کو دیگر قیدیوں کے ساتھ شمالی وسطی ہندوستان کے علاقے فتح گڑھ میں قید میں رکھا گیا۔ کچھ عرصے بعد انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا لیکن اپنے گاؤں واپسی پر انھوں نے سورج گرہن کے موقع پر برہمنوں کو کھانا کھلایا، جسے لاہور انتظامیہ نے ضمانت کی خلاف ورزی سمجھا اور انھیں دوبارہ گرفتار کر کے جلاوطن کر دیا گیا۔

دونوں 1858 میں جلاوطنی کے دوران ایک ہی سال میں وفات پا گئے۔

برطانوی فوج
Getty Images
برطانوی سپہ سالار سرہیو گف

چیلیاں والا جنگ نے برطانوی فوج کو ٹھیس پہنچائی

پنجاب کو 30 مارچ 1849 کو برطانوی سلطنت میں شامل کر لیا گیا۔ لیکن چیلیاں والا جنگ پر تنقید جاری رہی۔

گو دونوں فریقوں کے فتح کے دعوؤں کے باوجود چیلیاں والا لڑائی فیصلہ کن ثابت نہ ہوئی تھی لیکن اس جنگ نے برطانوی فوجی قوت کے وقار کو گہری ٹھیس پہنچائی۔

اس جنگ کو جارج بروس نے اپنی کتاب ’سکس بیٹلز فار انڈیا‘ میں ایک الجھی ہوئی، غیر فیصلہ کن لیکن خونی جنگ قرار دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’کوئی بھی مربوط بیان موجود نہیں۔ تمام بیانات کسی نہ کسی حد تک مبہم اور غیر واضح تفصیلات میں چھپے ہوئے ہیں۔ سبز جھاڑیوں میں سرخ وردیوں کی جھلک، الجھن اور غیر یقینی، توپوں کی گھن گرج، سنگینوں اور تلواروں کا مستقل ٹکراؤ، اور دست بدست لڑائی کرتے فوجیوں کی چیخ پکار۔‘

لیفٹیننٹ ولیم ہاڈسن نے جنوری 1848 میں لکھا کہ ’ہمارا نقصان شدید تھا اور انتظام نہایت شرمناک۔ لیکن پھر بھی اسے فتح قرار دیا جائے گا اور خوب سراہا جائے گا۔۔۔ افسران جسمانی سے زیادہ ذہنی طور پر شکست خوردہ ہو چکے ہیں۔‘

بعدازاں سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کا کہنا تھا کہ ’چیلیاں والا کی جنگ ایک نہایت شدید اور مایوس کن معرکہ تھا۔‘

’چیلیاں والا کو یاد رکھنا‘ سنہ 1857 کے ہنگامے میں ایک جنگی نعرہ اور خون آلود علامت بن گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.