یہ کہانی گھومتی ہے نیوگتی راجوکے نامیایک گاؤں کے گرد جس کے لیےلاکھوں روپے کی گرانٹ حاصل کرتے وقت اس کا حدود اربعانڈیا کی ریاست پنجاب کے سرحدی ضلع فیروز پور میں دکھایا گیا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس نام کا کوئی گاؤں درحقیقت پنجاب میں موجود ہونا ثابت نہیں ہے
پاکستان میں رہتے ہوئے آپ میں سے بیشتر افراد ’گھوسٹ سکولز‘ کے سکینڈلز سے تو واقف ہوں گے تاہم آج ہم آپ کو بتاتے ہیں ایک ایسے گاؤں کی کہانی جسے کاغذوں میں دکھا کے لاکھوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کا اجرا تو کیا گیا مگراس گاؤں کا وجود کرۂ ارض پر موجود ہی نہیں۔
یہ کہانی گھومتی ہے نیوگتی راجوکے نامی ایک گاؤں کے گرد جس کے لیے لاکھوں روپے کی گرانٹ حاصل کرتے وقت اسے انڈیا کی ریاست پنجاب کے سرحدی ضلع فیروز پور میں دکھایا گیا تھا۔
لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس نام کا کوئی گاؤں درحقیقت پنجاب میں موجود ہونا ثابت نہیں ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے ذریعے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق انڈیا اور پاکستان کی سرحد سے متصل علاقے میں ایک گاؤں گتی راجوکے موجود ہے تاہم کاغذات میں اہلکاروں نے مبینہ طور پر ’جعلی گاؤں نیو گتی راجوکے‘ ظاہر کر کے اس کے نام پر لاکھوں روپے کی گرانٹ جاری کروا لی۔
یہ جعلسازی اس وقت کھلی جب پیر اسماعیل خان نامی گاؤں کی کمیٹی کے سابق رکن اور آر ٹی آئی ممبر گرودیو سنگھ نے آر ٹی آئی ایکٹ کے ذریعے اس بارے میں معلومات حاصل کیں۔
گرودیو سنگھ کہتے ہیں کہ انھیں گذشتہ کئی سالوں سے فنڈز میں مبینہ گھپلے پر شک ہو رہا تھا۔
گرودیو سنگھ کے مطابق ان معلومات کی روشنی میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ مبینہ طور پر اعلیٰ حکام کی ملی بھگت سے گتی راجوکے نام سے ایک نیا گاؤں بنایا گیا ہے لیکن درحقیقت اس کا کوئی وجود نہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس معاملے کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
آر ٹی آئی میں موجود انکشافات
اس بات میں تو شک نہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے بارڈر کے نزدیک ایک گاؤں گتی راجوکے پایا جاتا ہے تاہم دوسرا گاؤں نیو گتی راجوکے کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ کاغذوں کے علاوہ کہیں موجود نہیں ہے۔
آر ٹی آئی درخواست گزار گرودیو سنگھ کا دعویٰ ہے کہ نیو گتی راجوکے گاؤں نہ تو گوگل میپ پر نظر آتا ہے اور نہ ہی حقیقت میں اس کا وجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے نیوگتی راجوکے گاؤں کے بارے میں کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ 2013 میں کاغذات میں اس نام کا نیا گاؤں بنایا گیا تھا۔
کاغذات میں اس گاؤں کی سرپنچ امرجیت کور کو دکھایا گیا۔ تاہم اس سے زیادہ اس وقت نیوگتی گاؤں کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں تھا۔
گاؤں کے لیے لاکھوں کی گرانٹ
گرودیو سنگھ کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے اس گاؤں سے متعلق چھان بین کے لیے کئی مقامات پرپوچھ گچھ شروع کی تو وہاں موجود اہلکاروں نے انھیں دھمکیاں بھی دیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سنہ 2013 میں کاغذات پر اس گاؤں کو دکھایا گیا اور اس کے لیے 43 لاکھ انڈین روپے کی گرانٹ بھی جاری ہوئی لیکن اس گاؤں کی دور دور تک کہیں موجودگی کے ثبوت نہیں ملتے۔‘
گرودیو سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ’حاصل شدہ معلومات کے مطابق اس گاؤں میں 55 مختلف پروجیکٹ تیار کیے گئے ہیں جبکہ دیہی ترقیاتی سکیم کے تحت گاؤں کے لیے 141 ملازمت کارڈ بھی جاری کیے گئے۔‘
ان کے مطابق ’یہ کارڈ ان لوگوں کے نام پر بنائے گئے جو اس گاؤں میں نہیں رہتے۔ سرکاری کاغذات پر نیوگتی راجوکے میں 35 ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل ہوتے دکھائے گئے ہیں۔‘
نئی گتی اور نیوگتی میں مماثلت
جب بی بی سی پنجابی نے گتی راجوکے نامی گاؤں کے مکینوں سے بات کرنے کی کوشش کی تو بیشتر نے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کر دیا۔
یاد رہے کہ کاغذات میں جہاں جعلی گاؤں نیوگتی راجوکے دکھایا گیا ہے اس کے پڑوس میں گتی راجوکے گاؤں واقع ہے۔
گتی راجوکے کے کچھ لوگوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گاؤں کے لوگ نئی اور نیو کو ایک ہی لفظ سمجھ رہے تھے جبکہ درحقیقت نیوگتی گاؤں صرف کاغذات میں موجود تھا۔
نئی گتی راجوکے کے سابق سرپنچ لال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہمارا گاؤں نئی گتی راجوکے ہے، بہت سے لوگ جب نیو گتی راجوکے کہتے تھے تو ہمیں اس بارے میں معلوم نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے سوچا کہ یہ انگریزی کا لفظ ہے جسے ہم پنجابی میں نئی کہتے ہیں اور شاید اس کو انگلش میں لوگ نیوگتی راجوکے پکار رہے ہیں۔
سابق سرپنچ لال سنگھ نے بھی شکایت کنندہ پر سوالات اٹھائے ہیں۔
لال سنگھ نے الزام لگایا کہ ’ملازمین کو پتہ چل جائے گا کہ نیا اور نئی مسئلہ کیا ہے۔ شکایت کنندہ ہمارے گاؤں سے 10سے 12 کلومیٹر دور ایک گاؤں میں رہتا ہے اور جان بوجھ کر پیسے حاصل کرنے کا بہانہ بنا کر شکایت کرتا تھا۔‘
بی بی سی پنجابی کے ساتھی کلدیپ برار کے مطابق کچھ لوگوں نے یہاں تک کہا کہ حکومتی اہلکار بھی اس پر کارروائی کرنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ اعلیٰ سرکاری افسران کی مبینہ ملی بھگت اس میں شامل ہو سکتی ہے۔
انتظامیہ کیا کہتی ہے؟
بی بی سی پنجابی نے ضلعی انتظامیہ سے بات کر کے اس پورے معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
لیکن کوئی بھی افسر کیمرے پر آنے کو تیار نہیں تھا۔
جب ضلع کے اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر لکھویندر سنگھ سے فون پر بات کی گئی تو انھوں نے تصدیق کی کہ وہ پورے معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ’ہم تحقیقات کر رہے ہیں جس کے تحت محکمہ ریونیو سے ریکارڈ طلب کر لیا گیا ہے۔ ہمیں ابھی تک مکمل ریکارڈ نہیں ملا اورتحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی حتمی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔‘