سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب تک الزام نہ ہو تو آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جا سکتا، چارج فریم ہونا ضروری ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ اور پولیس کی ایف آئی اے میں چارج فریم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا۔
آئینی بینچ نے جسٹس منصور کے 13 اور 16 جنوری کے آرڈرز واپس لے لئے
جسٹس حسن اظہر نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں انکوائری کون کرتا ہے؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ چارج کے بعد انکوائری کمانڈنٹ آفیسر کرتا ہے، تفتیش کا مکمل طریقہ کار بتاؤں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ فرد جرم عائد کرنے کے بعد انکوائری کیسے کرتے ہیں؟ ایف آئی آر کیسے ہوتی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ الزام لگا دیتے ہیں، چارج اسی کے لیے لفظ استعمال ہوتا ہے، چارج کی بنیاد پر تفتیش کی جاتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جب تک الزام نہ ہو تو آرمی ایکٹ کا مرتکب نہیں کہا جاسکتا، چارج فریم ہونا ضروری ہے،جسٹس مسرت حلالی نے استفسار کیا کہ کیا دوران ٹرائل بھی چارج فریم ہوتاہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ چارج الگ ہوتاہے، دوران ٹرائل چارج فریم ہوتا ہے۔
خواجہ حارث سے جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں میں ججز یونیفارم میں ہوتے ہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ کورٹ مارشل میں ججز فوجی یونیفارم میں ہی ہوتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ یونیفارم فوجی افسر بطور جج کیسے غیرجانبدار ہو سکتا ہے؟ جس پر وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ یونیفارم تو آپ ججز نے بھی پہنا ہوا ہے، وزارت دفاع کے وکیل کے جواب پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
پیکا ایکٹ ترمیمی بل سینٹ سے منظور ، اپوزیشن اور صحافیوں کا احتجاج ، واک آئوٹ
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں کارروائی کا طریقہ دیگر عدالتوں سے مختلف ہے، ملزم سے تفتیش کے دوران گواہان بھی پیش کئے جاتے ہیں، ملزم گواہان پر جرح بھی کر سکتا ہے،
جتنی شفاف تحقیقات فوج میں ہوتی ہیں اتنی کہیں اور نہیں ہوتی، شفاف ٹرائل کیلئے شفاف تحقیقات بھی ضروری ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ طریقہ کار جتنا بھی اچھا ہو لیکن عملدرآمد کیلئے آزاد باڈی کا ہونا بہتر نہیں ہوگا؟ ملزمان کی تسلی نہیں ہوتی کہ الزام لگانے والے ہی ٹرائل کریں گے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کسی ملزم کا دل نہیں مانتا تو اس کیلئے قانون نہیں بدل سکتے، بعد ازاں آئینی بیچ نے کہا کہ کل صرف ملٹری کورٹس ہی سنیں گے، سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔