آسٹریلیا میں بچی کی موت پر والدین سمیت 14 افراد مجرم قرار: ’خدا شفا دے گا کے عقیدے نے بچی کو جینے کی حق سے محروم رکھا‘

عدالت کو بتایا گیا کہ ’سینٹس‘ نامی اس مذہبی گروپ نے طبی دیکھ بھال کی مخالفت کرتے ہوئے ایلزبتھ کے علاج کو روکے رکھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ خدا شفا دے گا۔
ایلزبتھ اپنی بہن جیڈ کے ساتھ
Jayde Struhs
ایلزبتھ اپنی بہن جیڈ کے ساتھ جنھیں اس مقدمے کی سماعت کے دوران گواہی کے لیے بلایا گیا تھا

آسٹریلیا میں ایک مذہبی گروپ کے 14 اراکین کو آٹھ سال کی ایک بچی کو جان سے مارنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

یہ بچی ذیابیطس کے مرض کا شکار تھی اور اسے تقریباً ایک ہفتے تک انسولین سے محروم رکھا گیا۔ سنہ 2022 میں ایلزبتھ سٹرہس کی گھر میں موت ہو گئی تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ’سینٹس‘ نامی اس مذہبی گروپ نے طبی دیکھ بھال کی مخالفت کرتے ہوئے ایلزبتھکے علاج کو روکے رکھا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ’خدا شفا دے گا۔‘

ایلزبتھ کے والد جیسن سٹرہس اور اس مذہبی گروپ کے سربراہ برینڈن سٹیونز کے خلاف قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی لیکن انھیں سزا غیر ارادی قتل کے ایک کم سنگین جرم میں ہوئی۔

ایلزبتھ کی والدہ اور بھائی سمیت دیگر 12 افراد کو بھی مجرم قرار دیا گیا تاہم سب نے صحبت جرم سے انکار کیا تھا۔

بدھ کے روز 500 صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس مارٹن نے کہا کہ اگرچہ یہ واضح ہے کہ ایلزبتھ کے والدین، چرچ کا ہر رکن اور دیگر ملزمان ان سے محبت کرتے تھے لیکن ان کے اقدام کی وجہ سے بچی کی موت ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ’اس پر شک نہیں کیا جا سکتا کہ ایلزبتھ کی پیار سے دیکھ بھال کی گئی تاہم صرف خدا شفا دے گا کے عقیدے کی وجہ سے اسے ایک ایسی چیز سے محروم رکھا گیا، جس کی بدولت وہ یقینی طور پر زندہ رہ سکتی تھی۔‘

اس کیس کی سماعت کوئنز لینڈ میں گذشتہ برس جولائی میں شروع ہوئی تھی اور سات ماہ تک جاری رہی۔

پراسیکیوٹرز نے 60 گواہان کو طلب کیا جنھوں نے اس حوالے سے تفصیلات فراہم کیں کہ کیسے ایک ’ذہین‘ بچی کو اپنے آخری دنوں میں تکلیف اٹھانا پڑی۔

پراسیکیوٹر کیرولین مارکو نے عدالت کو بتایا کہ ’وہ بہت کم بولتی تھی، ٹوائلٹ جانے کے لیے اسے مدد کی ضرورت ہوتی تھی، اسے قے ہوتی، وہ تھکن محسوس کرتی اور اکثر اپنا ہوش کھو بیٹھتی۔‘

اسی دوران اس مذہبی گروہ نے ایلزبتھ کے لیے دعا کی جو برسبین سے تقریباً 125 کلومیٹر مغرب میں ٹوووومبا میں رہتی تھیں۔

ایلزبتھ کی والدہ اور بھائی سمیت دیگر بارہ افراد کو بھی مجرم قرار دیا گیا
ABC News: Sharon Gordon
ایلزبتھ کی والدہ اور بھائی سمیت دیگر بارہ افراد کو بھی مجرم قرار دیا گیا

عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر کو بلانے کی کوشش نہیں کی گئی اور ایلزبتھ کی موت کے 36 گھنٹے بعد تک حکام کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا کیونکہ مذہبی گروپ کا خیال تھا کہ انھیں دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔

اس گروپ کے 14 افراد، جن کی عمریں 22 سے 67 برس کے درمیان ہیں، نے ایلزبتھ کے والد کو انھیں انسولین نہ دینے یا اسے روکنے کا مشورہ دیا تھا۔

پراسیکیوٹرز کے مطابق 53 برس کے جیسن سٹرہس اپنی اہلیہ کیری سٹرہس کے مقابلے میں بہت بعد میں چرچ کی جانب راغب ہوئے اور اس سے قبل وہ ایلزبتھ کو دوا دینے کی حمایت کرتے تھے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران جب ان کی باری آئی تو جیسن سٹرہس نے آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ عدالت کو بتایا کہ انھوں نے اور ایلزبتھ نے مل کر ’انسولین روکنے‘ پر اتفاق کیا تھا اور انھیں اب بھی یقین ہے کہ ان کی بیٹی کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’ایلزبتھ صرف سو رہی ہے اور میں اسے دوبارہ دیکھوں گا۔‘

مذہبی گروپ کے سربراہ برینڈن سٹیونز نے اپنے اقدام کو عقیدے پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع کیا اور مقدمے کی سماعت کو ’مذہبی ظلم و ستم‘ کے طور پر بیان کیا۔

جسٹس برنز نے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ دیکھا کہ جیسن سٹرہس اور سٹیونز کو قتل کا مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس جوڑے نے ایلزبتھ کو قتل کرنے یا اسے شدید جسمانی نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا۔

’ہمیشہ خوش رہنے والی اور دل کی صاف‘

ایلزبتھ کی بہن جیڈ، جو اپنے خاندان سے الگ رہتی ہیں، کو اسے مقدمے کی سماعت کے دوران گواہی کے لیے بلایا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس کیس کے نتائج سے خوش ہیں کیونکہ ایک آٹھ سالہ بچی نظام کا شکار ہوئی ہے۔‘

عدالت کے باہر جیڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہم آج یہاں صرف اس لیے ہیں کیونکہ ایلزبتھ کی حفاظت یا اسے اپنے ہی گھر میں انتہائی غیر محفوظ صورتحال سے نکالنے کے لیے جلد ہی کچھ نہیں کیا گیا تھا۔‘

عدالت کو بتایا گیا کہ جیڈ 16 برس کی عمر میں اس وقت اپنے والدین کے گھر سے چلی گئی تھیں جب انھوں نے اپنی شناخت ہم جنس پرست فرد کے طور پر ظاہر کی تھی۔

سنہ 2022 میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران جیڈ نے بتایا تھا کہ ’ایلزبتھ ہمیشہ خوش رہنے والی اور دل کی صاف بچی تھی۔‘

دوسرے گواہان کی طرح جیڈ نے بھی عدالت کو اس مذہبی گروہ کے سخت خیالات کے بارے میں آگاہ کیا۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ ایک بار پہلے بھی ایلزبتھ کی جان کو شدید خطرہ تھا۔

اپنی موت سے دو برس قبل ایلزبتھ کو ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا، اس کا وزن اس وقت صرف 15 کلوگرام تھا اور وہ کمزوری کی وجہ سے چل پھر بھی نہیں سکتی تھیں۔

ایلزبتھ میں ذیابیطس کی ٹائپ ون کی تشخیص ہوئی اور ان کے خاندان کو بتایا گیا کہ انھیں روزانہ کی بنیاد پر انسولین کے انجیکشن کی ضرورت ہو گی۔

اس واقعے کا الزام دونوں والدین پر عائد کیا گیا تھا تاہم جیسن سٹرہس نے مزید نرم سزا پانے کے لیے اپنی بیوی کے خلاف گواہی دی۔

انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی اہلیہ جو برسوں سے اس مذہبی گروپ کا حصہ تھیں، مذہبی وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کو طبی علاج فراہم کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ جب جیسن کی اہلیہ اپنی بیٹی کو انسولین نہ دینے کے جرم میں جیل میں سزا کاٹ رہی تھیں تو انھوں نے کچھ عرصے کے لیے ایلزبتھ کو انسولین دی تاہم مذہبی گروپ کے دیگر اراکین کی جانب سے دباؤ کے بعد انھوں نے انسولین دینا روک دی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.