کیا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مونیٹائزیشن کے لیے غیرملکی سموں کا استعمال قانونی ہے؟

image

اگر آپ پاکستان میں ٹک ٹاک کے صارف ہیں تو آج کل ایسے اشتہاروں کی بھرمار نظر آتی ہے جس میں مختلف انفلوئنسرز لوگوں کو برطانوی سم خریدنے پر قائل کر رہے ہیں۔

انفلوئنسرز کا کہنا ہے کہ نہ صرف ٹک ٹاک کا اکاؤنٹ مونیٹائز کیا جا سکتا ہے بلکہ آپ واٹس ایپ اور دیگر دو سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے لیے بھی اس نمبر کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ان ٹک ٹاک اکاؤنٹس پر لوگوں کو راتوں رات امیر ہونے کے لیے ایسی سمز خریدنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔ 

صرف یہی نہیں اگر آپ گوگل میں ’یو کے سم ان پاکستان‘ سرچ کریں تو ’او ایل ایکس‘ سے لے کر درجنوں ایسی ویب سائٹس سامنے آجاتی ہیں جو آپ کے گھر برطانوی موبائل سم پہنچانے کی خدمات فراہم کرتی ہیں۔

بدھ کو پنجاب کے شہر ملتان کے ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے ایک مسافر سے 6 ہزار برطانوی اور امریکی سمز قبضے میں لے کر اسے حراست میں لے لیا جبکہ ایف آئی اے اس سے مزید تفتیش بھی کر رہی ہے۔

برطانوی سمز کا کاروبار

انٹرنیٹ پر ایسے افراد کی بڑی تعداد ایسے کاروبار سے منسلک ہے جو برطانوی سمز پاکستان میں فروخت کر رہے ہیں۔ ایسے ہی کام سے منسلک دلدار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ دو سال سے یہ کام کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’برطانوی سم یہاں چل جاتی ہے، اور عام طور پر جیز اور زونگ کے سگنلز آتے ہیں۔

پاکستان میں ٹک ٹاک یوزرز اپنی پروفائل پر لائیو نہیں آسکتے کیونکہ یہ فیچر پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔‘

دلدار نے مزید کہا کہ ’لوگ سم خریدتے ہیں اور برطانیہ میں کسی دوست سے نیا اکاؤنٹ بنوا لیتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ برطانوی موبائل نمبر بھی منسلک کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا لائیو فیچر پھر پاکستان میں بھی چل جاتا ہے۔‘

پی ٹی اے کے مطابق اگر سم صارف کے نام پر نہیں تو وہ غیر قانونی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دلدار کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف یہی نہیں بلکہ جلد ہی ان کا نیا اکاؤنٹ مونیٹائز ہو جاتا ہے تو انہیں ساتھ ہی پے پال کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ٹک ٹاک پے پال کے ذریعے ادائیگی کرتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’مارکیٹ میں ان سمز کی طلب اتنی زیادہ ہے کہ ہمیں ہر روز نئے آرڈرز مل جاتے ہیں۔ میں ایک سم 3500 روپے میں فروخت کر رہا ہوں۔‘

پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے برطانوی سم ایک ہزار روپے سے چار ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے لیے زیادہ تر لوگ کیش آن ڈیلیوری پر کام کر رہے ہیں۔ اس کاروبار سے وابستہ ایک اور نوجوان یاسر جو ’او ایل ایکس‘ کے ذریعے برطانوی سمز فروخت کرتے ہیں نے بتایا کہ ’پاکستان میں وائز اور پے پال سمیت دنیا کی کئی کمپنیاں کام نہیں کرتیں۔‘

’لہٰذا فری لانسرز غیر ملکی سمز استعمال کر کے اپنے اکاؤنٹ کھول کر کام چلا رہے تھے لیکن ٹک ٹاک نے اب صورت حال بدل دی ہے اور اب ہر کوئی باہر کی سم خریدنا چاہتا ہے۔ میں 1500 روپے میں یہ سم فروخت کرتا ہوں۔‘

برطانوی سم ہی کیوں؟

پاکستان میں اس وقت جو سم سب سے زیادہ استعمال ہو رہی ہے وہ ایک برطانوی کمپنی جیف گیف کی ہے۔ اس کمپنی کی ویب یہ بتاتی ہے کہ آپ دنیا کے جس بھی حصے میں ہوں آپ آن لائن یہ سم خرید سکتے ہیں اور یہ سم آپ کے پتے پر بھی پہنچائی جاسکتی ہے۔

 کچھ عرصے تک تو یہ برطانوی کمپنی خود بھی پاکستان میں اپنی سم بھیجتی رہی ہے لیکن اب پاکستان کے لیے یہ سروس بند کر دی گئی ہے۔ اب لوگ خود یہ سم سمگل کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ 

ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کہتے ہیں کہ ’برطانوی کمپنی نے دنیا بھر میں موبائل آپریٹرز سے الحاق کر رکھا ہے اس لیے اس کی سم تقریباً ہر جگہ چلتی ہے۔‘

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ غیر ملکی سموں کے پھیلاؤ سے سکیورٹی خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ فوٹو: ایف آئی اے

’اس کی اصل وجہ تو سیاحوں کو رومنگ کی سہولت فراہم کرنا تھی لیکن مسابقت کی دوڑ میں انہوں نے اس کو اتنا آسان کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں اس نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘

برطانوی سم قانونی یا غیر قانونی؟

پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے نگران ادارے پی ٹی اے کے مطابق ’کوئی بھی شخص صرف وہی سم اپنے فون میں چلانے کا مجاز ہے جو اس کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔‘

پی ٹی اے کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ کوئی بھی سم چاہے وہ ملک کی ہو یا باہر کی اگر وہ آپ کے نام پر نہیں تو وہ غیر قانونی تصور ہو گی۔‘

سرفراز چوہدری نے بتایا کہ ’پاکستان میں بڑے بڑے نیٹ ورکس وجود میں آچکے ہیں جو یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ ملتان ایئرپورٹ پر جو کارروائی ہوئی ہے وہ اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ ایک ٹِپ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔‘

’ہم نے چار ایسے گروہ پکڑے ہیں جو سمز کا غیر قانونی کاروبار کر رہے ہیں۔ اب تک کی ہماری معلومات کے مطابق کچھ افراد برطانیہ میں بیٹھ کر اس کام کی سرپرستی کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے جتنی بھی سمیں پکڑی ہیں وہ سب فعال تھیں اور انہیں برطانیہ سے ایکٹیویٹ کر کے لایا گیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل ٹک ٹاک کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس سارے کام کی شروعات پیسہ کمانے کے لالچ سے ہوئی ہے۔ یہ سمیں رومنگ پر چلائی ہی نہیں جاتیں۔‘

’اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے خطیر رقم ڈالنا پڑتی ہے اور پاؤنڈز میں ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ یہ صرف سوشل میڈیا ایپس کی رجسٹریشن کے ایس ایم ایس وصول کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔‘

پاکستان میں برطانوی سم ایک ہزار روپے سے چار ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ فوٹو: روئٹرز

ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری نے مزید بتایا کہ ’اب جس بڑے پیمانے پر اِن سموں کا پھیلاؤ  ہو رہا ہے اس سے سکیورٹی کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سمیں برطانیہ سے عارضی طور پر ایکٹیویٹ کروانے کے بعد پاکستان لائی جاتی ہیں جس کے بعد ان کا سٹیٹس رومنگ پر چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ کسی کے نام پر رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتیں۔

 تاہم پاکستانی حکام ابھی تک اس کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کر پائے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فری لانسرز کی بڑی تعداد بھی ان سمز کو استعمال کر رہی ہے جو ڈالر میں ریوینیو بیرون ملک سے پاکستان لا رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.