جب روس نے خلا میں بڑا آئینہ نصب کر کے زمین کو روشن کرنے کا منصوبہ بنایا

یہ جیمز بانڈ کی فلم کے کسی ولن کے شیطانی منصوبے کی طرح لگتا ہے جس میں ولن دنیا میں اپنی دھاک جمانے کے لیے خلا میں ایک دیو قامت آئینہ نصب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن روس کا خیال تھا کہ اس سے نہ صرف زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے بلکہ رات کو بھی کھیتی باڑی ممکن ہوگی۔
مشن جو کامیاب نہ ہو سکا
BBC
زمین کے تاریک حصوں کو روشن کرنے کا منصوبہ

یہ جیمز بانڈ کی فلم کے کسی ولن کے شیطانی منصوبے کی طرح لگتا ہے جس میں ولن دنیا میں اپنی دھاک جمانے کے لیے خلا میں ایک دیو قامت آئینہ نصب کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی شعائیں استعمال کرتے ہوئے زمین پر کسی بھی ہدف کو نشانہ بنایا جا سکے۔

4 فروری 1993 کو روس کی خلائی ایجنسی روسکوسموس نے اسی طرز کے منصوبے پر کام شروع کیا لیکن اس کا مقصد کچھ اور تھا۔

روسی پروگرام زنمیا (جس کا مطلب روسی زبان میں بینر ہے) کسی گھناؤنی سازش کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس کے ذریعے دنیا کو بلیک میل کرنا چاہتے تھے۔

بی بی سی ٹوماروز ورلڈ کے میزبان کیٹ بیلنگھم نے زنمیا کے لانچ سے پہل اپنے پروگرام میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس پروگرام کا بنیادی مقصد ’سردی کے تاریک مہینوں میں سائبیریا کے آرکٹک شہروں کو روشن کرنا ہے۔ بنیادی طور پر، یہ ایسا تھا جیسے روس کے قطبی علاقوں میں رات ڈھلنے کے بعد سورج کو دوبارہ آن کرنے کی کوشش کی جائے۔‘

اگرچہ آج بھی یہ تصور انوکھا لگتا ہے لیکن زمین پر روشنی ڈالنے کے لیے خلا میں آئینے کا استعمال کرنے کا خیال دراصل کوئی نیا نہیں۔

سنہ 1923 میں جرمنی کے راکٹ کے شعبے کے نقیب ہرمن اوبرتھ نے ایسا ہی ایک آئیڈیا اپنی کتاب ’دی راکٹ ٹو پلینیٹری سپیس‘ میں پیش کیا تھا۔ ان کی کتاب ایک پی ایچ ڈی کے مقالے پر مبنی تھی جسے ہائیڈلبرگ یونیورسٹی نے انتہائی ناقابل عمل لگنے کی بنیاد پر اسے مسترد کر دیا تھا جسے بعد میں اوبرتھ نے خود شائع کیا تھا۔

انھوں نے اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ راکٹ زمین کے مدار سے کیسے باہر جا سکتا ہے۔

ان کی کتاب میں جو تصورات پیش کیے گئے تھے ان میں خلائی سفر کے انسانی جسم پر ممکنہ اثرات اور سیٹلائٹ کو مدار میں لانچ کرنے کے طریقے کے علاوہ خلا میں ایک شیشہ لگانے کا تصور پیش کیا گیا تھا جو سورج کی روشنی کو زمین کسی مقام پر منعکس (ریفلیکٹ) کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

اوبرتھ کا کہنا تھا کہ یہ روشنی آفات کو روکنے اور امدادی کاموں میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اس کے ذریعے 1912 میں ٹائٹینک کو ڈوبنے سے بچانے یا اس حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔

اوبرتھ کا مزید کہنا تھا کہ خلا میں لگے اس آئینے کا استعمال آئس برگ (برف کے تودوں) کو پگھلا کر جہاز رانی کے راستے کو صاف کرنے یا زمین کا موسم تبدیل کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی جرمن سائنسدانوں نے خلا میں آئینہ لگانے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ نازی ہتھیاروں کے ایک تحقیقاتی مرکز میں سائنسدانوں نے ایک ہتھیار بنانے کی کوشش کی جسے جرمن زبان میں ’سونن گیوہر‘ یا سن گن کہا گیا۔

سنہ 1945 میں ٹائم میگزین میں شائع ہونے والی رپورٹس میں بتایا گيا کہ پکڑے گئے جرمن سائنسدانوں نے امریکی فوج کے تفتیش کاروں کو بتایا کہ سونن گیوہر کو استعمال کرتے ہوئے سورج کی روشنی کو شہروں میں آگ لگانے یا جھیلوں میں پانی کو ابالنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

اتحادی قوتوں کے ٹیکنیکل انٹیلی جنس کے چیف لیفٹیننٹ کرنل جان کیک نے اُس وقت نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ جرمن سائنسدانوں کو یقین تھا کہ ان کی سن گن اگلے 50 سالوں میں قابل عمل ہو سکتی تھی۔

جرمن نژاد راکٹ انجینیئر ڈاکٹر کرافٹ ایہرک دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کی وی-2 راکٹ ٹیم کا حصہ تھے۔

جنگ کے اختتام پر انھوں نے ہتھیار ڈال دیے جس کے بعد امریکہ کی جانب سے انھیں آپریشن پیپر کلپ کے تحت بھرتی کیا گیا۔ اس آپریشن کے تحت 1600 سائنسدانوں، انجینیئروں اور تکنیکی ماہرین کو نہ صرف مقدمات سے بچایا گیا بلکہ انھیں جرمنی سے نکال کر امریکہ میں اپنا کام کو جاری رکھنے کی اجازت بھی دی گئی۔ ان افراد کے بارے میں حکام کا خیال تھا کہ یہ امریکہ کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

ایہرک امریکی خلائی پروگرام کا حصہ بن گئے، اور سنہ 1970 کی دہائی میں انھوں خلا میں آئینہ بنانے کے خیال پر دوبارہ سوچنا شروع کر دیا۔

سنہ 1978 میں انھوں نے ایک مقالہ لکھا جس میں انھوں نے یہ بتایا کہ کیسے زمین کے مدار میں چکر لگانے والے دیوہیکل آئینے سورج کی روشنی سے رات کو دن میں بدل سکتے ہیں جس سے کسانوں کو 24 گھنٹے کھیتی باڑی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آئینے کے ذریعے سورج کی روشنی کو زمین پر سولر پینلز پر منعکس کیا جا سکتا تاکہ ضرورت کے تحت انھیں بجلی میں تبدیل کیا جا سکے۔ انھوں نے اسے پاور سولیٹا کا نام دیا۔

ایہرک بچپن سے خلائی سفر کے شوقین اور دوسرے سیاروں پر آبادیاں بسانے کے طویل عرصے سے حامی تھے لیکن سنہ 1984 میں پاور سولیٹا کو کامیاب ہوتے دیکھے بغیر وفات پا گئے۔

لیکن ان کی خلائی سفر کی خواہش موت کے بعد 1997 میں اس وقت پوری ہوئی جب سٹار ٹریک کے خالق جین روڈن بیری اور 1960 کی دہائی کے ماہر نفسیات ٹموتھی لیری کے ساتھ ایہرک کی باقیات کو مدار میں لے جایا گیا۔

1980 کی دہائی کے دوران ناسا نے سورج کی روشنی کا استعمال کرتے ہوئے شمسی توانائی پیدا کرنے کے آئیڈیا پر بارہا کام کرنے کی کوشش کی۔

حکومتی دلچسپی کے باوجود سولارس نامی خلا میں گردش کرنے والے آئینے کے نظام کے اس منصوبے کو کبھی فنڈ نہیں مل سکے۔

اسی دوران روس میں خلا میں سولر آئینہ لگانے کا خیال جڑ پکڑ گیا۔

خلائی جہازوں کو سولر بادبانوں سے چلانے کا خیال

اس زمانے میں روسی سائنسدان ولادیمیر سیرومیاتنیکوف اس بات کی تحقیقات کر رہے تھے کہ آیا ایسے بادبانوں کو خلائی جہاز سے منسلک کیا جا سکتا ہے جن پر بڑے سولر شیشے لگے ہوں۔

سیرومیاتنیکوف کا شمار کامیاب خلائی انجینئروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے انسانوں کو لے جانے والے پہلے خلائی جہاز ووستوک راکٹ پر کام کیا تھا۔ یہ وہ جہاز تھا جو سنہ 1961 میں سوویت خلاباز یوری گگارین کو خلا میں لے کر گیا۔

اس کا استعمال جولائی 1975 میں اپالو-سویوز ٹیسٹ پروجیکٹ میں کیا گیا جو کہ سرد جنگ کے دشمنوں امریکہ اور یو ایس ایس آر کی پہلی مشترکہ خلائی پرواز تھی۔اس پروجیکٹ کے تحت تین خلابازوں کو لے جانے والے امریکی ماڈیول کو سوویت سویوز کیپسول سے کامیابی کے ساتھ منسلک کیا گیا۔ روسی کیپسول جس میں دو خلاباز سوار تھے۔ انھوں خلائی جہازوں کے ڈاکنگ کا نظام بھی بنایا تھا جسے اینڈروجینس پیریفیرل اسمبلی سسٹم (اے پی اے ایس) کہا جاتا ہے۔

ان کے بنائے گئے اے پی اے ایس کو بعد میں امریکی شٹلوں کو روسی میر خلائی سٹیشن کے ساتھ ڈاک کرنے کے قابل بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ سسٹم آج بھی بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر ڈاکنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

سیرومیاتنیکوف نے سوچا کہ اگر سولر پر یا بادبان کسی خلائی جہاز سے منسلک کر دیے جائیں تو وہ سورج کی روشنی کو اسی طرح استعمال کر سکتے ہیں جیسے بحری جہازوں کے بادبان ہوا کو استعمال کرتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اگر ان سولر پروں کو صحیح زاویے پر لگایا جائے تو سورج سے آنے والی توانائی کے ذرات فوٹون ان آئینوں سے ٹکرا کر اور جہاز کو خلا میں دھیرے دھیرے آگے بڑھنے میں مدد دے سکتے ہیں اور اس میں کوئی ایندھن بھی خرچ نہیں ہوگا۔

لیکن سوویت دور کے اختتام کے بعد روس میں ایسے خلائی منصوبوں کے لیے فنڈز حاصل کرنا بہت مشکل ہو گیا جن کا بظاہر کوئی اقتصادی فائدہ نہ ہو۔

لہذا سیرومیاتنیکوف نے اپنے تصور میں تھوڑی ردو بدل لانے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ مدار میں موجود خلائی جہاز پر لگے سولر پر یا بادبانوں کو کسی آئینے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ خلائی جہاز کے تھرسٹرز کی مدد سے انھیں سورج کی پوزیشن کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ اس آئینے کو روس کے قطبی علاقوں پر روشنی ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں سردیوں میں دن بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس آئینے کی مدد سے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے علاقوں کو روشن کیا جا سکتا ہے۔

ان کے خیال سے اس اضافی سورج کی روشنی سے دن کا دورانیہ بڑھ جائے گا اور کھیتوں کی پیداوار میں اضافہ ہو سکے گا۔ ان کا خیال تھا کہ اضافی سورج کی روشنی کی مدد سے علاقے میں بجلی کے استعمال کی لاگت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

انھیں لگا کہ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی حکومت حمایت کر سکتی ہے۔ بالآخر روس کی سرکاری کمپنیوں اور ایجنسیوں کے گروپ سپیس ریگاٹا کنسورشیم نے اس کی مالی معاونت شروع کی اور روسی خلائی ایجنسی روسکوسموس کی نگرانی میں سیرومیاتنیکوف نے زنمیا کے خیال کو حقیقت کا روپ دینے کا کام شروع کیا۔

زنمیا-1 کے نام سے پہلا پروٹوٹائپ بنایا گیا لیکن اسے خلا میں نہیں بھیجا گیا۔ اس کا تجربہ زمین پر ہی کیا گيا تاکہ سیرومیاتنیکوف اس میں آنے والے تکنیکی مسائل کو دور کر سکیں۔

پھر زنمیا-2 تیار کیا گيا اور یہ پہلا نمونہ تھا جسے مدار میں بھیجا گيا۔ اس کا آئینہ ایلومینیم زدہ مائیلر کی پتلی چادروں سے بنایا گیا۔ یہ ہلکا پھلکا مٹیریئل تھا جو بہت اچھے سے ریفلیکٹ کرتا تھا۔ اس مٹیریئل کے بارے میں خیال تھا کہ یہ خلا میں نامسائد حالات کے باوجود سلامت رہ سکتا ہے۔ اسے آٹھ حصوں میں کھلنے والے مرکزی ڈرم میکانزم سے دائرے کی شکل میں بنایا گيا۔ اس کی خوبی تھی کہ سینٹرفیوگل فورس کے ذریعے وہ اپنی شکل کو برقرار رکھ سکتا تھا۔

1992 میں بی بی سی کے میزبان بیلنگھم نے ٹی وی دیکھنے والوں کو بتایا کہ 'پرواز کے دوران ریفلیکٹر خلائی جہاز کے گرد مضبوطی سے لپٹا رہے گا اور اسے کھولنے کے لیے جہاز کو ایک چھتری کی طرح تیزی سے گول گھومنا پڑے گا۔'

انھوں نے بتایا کہ 'اس اونچائی پر محض 20 میٹر چوڑا ریفلیکٹر سورج کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوگا اور وہ زمین کے تاریک حصوں کو روشن کر پائے گا ۔'

سیرومیاتنیکوف کا منصوبہ ایک سے زیادہ بار زنمیا لانچ کرنے کا تھا اور ہر بار زنمیا میں پہلے سے بڑا آئینہ بھیجا جانا تھا جو زمین پر واپس آتے ہی جل جائے۔ ایسے میں روسی انجینئرز زنمیا کی کی کارکردگی کو جانچ سکتے اور اس کے ڈیزائن میں بہتری لا سکتے۔

اس کے بعد منصوبہ یہ تھا کہ 200 میٹر چوڑے ریفلیکٹر والے زنمیا کو مستقل طور پر خلا میں بھیجا جائے جو زمین کے گرد مدار میں چکر لگاتا رہے۔

چاند سے بھی زیادہ روشن

حتمی منصوبہ یہ تھا کہ خلا میں ایسے 36 دیوہیکل آئینوں کا ایک گرڈ ہو جو ایک ہی مقام پر روشنی منعکس کریں گے جبکہ سنگل ریفلیکٹر کو کسی مخصوص جگہ کو روشن کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

بیلنگھم نے ناظرین کو بتایا کہ خلائی ریفلیکٹر ایک فٹبال سٹیڈیم کے سائز کے علاقے کو روشن کر سکتا ہے جس سے سردیوں کی لمبی راتوں میں راحت مل سکے گی۔ اسی طرح ایک سے زیادہ ریفلیکٹرز روشنی کو ایک جگہ مرکوز کر سکیں ہیں جس سے زیادہ روشنی پیدا ہو گی اور کہیں زیادہ بڑے علاقے کو روشن کیا جا سکے گا۔ ایک اندازے کے مطابق ان آئینوں کا گرڈ چاند سے 50 گنا زیادہ روشنی کو منعکس کرنے اور 50 میل (90 کلومیٹر) تک کے علاقے کو روشن کرنے کے قابل ہو گا۔

27 اکتوبر سنہ 1992 کو یہ منصوبہ تیار ہوا اور بغیر عملے کا خلائی جہاز پروگریس ایم-15 قازقستان کے بائیکونور کاسموڈروم سے لانچ کیا گیا جس میں زنمیا-2 بھی تھا۔

جب کارگو سپلائی کرافٹ روسی خلائی سٹیشن میر کے ساتھ جا کر لنگرانداز ہوا تو عملے نے پروگریس خلائی جہاز پر ریفلیکٹیو چادروں پر مشتمل ڈرم کو فٹ کیا۔

زنمیا-2 کا تجربہ سال کے آخر میں ہونا تھا لیکن اس کی تعیناتی میں تاخیر ہوئی کیونکہ خلائی سٹیشن کے عملے نے دیگر آنے والے مشنوں کے لیے ٹیسٹ بھی کرنے تھے۔ بہر حال 4 فروری 1993 کو وہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے۔

خود مختار پروگریس خلائی جہاز کو خلائی سٹیشن سے الگ کیا گیا اور جب وہ میر سے تقریبا 150 میٹر کے فاصلے پر تھا تو اس نے گھومنا شروع کر دیا اور آئینہ ایک دیو ہیکل پنکھے کی طرح گھومنے لگا۔ اس آئینے نے نے سورج کی کرنوں کو زمین پر منعکس کرنا شروع کر دیا۔

منعکس ہونے والی روشنی تقریبا پورے چاند کی روشنی کے برابر تھی اور زمین پر اس کی روشنی تقریباً تین میل (5 کلومیٹر) کے رقبے پر پڑ رہی تھی۔ زمین پر پڑنے والا روشنی کا وہ ٹکڑا پانچ میل فی سیکنڈ (8 کلومیٹر فی سیکنڈ) کی رفتار سے جنوبی فرانس سے سوئٹزرلینڈ، جرمنی اور پولینڈ سے ہوتا ہوا مغربی روس تک گیا۔ میر پر موجود عملے نے روشنی کی ایک ہلکی سی کرن کو اس وقت دیکھا جب وہ یورپ سے گزر رہی تھی۔ اس دن براعظم کا زیادہ تر حصہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا تاہم اس کے باوجود زمین پر موجود کچھ لوگوں نے اس روشنی کی چمک کو دیکھا۔ چند گھنٹوں کے بعد آئینے نے خلا میں گھومنا بند کر دیا اور کینیڈا کے اوپر فضا میں دوبارہ داخل ہوتے ہی آئینہ جل گيا۔

بہر حال روس میں زنمیا-2 کے تجربے کو ایک تکنیکی کامیابی کے طور پر سراہا گیا۔ لیکن اس سے پروجیکٹ کو لاحق چند اہم چیلنجز بھی واضح ہو گئے۔ ایک تو یہ کہ زنمیا-2 کی روشنی توقع سے کم ثابت ہوئی اور دوسرا یہ کہ وہ زمین کے ایک بڑے علاقے کے لیے عملی روشنی فراہم کرنے سے قاصر تھی۔

خلا میں زنمیا-2 کو مستحکم رکھنا بھی کافی مشکل تھا اور اس کی سپاٹ لائٹ کا زمین کی سطح پر تیز رفتاری سے سفر اور فوری طور پر جل جانے نے اس کے حقیقی دنیا میں استعمال کو محدود کر دیا۔

لیکن مشن کے حوصلہ افزا نتائج کو دیکھتے ہوئے سیرومیاتنیکوف نے اپنے تجربے پر از سر نو غور کیا اور زنمیا-2.5 پر کام کرنا شروع کیا۔ اس بار اس میں انھوں نے 25 میٹر کا آئینہ لگانے کا فیصلہ کیا حو اندازے کے مطابق پانچ سے 10 چاند کے جتنی روشنی دیتا اور پانچ میل (8 کلومیٹر) کے علاقے کو روشن کرتا۔

ان کا ارادہ تھا کہ منعکس ہونے والی روشنی کی سمت کو کنٹرول کیا جائے تاکہ زمین کے گرد چکر لگاتے ہوئے آئینہ کئی منٹ تک زمین پر ایک ہی جگہ پر روشنی دے سکے۔

اس بار شمالی امریکہ کے دو شہروں کو آئینے کے ذریعے سورج کی کرن سے روشن کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس تجربے کو 24 گھنٹے تک چلنا تھا۔ اس دوران اس کی روشنی یورپ کے کئی شہروں پر پڑتی۔

سیرومیاتنیکوف اپنی ٹیم کی پیشرفت سے بہت خوش تھے اور دوبارہ لانچ کے لیے اکتوبر 1998 کا انتخاب کیا گیا۔ انھوں نے جولائی سنہ 1998 میں ماسکو ٹائمز کو بتایا: 'ہم اس میدان میں پیش رو ہیں۔ اگر تجربہ منصوبے کے مطابق رہا تو ہم مستقبل میں مستقل بنیادوں پر مزید درجنوں دستے خلا میں بھیجینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔'

زمین پر واپس

لیکن زنمیا 2.5 کے خلا میں چھوڑے جانے سے پہلے ہی روسی خلائی حکام کو شکایات موصول ہونے لگیں۔ ماہرین فلکیات نے خدشہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ آئینے کے رات کے آسمان کو روشن کرنے سے ان کی دوربینوں پر اثر پڑے گا اور ستاروں کے نظارے دھندلا جائیں گے۔

رائل اسٹرونومیکل سوسائٹی نے اس تجربے کے بارے میں خلائی ریگاٹا کنسورشیم کے ڈائریکٹر جنرل سے احتجاج کیا۔ ماہرین ماحولیات نے خدشات کا اظہار کیا کہ اس کی مصنوعی روشنی جانوروں اور پودوں کے لیے الجھن کا باعث بن سکتی ہے، جنگلی حیاتیات اور فطرت کے نظام میں خلل ڈال سکتی ہے۔

ان اعتراضات کے باوجود زنمیا پروجیکٹ کو عالمی سطح پر کافی پذیرائی ملی۔

سیرومیاتنیکوف نے ماسکو ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا: 'ذرا غور کریں کہ یہ بنی نوع انسان کے مستقبل کے لیے کیا معنی رکھتا ہے۔ مزید بجلی کے بل نہیں ہوں گے، طویل اور تاریک سردیوں سے چھٹکارا۔ یہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم پیش رفت ہے۔'

بالآخر ‌زنمیا 2.5 کی لانچ پر منصوبے کے مطابق عملدرآمد کا فیصلہ ہوا۔ ماسکو سے اس مشن کو کنٹرول کیا جانا تھا اور اس بڑے خلائی آئینے کو 5 فروری 1999 کو خلا میں تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔

ابتدا میں سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا، تہہ کیے ہوئے خلائی آئینےکو پروگریس کے ساتھ منسلک کیا گیا اور یہ میر سے بغیر کسی رکاوٹ کے باہر نکل کر آ گیا۔

اس نے باآسانی خلائی سٹیشن سے دور اپنی پوزیشن لے لی، پروگریس کے تھرسٹرز چلائے گئے اور اس نے لپٹے ہوئے آئینے کو کھولنے کے لیے گھومنا شروع کیا۔

بدقسمتی سے اسی وقت غلطی سے پروگریس کو ایک اضافی کمانڈ دے دی گئی۔ خلائی جہاز کو وہ اینٹینا تعینات کرنے کا حکم دے دیا گیا جس سے وہ ڈاکنگ کے وقت رابطہ قائم کرتا تھا۔ جیسے ہی اینٹینا بڑھا زنمیا 2.5 کی پتلی چادریں اس میں پھنس گئیں۔

جب خلائی سٹیشن سے الجھے ہوئے آئینے کی فوٹیج آئی تو ماسکو میں مشن کنٹرول نے اسے مایوسی سے دیکھا اور انٹینا کو پیچھے کرنے کے احکامات بھیجے۔ لیکن تب تک کئی گز آئینے کے ورق اس کے گرد لپٹ چکے تھے اور آئینہ کئی جگہوں سے پھٹ گیا تھا۔ چادروں کے مزید پھٹ جانے کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے اینٹینا بند کرنے کے احکامات روک دیے گئے۔ ایک گھنٹے بعد دوبارہ آئینے کو آزادانہ طور پر گھمانے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

جب مشن کنٹرول کو یقین ہو گیا کہ زنمیا 2.5 کا پھٹا ہوا اور ٹوٹا ہوا آئینہ اب کھولا نہیں جا سکتا تو انھوں نے اسے زمین پر گرنے کی اجازت دے دی۔ اگلے دن یہ بحر الکاہل کے اوپر فضا میں داخل ہوتے ہی جل گیا۔ ماسکو میں مشن کنٹرول کے ترجمان ویلری لِنڈن نے اس وقت بی بی سی کو بتایا: 'یہاں کا ماحول بہت افسردہ ہے۔'

اس روز صرف زنمیا 2.5 زمین پر گر کر تباہ نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ ہی سیرومیاتنیکوف کے سپیس مرر پروجیکٹ کا مستقبل کا خواب بھی چکنا چور ہر گیا۔

ان کا زنمیا 3 بنانے کا منصوبہ بھی ختم ہو گيا جو سنہ 2001 میں لانچ ہونا تھا اور جس میں 70 میٹر چوڑا آئينہ لگایا جانا تھا۔ انھیں اس کے لیے فنڈز نہیں مل سکے۔

سیرومیاتنیکوف کو اپنی نسل کے نمایاں خلائی انجینیئروں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ بالآخر وہ سنہ 2006 میں اپنے شمسی بادبانوں اور آئینے کو خلا میں کامیابی کے ساتھ بھیجنے کے خوابوں کو دیکھے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

لنڈین نے سنہ 1999 میں بی بی سی کو بتایا کہ 'ناکامی کافی تکلیف دہ تھی کیونکہ اس تجربے نے دنیا بھر میں دلچسپی پیدا کی تھی۔ ہم روسی خلائی پروگراموں کے پرانے اصول کہ پہلے کچھ کریں اور اس کے بعد ہی اس پر فخر کریں کو شاید بھول چکے ہیں۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.