پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کا پاکستان کے مختلف شہروں میں غیرملکی سموں کی غیرقانونی خرید و فروخت کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ایف آئی اے سائبر کرائم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر وقار الدین سید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’پاکستان میں موبائل سمز کے غیرقانونی استعمال کے ذریعے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف قسم کے سائبر کرائمز کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔‘سائبر کرائم انویسٹی گیشن ٹیموں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ’برطانیہ کی سمیں اس کے لیے زیادہ مقبول ہیں۔ اب تک 44 ملزمان کو گرفتار کرکے آٹھ ہزار 363 انٹرنیشنل سمز برآمد کی گئی ہیں۔ یہ سمیں مارکیٹوں میں آسانی سے دستیاب ہیں، ان کی پری ایکٹیویشن اور سستے نرخ ہیں۔‘وقار الدین سید نے بتایا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹِک ٹاک، انسٹا گرام، فیس بُک وغیرہ بھی آن لائن آرڈر دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ سمیں ہوائی اڈوں کے ذریعے آنے والے مسافروں کے ذریعے غیرقانونی طور پر پاکستان لائی جاتی ہیں۔برطانوی سمز کا کاروبارانٹرنیٹ پر برطانوی سمز پاکستان میں فروخت کرنے کے کاروبار سے بہت سے افراد وابستہ ہیں۔ ایسے ہی کام سے منسلک دلدار نے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’وہ دو برس سے یہ کام کر رہے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’برطانوی سِم یہاں چل جاتی ہے، اور عام طور پر جیز اور زونگ کے سگنلز آتے ہیں۔ پاکستان میں ٹک ٹاک یوزرز اپنی پروفائل پر لائیو نہیں آ سکتے کیونکہ یہ فیچر پاکستان میں دستیاب نہیں ہے۔‘دلدار نے مزید کہا کہ ’لوگ سم خریدتے ہیں اور برطانیہ میں کسی دوست سے نیا اکاؤنٹ بنوا لیتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ برطانوی موبائل نمبر بھی منسلک کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کا لائیو فیچر پھر پاکستان میں بھی چل جاتا ہے۔‘اپنی بات جاری رکھتے ہوئے دلدار کا مزید کہنا تھا کہ ’صرف یہی نہیں بلکہ جلد ہی ان کا نیا اکاؤنٹ مونیٹائز ہو جاتا ہے تو انہیں ساتھ ہی پے پال کی بھی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ٹک ٹاک پے پال کے ذریعے ادائیگی کرتا ہے۔‘’مارکیٹ میں ان سمز کی طلب اتنی زیادہ ہے کہ ہمیں ہر روز نئے آرڈرز مل جاتے ہیں۔ میں ایک سم 3500 روپے میں فروخت کر رہا ہوں۔‘
پاکستان میں برطانوی کمپنی جیف گیف کی سم سب سے زیادہ استعمال ہو رہی ہے (فائل فوٹو: فری پکس)
پاکستان میں انٹرنیٹ کے ذریعے برطانوی سم ایک ہزار روپے سے چار ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ اس کے لیے زیادہ تر لوگ کیش آن ڈیلیوری پر کام کر رہے ہیں۔ اس کاروبار سے وابستہ ایک اور نوجوان یاسر جو ’او ایل ایکس‘ کے ذریعے برطانوی سمز فروخت کرتے ہیں نے بتایا کہ ’پاکستان میں وائز اور پے پال سمیت دنیا کی کئی کمپنیاں کام نہیں کرتیں۔‘
’لہٰذا فری لانسرز غیر ملکی سمز استعمال کر کے اپنے اکاؤنٹ کھول کر کام چلا رہے تھے لیکن ٹک ٹاک نے اب صورت حال بدل دی ہے اور اب ہر کوئی باہر کی سم خریدنا چاہتا ہے۔ میں 1500 روپے میں یہ سم فروخت کرتا ہوں۔‘برطانوی سم ہی کیوں؟پاکستان میں اس وقت جو سم سب سے زیادہ استعمال ہو رہی ہے وہ ایک برطانوی کمپنی جیف گیف کی ہے۔ اس کمپنی کی ویب یہ بتاتی ہے کہ آپ دنیا کے جس بھی حصے میں ہوں آپ آن لائن یہ سم خرید سکتے ہیں اور یہ سم آپ کے پتے پر بھی پہنچائی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصے تک تو یہ برطانوی کمپنی خود بھی پاکستان میں اپنی سم بھیجتی رہی ہے لیکن اب پاکستان کے لیے یہ سروس بند کر دی گئی ہے۔ اب لوگ خود یہ سم سمگل کر کے استعمال کر رہے ہیں۔ ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چوہدری کہتے ہیں کہ ’برطانوی کمپنی نے دنیا بھر میں موبائل آپریٹرز سے الحاق کر رکھا ہے، اس لیے اس کی سم تقریباً ہر جگہ چلتی ہے۔‘
سوشل میڈیا کے کونٹنٹ کریئٹرز غیرملکی سموں کے ذریعے اپنے اکاؤنٹس مونیٹائز کرواتےہیں (فائل فوٹو: یکسابے)
’اس کی اصل وجہ تو سیاحوں کو رومنگ کی سہولت فراہم کرنا تھی لیکن مسابقت کی دوڑ میں انہوں نے اس کو اتنا آسان کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں اس نے ایک کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔‘
برطانوی سم قانونی یا غیر قانونی؟پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن کے نگران ادارے پی ٹی اے کے مطابق ’کوئی بھی شخص صرف وہی سم اپنے فون میں چلانے کا مجاز ہے جو اس کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔‘پی ٹی اے کا مزید کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ کوئی بھی سم چاہے وہ ملک کی ہو یا باہر کی اگر وہ آپ کے نام پر نہیں تو وہ غیرقانونی تصور ہو گی۔‘سرفراز چوہدری نے بتایا کہ ’پاکستان میں بڑے بڑے نیٹ ورکس وجود میں آچکے ہیں جو یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ ملتان ایئرپورٹ پر جو کارروائی ہوئی ہے وہ اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ ایک ٹِپ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔‘’ہم نے چار ایسے گروہ پکڑے ہیں جو سمز کا غیر قانونی کاروبار کر رہے ہیں۔ اب تک کی ہماری معلومات کے مطابق کچھ افراد برطانیہ میں بیٹھ کر اس کام کی سرپرستی کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے جتنی بھی سمیں پکڑی ہیں وہ سب فعال تھیں اور انہیں برطانیہ سے ایکٹیویٹ کر کے لایا گیا تھا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کل ٹک ٹاک کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس سارے کام کی شروعات پیسہ کمانے کے لالچ سے ہوئی ہے۔ یہ سمیں رومنگ پر چلائی ہی نہیں جاتیں۔‘
یہ سمیں برطانیہ سے عارضی طور پر ایکٹیویٹ کروانے کے بعد پاکستان لائی جاتی ہیں (فائل فوٹو: ایف آئی اے)
’اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لیے خطیر رقم کی پاؤنڈز میں ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ یہ صرف سوشل میڈیا ایپس کی رجسٹریشن کے ایس ایم ایس وصول کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔‘
سرفراز چوہدری نے مزید بتایا کہ ’اب جس بڑے پیمانے پر اِن سموں کا پھیلاؤ ہو رہا ہے اس سے سکیورٹی کے خدشات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔‘دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سمیں برطانیہ سے عارضی طور پر ایکٹیویٹ کروانے کے بعد پاکستان لائی جاتی ہیں جس کے بعد ان کا سٹیٹس رومنگ پر چلا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ کسی کے نام پر رجسٹرڈ بھی نہیں ہوتیں۔ تاہم پاکستانی حکام ابھی تک اس کی روک تھام کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کر پائے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ فری لانسرز کی بڑی تعداد بھی ان سمز کو استعمال کر رہی ہے جو ڈالر میں ریونیو بیرون ملک سے پاکستان لا رہے ہیں۔