وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی صوبائی وزیر زراعت علی حسن زہری کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور بات تلخ کلامی تک پہنچ گئی ہے۔دونوں رہنماؤں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ نے صوبائی سیاست میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان حالیہ اختلافات سرکاری ملازموں کی بھرتیوں اور افسران کے تقرر و تبادلوں پر پیدا ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ’گذشتہ روز وزیراعلٰی ہاؤس کوئٹہ میں ہونے والی ملاقات کے دوران علی حسن زہری نے اپنے پسندیدہ افسران کے تقرر و تبادلوں اور ملازمتوں میں ان کی ترجیحات شامل کرنے پر اصرار کیا۔ وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کے انکار اور ردعمل پر علی حسن زہری غصے میں آئے اور دونوں رہنماؤں کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔‘
’ملاقات کے دوران موجود پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مداخلت کی اور کشیدگی کم کرانے کی کوشش کی مگر علی حسن زہری ملاقات ادھوری چھوڑ کر وزیراعلٰی ہاؤس سے چلے گئے۔‘ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے جھگڑوں اور اختلافات کی خبروں پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے۔اردو نیوز نے علی حسن زہری کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے مسیجز اور کال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ’وزیراعلٰی خود نئی بھرتیوں کے عمل پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پشتون علاقوں، نصیرآباد اور سبی ڈویژن کے علاقوں کی آسامیوں پر ان کی مرضی سے بھرتیاں ہوں۔‘حکومتی ذرائع کے مطابق ’علی حسن زہری نے چند ماہ کی مدت میں حب کی خاتون ڈپٹی کمشنر اور اپنے سابقہ محکمے کے چار سیکریٹریوں سمیت درجنوں افسران کے تبادلے کرائے۔ آخر کار وزیراعلٰی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ یکطرفہ اور قواعد و ضوابط کے برخلاف فیصلے نہیں کر سکتے۔‘علی حسن زہری صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی سمجھے جاتے ہیں۔ وہ دو ماہ قبل پہلی بار کراچی سے متصل بلوچستان کے شہر حب سے بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ ان کی اہلیہ اور ہمشیرہ بھی بلوچستان سے سینیٹرز ہیں۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی جلال نورزئی سرفراز بگٹی کی پوزیشن کو مضبوط سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)
صوبائی اسمبلی کے رکن بننے سے پہلے علی حسن زہری کو بلوچستان کی موجودہ مخلوط حکومت میں پیپلز پارٹی کے سربراہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی سفارش پر مشیر برائے صنعت و حرفت مقرر کیا گیا تھا۔ اپنے دور میں انہوں نے لیڈا، جیڈا اور سمال انڈسٹریز جیسے محکموں اور اداروں میں سینکڑوں نئی ملازمتیں تخلیق کرائیں۔
جب الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں زیرِالتوا مقدمات کے فیصلوں کے نتیجے میں علی حسن زہری نے حب سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور باقاعدہ وزیر کا حلف اٹھایا تو کچھ دنوں بعد ان کا قلمدان بدل کر انہیں وزیر زراعت بنا دیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ علی حسن زہری چاہتے ہیں کہ ان کی گذشتہ وزارت میں تخلیق کی گئی نئی سرکاری ملازمتوں کی بھرتیاں ان کی مرضی کے مطابق کی جائیں۔تاہم وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے ان کی پچھلی وزارت سردار کوہیار خان ڈومکی کو سونپ دی اور علی حسن زہری کی ترجیحات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے پسندیدہ محکمہ صنعت و حرفت کے سیکریٹری کو بھی تبدیل کر دیا اور اس کی جگہ اپنی مرضی کا سیکریٹری لگا دیا۔اس طرح پہلے سے ناراض علی حسن زہری کے سرفراز بگٹی سے اختلافات شدت اختیار کر گئے۔دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات کا یہ پہلا موقع نہیں۔ دو ماہ قبل دسمبر میں بھی وزارت کا حلف اٹھاتے ہی علی حسن زہری نے صحافیوں سے بات چیت میں اپنے حلقہ انتخاب حب میں ترقیاتی فنڈز جاری نہ کرنے پر وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ان کا دعویٰ تھا کہ حب میں 400 فیکٹریاں گھٹ کر 22 رہ گئی ہیں، لیکن وزیراعلیٰ نے صرف تین کروڑ روپے جاری کیے، جبکہ انہوں نے 4 ارب روپے کے فنڈز کا مطالبہ کیا تھا۔علی حسن زہری نے یہ بھی کہا کہ اگر پیپلز پارٹی انہیں وزیراعلٰی بنانے کا فیصلہ کرے تو وہ یہ ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہیں۔ تاہم بعد میں جاری ہونے والے ایک وضاحتی بیان میں انہوں نے وزیراعلٰی سے اختلافات کی خبروں کو غلط قرار دیا۔اب ایک بار پھر دونوں رہنماؤں میں اختلافات اور کشیدگی کی خبروں کے بعد بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے اور اطلاعات ہیں کہ علی حسن زہری پارٹی کے اراکین اسمبلی اور رہنماؤں کو کراچی میں اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کیا صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی علی حسن زہری سرفراز بگٹی کے لیے کوئی سیاسی مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں؟ اس بارے میں سینیئر صحافی اور تجزیہ کار خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’بلوچستان جیسے شورش زدہ صوبے میں وزیراعلٰی کی تبدیلی محض سیاسی قیادت کے فیصلوں سے نہیں ہوتی، بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اس میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’سرفراز بگٹی کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہم آہنگی ان کی مضبوطی کی بنیادی وجہ ہے۔ فی الحال سرفراز بگٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں کوئی اتنی بڑی خرابی نہیں کہ ان کی کرسی خطرے میں پڑے۔‘بلوچستان کے سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار جلال نورزئی بھی سرفراز بگٹی کی پوزیشن کو مضبوط سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’پیپلزپارٹی کے ارکان کی اکثریت وزیراعلٰی کے ساتھ ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں جبکہ علی حسن زہری کو اتحادیوں اور نہ ہی دیگر حلقوں میں پذیرائی حاصل ہے۔‘خلیل احمد کے مطابق عام انتخابات کے فوری بعد بھی علی حسن زہری وزارت اعلٰی کے امیدواروں کی دوڑ میں شامل تھے لیکن الیکشن کے نتیجے میں تاخیر کی وجہ سے وہ اس دوڑ سے باہر ہو گئے۔’جب تقریباً الیکشن کے 10 11 ماہ بعد علی حسن زہری کی کامیابی کا نوٹیفکیشن آیا تب بھی یہ باتیں کی جا رہی تھیں کہ انہیں وزیراعلٰی بنایا جا سکتا ہے لیکن ان کی اسمبلی میں انٹری انتہائی پھیکی رہی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’جب زہری اپنی اسمبلی رکنیت کا حلف ہی درست طریقے سے نہ اٹھا سکیں تو لوگ جان گئے کہ ان میں نہ تو تقریر کی صلاحیت ہے، نہ صوبے کو چلانے کا تجربہ۔ ان کے مقابلے میں سرفراز بگٹی کی پوزیشن زیادہ مضبوط اور مستحکم ہے۔‘جلال نورزئی کا بھی یہ ماننا ہے کہ لاکھ اختلاف کے باوجود سرفراز بگٹی باصلاحیت ہیں وہی بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ لے کر چل رہے ہیں۔خلیل احمد کے مطابق علی حسن زہری کی انتخابی کامیابی بھی متنازع رہی، جس میں اعتراض اٹھا کہ ہزاروں ووٹ مسترد کر کے انہیں جتوایا گیا۔ یہ معاملہ اب بھی عدالتوں میں ہے یہ ایک تلوار ہے جو ان کے سر پر لٹکی ہوئی ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جاری اس سیاسی کشمکش میں آصف علی زرداری بظاہر علی حسن زہری کے حق میں نظر آتے ہیں۔خلیل احمد کے مطابق آصف زرداری سرفراز بگٹی کی بجائے علی حسن زہری کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس کا اظہار ان کے حالیہ دورہ چین سے بھی ہوتا ہے جس میں وہ وفد کے ساتھ جانے کے خواہش مند سرفراز بگٹی کو چھوڑ کر علی حسن زہری کو ساتھ لے گئے۔ان کا کہنا تھا کہ شاید وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کو اس بات کا بھی غصہ ہے۔’علی حسن زہری پر ’مہربانیوں‘ کو ناانصافی سمجھتے ہیں‘تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ گذشتہ برس ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں علی حسن زہری کی بہن کو سینیٹر بنایا گیا ۔ان کی اہلیہ پہلے ہی باپ پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹر ہیں۔ان کے مطابق پیپلز پارٹی کے دیرینہ کارکن زہری پر ’مہربانیوں‘ کو ناانصافی سمجھتے ہیں اور اس پر پیپلز پارٹی کے اندر علی حسن زہری کے خلاف خاموش احتجاج موجود ہے۔علی حسن زہری کا پس منظرخلیل احمد کا کہنا ہے کہ علی حسن زہری کا ماضی بھی تنازعات سے خالی نہیں۔ وہ سندھ کے نواب شاہ ضلع سے تعلق رکھتے ہیں جہاں وہ علی حسن بروہی کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ چند برس وہ پہلے کراچی سے متصل بلوچستان کے شہر حب آئے۔’علی حسن زہری پر کراچی اور سندھ میں زمینوں کے معاملات پر سنگین الزامات اور کئی مقدمات درج ہیں۔ ان کے خلاف اشتہاری نوٹسز بھی جاری کیے گئے۔‘دوسری جانب ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور آصف زرداری کی بہن فریال تالپور کے قریب سمجھے جانے والے علی مدد جتک کے بھی علی حسن زہری سے اختلافات ہیں۔علی مدد جتک چند ہفتے قبل عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اپنی صوبائی اسمبلی کی نشست اور وزارت زراعت کھو بیٹھے تاہم وزیراعلٰی سرفراز بگٹی اس کے باوجود وزارت زراعت کے معاملات میں علی مدد جتک کی رائے اور ترجیحات کا خیال رکھتے تھے۔علی مدد جتک پیپلز پارٹی کی قیادت کے دباؤ پر علی حسن زہری کو زراعت کی وزارت دینے پر ناخوش ہیں اس لیے وہ ان کے مقابلے میں سرفراز بگٹی کے حمایتی ہیں۔آصف علی زرداری بلوچستان حکومت سے ناراض کیوں ہیں؟اردو نیوز کے ذرائع کے مطابق بلوچستان حکومت اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کی کڑی آصف علی زرداری اور سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے درمیان تعلقات تک جاتی ہے۔ جہاں علی حسن زہری آصف زرداری کے انتہائی قریب سمجھے جانتے ہیں، وہیں سرفراز بگٹی سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے قریبی ساتھی ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ’چیف سیکریٹری بلوچستان کی تعیناتی سمیت بلوچستان حکومت کے کئی اہم فیصلے انوار الحق کاکڑ کی خواہش پر ہونے پر آصف زرداری ناراض ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں حکومت پیپلز پارٹی کی ہے تو پیپلز پارٹی کی قیادت کو زیادہ اختیارات ہونے چاہیے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے قریبی انوار الحق اور ان کے نزدیکی حلقوں کا خیال ہے کہ بلوچستان میں ان کی حمایت کے بغیر پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں بن سکتی تھی۔‘سینیئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار جلال نورزئی کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا علی حسن زہری کی ماضی میں کبھی شکست نہ کھانے والے مضبوط بھوتانی خاندان کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی یہ سب کسی کی ’دین‘ ہے۔