بلوچستان حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی مقامی قیادت کے درمیان شدید اختلافات کا پارٹی کی مرکزی قیادت نے نوٹس لیتے ہوئے بلوچستان کے تمام ایم پی ایز، ایم این ایز، سینیٹرز اور اہم رہنماؤں کو کراچی طلب کیا جہاں ان کی شکایات کو سنا گیا۔پیپلز پارٹی کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ارکان کی اکثریت نے وزیراعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی پر اعتماد کا اظہار کیا، تاہم صوبائی وزیر زراعت علی حسن زہری اور کچھ دیگر ارکان نے وزیراعلٰی اور صوبائی حکومت کے بارے میں تحفظات اور شکایات بھی کیں۔ اس پر فریال تالپور نے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی ملک شاہ گورگیج کو اہم ٹاسک سونپ دیا۔ملک شاہ گورگیج نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’فریال تالپور نے مجھے وزیراعلٰی سرفراز بگٹی اور علی حسن زہری کے درمیان مصالحت کرانے کا ٹاسک دیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں وہ سنیچر کو کراچی میں علی حسن زہری سے ملاقات کریں گے اور اتوار کو کوئٹہ جا کر وزیراعلٰی سرفراز بگٹی سے بھی ملیں گے۔
خیال رہے کہ وزیراعلٰی سرفراز بگٹی اور صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی علی حسن زہری کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں اور گذشتہ روز کوئٹہ میں ایک ملاقات کے دوران دونوں میں تلخ کلامی ہوئی تھی۔ذرائع کے مطابق علی حسن زہری کو اپنی گذشتہ وزارت کے سیکریٹری کی تبدیلی اور سرکاری ملازمتوں کی بھرتیوں میں ان کی ترجیحات کو شامل نہ کرنے پر وزیراعلٰی بلوچستان سے شکایات ہیں جنہیں انہوں نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے چیئرمین آصف علی زرداری تک بھی پہنچایا۔پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق آصف زرداری نے اپنی بہن فریال تالپور کو ٹاسک دیا جس پر انہوں نے بلوچستان کے تمام ارکان پارلیمنٹرین اور اہم رہنماؤں کو کراچی طلب کیا۔فریال تالپور نے سنیچر کو کلفٹن کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر ارکان سے انفرادی طور پر اور گروپ کی صورت میں ملاقاتیں کیں۔ ان سے بلوچستان کے حالات، تحفظات، اور شکایات معلوم کیں۔ اس ملاقات میں وزیراعلٰی، صوبائی حکومت اور وزیروں کی کارکردگی کے بارے میں بھی پوچھا گیا جبکہ خود وزرا اور پارٹی رہنماؤں سے ان کی کارکردگی کے بارے میں بھی دریافت کیا گیا۔ پارٹی کے سینیئر رہنما اعجاز جھکرانی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
وزیراعلٰی سرفراز بگٹی اور صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی علی حسن زہری کے درمیان شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ (فوٹو: ایکس)
پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق ان ملاقاتوں میں قومی اسمبلی کے ارکان ملک شاہ گورگیج، نوبزادہ جمال رئیسانی، سینیٹر بلال مندوخیل، ڈپٹی سپیکر غزالہ گولہ، صوبائی وزرا بخت محمد کاکڑ، ظہور احمد بلیدی، میر فیصل جمالی، مشیر مینا مجید، امیر حمزہ زہری، ارکان صوبائی اسمبلی عبید گورگیج، اسفند یار کاکڑ، لیاقت لہڑی، سنجے کمار سمیت دیگر ارکان نے شرکت کی۔ تاہم پارٹی کے سینیئر رہنما نواب ثنااللہ زہری اس ملاقات میں شریک نہیں ہوئے۔
ذرائع کے مطابق ارکان سے تفصیلی سوالات کیے گئے جن میں یہ پوچھا گیا کہ کتنے فنڈز ملے، وہ کہاں خرچ کیے گئے، کتنی نوکریاں دی اور کن کو دیں؟ اس کے علاوہ پارٹی کی تنظیم اور کارکردگی کے بارے میں بھی پوچھا گیا۔رکن قومی اسمبلی ملک شاہ گورگیج نے تصدیق کی کہ پارٹی کی مرکزی قیادت نے الگ الگ ملاقاتیں کر کے تفصیلی انٹرویو لیا اور اس کی بنیاد پر وزیراعلٰی، صوبائی حکومت اور پارٹی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اردو نیوز نے ان ملاقاتوں میں شریک چھ سے زائد پارلیمنٹرینز اور رہنماؤں سے رابطہ کیا جنہوں نے تصدیق کی کہ اکثریت نے وزیراعلٰی سرفراز بگٹی کے حق میں رائے دی اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی اکثریت نے فریال تالپور سے ملاقات میں وزیراعلٰی سرفراز بگٹی پر اعتماد کا اظہار کیا۔ (فوٹو: ایکس)
پارٹی کی مرکزی قیادت سے ملاقات کے بعد ایک صوبائی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اندر جا کر ارکان نے کیا کچھ کہا، وہ معلوم نہیں تاہم جو کوئی باہر آ رہا تھا وہ یہی کہتا تھا کہ میں نے وزیراعلٰی کی تعریف کی اور ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔‘
اجلاس میں شریک ایک دوسرے پارٹی رہنما نے بتایا کہ بعض ارکان نے حکومت میں عہدوں، فنڈز اور سرکاری ملازمتیں نہ ملنے کی شکایات کیں اور کہا کہ ان کے حلقوں کے عوام کو مطمئن کرنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ انہیں فنڈز اور نوکریاں نہیں مل رہی ہیں۔