اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل سے متعلق کیس میں عدالت نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ کی جانب سے دلائل دیئے گئے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ آج اپنے دلائل مکمل کر دوں گا۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کریں تو زیادہ اچھا ہو گا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہنے دیں تاکہ 11 بجے تک دلائل مکمل کر لوں۔ سویلنز کے بنیادی حقوق ختم کر کے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔ اور سویلنز کا کورٹ مارشل شفاف ٹرائل کے بین الاقوامی تقاضوں کے خلاف ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے پبلک ہونے چاہیے۔ جبکہ یورپی عدالت کے فیصلے نے کئی ممالک کو کورٹ مارشل کا طریقہ کار بھی تبدیل کرنے مجبور کیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو نتیجہ کیا ہو گا؟۔ کوئی ملک اگر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو کیا ہو گا؟۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرائل شفاف نہیں ہوا۔ اور کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں۔ شفاف ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں ہی آئین کا حصہ بنایا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلنز کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: صوبے کی ترقی کیلئے خیبرپختونخوا حکومت نے مائننگ کمپنی بنا لی ہے، علی امین گنڈاپور
سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی نہیں بلکہ آزاد ججز کرتے ہیں۔ اور ایف بی علی کیس کے وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول نہیں تھا۔ برطانیہ میں فیڈلی نامی فوجی کا کورٹ مارشل ہوا۔ لیکن یورپین کورٹ نے اس کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دے دیا تھا۔ فیڈلی نے فائرنگ کی تھی اور ٹی وی ٹوٹ گیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 9 مئی واقعات میں بھی ایک ٹی وی توڑا گیا؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ جس نے 9 مئی واقعات میں ٹی وی توڑا میری اس سے ملاقات ہوئی۔ وہ چار جماعتیں پاس بے روزگار تھا۔ ہمارے معاشرے نے ایسے لوگوں کو کیا دیا؟۔
جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی کہ انفرادی باتیں نہ کریں۔ وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے فیڈلی سے ملاقات بھی کی؟۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آپ نے کہا میرا موکل فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتا تھا۔ تو 9 مئی والے دن وہ کرکٹ کھیلنے تو نہیں گیا تھا ناں۔ جس قانون کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دیا گیا وہ کیا ہمارے سامنے ہے؟۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ میں وہ قانون ریکارڈ پر لے آؤں گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا وہ قانون محض کلبھوشن کے لیے لایا گیا؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسے جاسوس جنہیں عالمی عدالت انصاف سے اجازت ہو اسے اپیل کا حق ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ یہاں اور کتنے کلبھوشن ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ کلاسیفکیشن کی اجازت تو ایف بی علی میں بھی ہے۔