دلی میں نیپالی سفارتخانے کے حکام نے انڈیا کے انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل ٹیکنالوجی (کے آئی آئی ٹی) میں زیرِ تعلیم طالبہ کی پُراسرار موت اور ادارے میں نیپالی طلبہ کے ساتھ انتظامیہ کی مبینہ بدسلوکی پر تشویش ظاہر کی ہے۔
دلی میں نیپالی سفارتخانے کے حکام نے انڈیا کے انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل ٹیکنالوجی (کے آئی آئی ٹی) میں زیرِ تعلیم طالبہ کی پُراسرار موت اور ادارے میں نیپالی طلبہ کے ساتھ انتظامیہ کی مبینہ بدسلوکی پر تشویش ظاہر کی ہے۔
نیپالی سفارتخانے کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ ریاست اوڈیشہ کے اس تعلیمی ادارے میں نیپالی طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان ’کشیدہ صورتحال‘ معمول بنتی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ اتوار کی شام بھونیشور میں موجود کے آئی آئی ٹی میں ایک نیپالی طالبہ کی لاش ہاسٹل کے کمرے میں ’لٹکی ہوئی‘ ملی تھی۔ خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ نیپالی لڑکی کو ایک انڈین طالب علم کی طرف سے مبینہ طور پر ہراسانی کا سامنا تھا۔
بی بی سی سے گفتگو میں نئی دہلی میں نیپالی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے بتایا تھا کہ کیمپس انتظامیہ اور نیپالی طلبا نے اس واقعے پر مختلف بیانات دیے ہیں۔
سفارت خانے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ’نیپالی طلبہ نے کہا ہے کہ انھیں زبردستی ہاسٹل سے نکالا گیا تھا جبکہ کیمپس انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر نکلے ہیں۔‘
معاملہ کیا ہے؟
ایک نیپالی طالب علم، جو اس وقت گریجویشن کے تیسرے سال میں ہے، کے مطابق بٹوال میں مقیم طالبہ، جو کے آئی آئی ٹی میں زیر تعلیم تھی، اتوار کی شام 5 بجے کے قریب کیمپس ہاسٹل کے اندر ’لٹکی ہوئی‘ پائی گئی۔
طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی نیوز نیپالی کو بتایا کہ ’دروازہ نہ کھلنے کے بعد، ہاسٹل وارڈن نے اسے کھڑکی سے دیکھا اور فوری طور پر اسے ہسپتال لے گئے۔ جب تک ہم وہاں پہنچے، وہ مر چکی تھی۔‘
وہاں موجود نیپالی طلبا نے اس واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے مظاہرہ کیا تھا۔
طالب علم نے کہا کہ مظاہرے کے دوران مشتعل ہجوم نے ہاسٹل کے دروازے توڑ دیے اور وائس چانسلر کو نازیبا گالیاں بھی دیں، یہ نیپالی طلبہ کی غلطی تھی۔
بی بی سی نیپالی سے بات کرنے والے ایک اور طالب علم نے کہا کہ اس کے بعد کیمپس انتظامیہ نے جوابی کارروائی کی۔
انھوں نے کہا کہ ’کیمپس انتظامیہ نے ایک نوٹس جاری کیا جس میں تمام نیپالی طالب علموں کو وہاں سے چلے جانے کو کہا گیا۔‘
نیپالی طلبا کے مطابق خاص طور پر طلبا کو زبردستی ان کے ہاسٹلز سے نکالا گیا، بسوں میں بٹھایا گیا اور ریلوے سٹیشن لے جایا گیا۔
تاہم بعد ازاں پیر کی شام ہی کے آئی آئی ٹی انتظامیہ نے نیپالی طلبا کو واپس آنے پر زور دیا، اور کہا کہ وہ ان کی حفاظت کی ضمانت دی جائے گی۔
موجودہ صورتحال کیا ہے؟
وہاں موجود نیپالی طلبا نے بی بی سی کو بتایا کہ یونیورسٹی کے عملے سمیت سکیورٹی اہلکار پیر کی شام بھونیشور کے ریلوے سٹیشن اور بس سٹیشنوں اور ہوٹلوں پر پہنچے اور معذرت کر کے طلبا کو واپس ہوسٹل بھیج دیا۔
یہ بھی سامنے آیا ہےکہ اس کے بعد بھونیشور میں بہت سے طلبا اپنے ہاسٹل میں واپس آچکے ہیں، لیکن کچھ پہلے ہی نیپال روانہ ہوچکے تھے۔
کے آئی آئی ٹی میں زیر تعلیم ایک نیپالی طالب علم نے کہا کہ ’ہم کئی بار واپس آچکے ہیں۔ لیکن کچھ (طلبہ) اب بھی ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہاں کے ہندوستانی طلبہ کے بارے میں کوئی فکر نہیں ہے، لیکن انتظامیہ انہیں تھوڑا سا دبانے کی کوشش کر رہی ہے، جس سے ایک خوفناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔‘
’جو دوست نیپال واپس نہیں گئے ہیں وہ رفتہ رفتہ کالج آ رہے ہیں، اگرچہ کہا گیا تھا کہ آج کلاسیں ہوں گی، بہت سے طلبا کلاس روم میں نہیں گئے۔‘
دہلی میں نیپالی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن سریندر تھاپا نے بھی کہا کہ انہیں اطلاع ملی ہے کہ ’صورتحال معمول پر آ رہی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’صورتحال اب معمول پر آ گئی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ طلبا کی حفاظت کو یقینی بنائے گی۔‘
منگل کی سہ پہر، یونیورسٹی کے وائس چانسلر، شرنجیت سنگھ نے ایک بیان کے ذریعے معافی مانگی۔
انھوں نے اتوار کے واقعے کے بعد احتجاج کرنے والے طلبا کے ساتھ ’ہم میں سے کچھ کے رویے‘ پر افسوس کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا 'X' پر معافی نامہ پوسٹ کرتے ہوئے، انھوں نے انڈین وزارت خارجہ، نیپال کے وزیر اعظم، انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر، انڈین وزیر اعظم کے دفتر، نیپال کی وزارت خارجہ، نیپال میں انڈین سفارت خانے، اور انڈیا میں نیپالی سفارت خانے کو بھی ٹیگ کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمارے دو افسران کی جانب سے کیے گئے تبصرے انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔
وائس چانسلر نے واضح کیا ہے کہ ایک ملازم کے ناراض تبصرے ’ذاتی‘ تھے اور ادارہ ان کی توثیق نہیں کرتا۔ انھوں نے ایک بار پھر نیپالی طلبا پر زور دیا ہے کہ وہ کالج واپس جائیں اور اپنی کلاسیں لیں۔
ادارے کی دو خواتین ملازمین کی نیپالی طالبات کے تضحیک آمیز تبصرے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ بہت سے انڈینز نے سوشل میڈیا پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔
نیپالی سفارت خانے کی ٹیم پہنچ رہی ہے
تھاپا کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق نیپالی سفارت خانے نے اپنے دو ملازمین کو بھونیشور بھیج دیا ہے۔
’ہم نے کہا تھا کہ ہم انہیں کل بھیجیں گے، لیکن جہاز روانہ نہیں ہوا کیونکہ دیر ہو چکی تھی۔ ہم نے انہیں آج ہی وہاں بھیج دیا ہے۔‘
انھوں نے منگل کی صبح کہا کہ ’وہاں ایک بار وہ نیپالی طلبا، کالج انتظامیہ اور مقامی حکام سے بھی بات کریں گے۔‘
ان کے مطابق نیپالی سفارت خانہ بھی حالات کو معمول پر لانے کے لیے اڈیشہ کی ریاستی حکومت کے اہلکاروں کے ساتھ رابطہ کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ سفارت خانہ بھی کے آئی آئی ٹی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور نیپالی طلبا کو سہولت فراہم کر رہا ہے۔
متوفی کا پوسٹ مارٹم جاری ہے
انڈین حکام نے بتایا ہے کہ منگل کو ہلاک ہونے والی طالبہ کا پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے۔ متوفی کے والد بھی بیٹی کی موت کے بعد بھونیشور پہنچ گئے ہیں۔
انھوں نے انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو بتایا کہ ’ہمیں رپورٹس ملی ہیں کہ پوسٹ مارٹم جاری ہے۔ واقعے کے بارے میں مزید معلومات اس کے بعد دستیاب ہوں گی۔‘
تھاپا نے بتایا کہ سفارت خانے کے اہلکار مرنے والی طالبہ کے خاندان کے دیگر افراد سے بات چیت کریں گے کیونکہ وہ بھی بھونیشور پہنچ چکے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اس کے بعد اہل خانہ کی خواہش پر فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا ان کی میت کو نیپال بھیجا جائے یا وہیں اس کی آخری رسومات ادا کی جائیں۔
منگل کی سہ پہر اے این آئیکی طرف سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، لڑکی کے والد نے امید ظاہر کی کہ ’تحقیقات کے بعد انہیں انصاف ملے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ پولیس نے انہیں مطلع کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو موت سے قبل ایک انڈین نوجوان نے ’تشدد کا نشانہ بنایا۔‘
انھوں نے کہا کہ ہمارا صرف انصاف کا مطالبہ ہے۔
کے آئی آئی ٹی میں زیر تعلیم نیپالی طالب علم کی ہلاکت اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے خلاف نیپال میں مختلف جماعتوں سے وابستہ طلبہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج کی اطلاعات ہیں۔
حکمران جماعت کی قریبی طلبہ تنظیمیں بھی دارالحکومت کھٹمنڈو میں احتجاج کرنے والوں میں شامل ہیں۔
مشتبہ انڈین نوجوان گرفتار، یونیورسٹی عملہ معطل
بھونیشور- کٹک کے پولیس افسر سریش دیو دتا سنگھ نے بھی خبر رساں ادارے، اے این آئی سے بات چیت میں کہا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک انڈین طالب علم نیپالی لڑکی کو ہراساں کر رہا تھا۔
ان کے بقول ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آنے کے بعد میں ملزم کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیمی اداروں میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس تعینات کی گئی ہے۔
منگل کو ایک اور بیان جاری کرتے ہوئے کے آئی آئی ٹی نے اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ دو سکیورٹی گارڈز کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔
ان پر نیپالی طلبا کو گرفتار کرنے کا الزام تھا۔
نیپالی طلبا کو ضروری مدد فراہم نہ کرنے والے اہلکاروں کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
معطل کیے گئے اہلکاروں میں ہاسٹل کے دو سینئر اہلکار اور یونیورسٹی کے دفتر برائے بین الاقوامی تعلقات کا ایک سینئر اہلکار شامل ہے۔
اسی طرح، بیان میں کہا گیا ہے کہ نیپالی طلبا کی واپسی میں مدد کے لیے 24 گھنٹے کا 'آپریشن روم' بھی کام کر رہا ہے۔
کے آئی آئی ٹی نے طلبا کے ساتھ جھگڑے کے دوران اپنے کچھ ملازمین کے بیانات کے لیے بھی معذرت کی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ جذباتی طور پر دیے گئے تھے۔
کے آئی آئی ٹی نے اس وقت منجوشا پانڈے کے ذریعے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو بھی دوبارہ پوسٹ کی۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’میں نے جو کہا اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔‘
پانڈے نے لکھا ’میرے طلبا، میں نیپال میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘
نیپال میں انڈین سفارت خانے نے بھی پیر کو ایک بیان جاری کیا جس میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور اس عزم کا اظہار کیا کہ انڈین حکومت نیپالی طلبا کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کر رہی ہے۔
اس سے قبل دہلی میں نیپالی سفارت خانے نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کالج انتظامیہ نے نیپالی طلبا کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔
نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے بھی واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ سفارتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔
پیر کو انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے نیپالی طالبہ کی موت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا اور نیپالی طالبا کی حفاظت کی ضمانت دی۔