’افلاطون میرا دوست ہے لیکن میرا عظیم تر دوست سچ ہے‘ کیا ارسطو تاریخ کی سب سے اہم شخصیت ہیں؟

شمالی یونان میں پیدا ہونے والے ارسطو 18 سال کی عمر میں ایتھنز پہنچے جہاں انھوں نے افلاطون کی اکیڈمی میں 20 سال گزارے، پہلے طالب علم کی حیثیت سے اور پھر بطور استاد۔
ارسطو
Getty Images
ان کے طے کردہ اصولوں نے ہی فلسفے سے لے کر ڈیجیٹل دور کی بنیاد فراہم کی

کیا ارسطو انسانی تاریخ کی سب سے اہم شخصیت ہیں؟ برطانوی فلسفی جان سیلرز تو یہی کہتے ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ اس قدیم یونانی فلسفی نے اس نوعیت کے اثرات مرتب کیے کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ جان ہی نہیں سکتے کہ ہماری دنیا کیسے ان کے خیالات سے بدلی۔

سیاست یو یا سائنس، ادب ہو یا منطق، ارسطو کا اثر ہر جگہ موجود ہے۔ ارسطو نے سمندری حیاتیات کا جائزہ لیا، بائیولوجی کی بنیاد رکھی، مختلف سیاسی نظاموں کا معائنہ کیا اور پولیٹیکل سائنس کے موجد بنے۔

اور منطق کے معاملے میں ان کے طے کردہ اصولوں نے ہی فلسفے سے لیکر ڈیجیٹل زمانے کی داغ بیل ڈالی۔

اس کے باوجود رائل ہولو وے یونیورسٹی آف لندن کے پروفیسر سیلرز کا دعویٰ کافی بڑا ہے۔ تاہم ان کا اصرار ہے کہ جو اثرات ارسطو نے ہماری دنیا پر مرتب کیے، ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ’اس نے ہماری سوچ کے طریقے تک کو شکل دی۔‘

ایک بلنگ و بانگ دعویٰ

انٹیجن میگزین میں پروفیسر سیلرز نے یہ لکھا: ’ارسطو ہر زمانے کا سب سے عظیم فلسفی ہی نہیں وہ کسی بھی زمانے میں زندہ رہنے والا سب سے اہم انسان ہے۔‘

یہ ایک غیر معمولی دعویٰ ہے جس کے بارے میں انھوں نے اپنی کتاب ’ارسطو: انڈرسٹینڈنگ دی ورلڈز گریٹیسٹ فلاسفر‘ میں بہت کچھ لکھا ہے۔

ارسطو
Getty Images
ارسطو نے اپنے استاد افلاطون کے بارے میں کہا تھا کہ ’افلاطون میرا دوست ہے لیکن میرا عظیم تر دوست سچ ہے‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں نے فلسفہ پڑھنا شروع کیا تو میں یہ تو جانتا تھا کہ ارسطو بہت اہم شخصیت ہے لیکن وہ خوف زدہ کرتا ہے، جب بھی میں نے اسے پڑھنے کی کوشش کی تو میں فوری کھو گیا۔‘

وقت کے ساتھ ساتھ ان کو احساس ہوا کہ ارسطو کو پڑھنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ ’آپ کو علم ہونا چاہیے کہ ارسطو کو کیسے پڑھانا ہے، سست روی سے، آہستہ آہستہ۔‘

علمی زندگی

سقراط، افلاطون اور ارسطو، یہ تین نام کلاسیکی فلسفے کے سنہرے اور سب سے طاقتور افراد میں شمار کیے جاتے ہیں۔

شمالی یونان میں پیدا ہونے والے ارسطو 18 سال کی عمر میں ایتھنز پہنچے جہاں انھوں نے افلاطون کی اکیڈمی میں 20 سال گزارے، پہلے طالب علم کی حیثیت سے اور پھر بطور استاد۔

افلاطون کی عزت کرنے والے ارسطو کے ذہن میں وقت کے ساتھ نئے خیالات پنپنے لگے۔ ان کے استاد، یعنی افلاطون کی وفات ہوئی تو انھوں نے ایتھنز چھوڑ دیا اور لیسبوس کے جزیرے پر فطرت کے بارے میں غور و خوص کرنے لگے۔

یہاں ان کی شہرت پھیلنے لگی اور پھر انھیں مقدونیہ کے بادشاہ فلپ کے بیٹے کا استاد مقرر کر دیا گیا۔ ان کا شاگرد بعد میں سکندر اعظم کے نام سے جانا گیا۔

سکندر بڑا ہوا تو دنیا فتح کرنے نکل پڑا۔ ارسطو ایتھنز لوٹے اور ’لائسیئم‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ کھول لیا۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں تک وہ پڑھانے، لکھنے اور تحقیق میں مصروف رہے۔ 62 سال کی عمر میں ارسطو کی وفات ہوئی۔

اگرچہ ارسطو کی زیادہ تر تحریریں وقت کے ہاتھوں ضائع ہو گئیں اور ان کا کیا ہوا کام صرف ٹکڑوں میں بچا تاہم پھر بھی یہ قریب 10 لاکھ الفاظ بنتے ہیں جو ایک غیر معمولی ورثہ ہے۔

ارسطو
Getty Images
ارسطو کی زیادہ تر تحریریں وقت کے ہاتھوں ضائع ہو گئیں اور ان کا کیا ہوا کام صرف ٹکڑوں میں بچا تاہم پھر بھی یہ قریب 10 لاکھ الفاظ بنتے ہیں

سائنسی سوچ

ارسطو کو صرف ایک فلسفی قرار دینا غلط ہو گا کیوں کہ ان کا شمار دنیا کے اولین سائنسدانوں میں بھی ہوتا ہے۔

جس زمانے میں مائیکروسکوپ جیسے جدید آلات نہیں تھے، ارسطو نے فطرت کا جائزہ کیا، حیوانات اور نباتات کی ایسی فہرستیں تیار کیں جنھوں نے بائیولوجی کے مضمون کی بنیاد رکھی۔

ان کے چند خیالات بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ تاہم سیلرز کا ماننا ہے کہ ارسطو کی اصل اور بڑی کامیابی وہ طریقہ تھا جو ان کی ایجاد تھا جس کے تحت انھوں نے مشاہدے اور شواہد کا استعمال کیا۔ جدید سائنس کی بنیاد یہی اصول ہے۔

سیاست اور ادب

ارسطو نے اسی اصول کا اطلاق سیاست پر بھی کیا۔ انھوں نے یونان کی شہری ریاستوں کے آئین اکھٹے کیے اور ان کا موازنہ کیا تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ چند معاشرے ترقی کیوں کرتے ہیں اور کچھ ناکام کیوں ہو حاتے ہیں۔

اس جائزے کی بنیاد بھی ان کے ذاتی خیالات نہیں بلکہ شواہد تھے۔ یہ ایک نیا طریقہ تھا جس نے ’سوشل سائنسز‘ یعنی معاشرتی علوم کا آغاز کیا۔

ادب پر ارسطو نے ایسا ہی اثر چھوڑا۔ انھوں نے یونانی ڈرامہ کا جائزہ کیا، کہانی کو بنیادی حصوں میں توڑا جیسا کہ آغاز اور اختتام، اور آج کی فلمیں اور کتابیں اسی طرز پر تیار ہوتی یا لکھی جاتی ہیں۔

منطق اور اخلاقیات کے بانی

ارسطو
Getty Images
13ویں صدی کی ایک کتاب میں ارسطو کا خاکہ

شاید منطق پر ارسطو نے جو کام کیا وہ ان کا ایسا کارنامہ تھا جس کے اثرات کسی بھی اور کام کے مقابلے میں زیادہ تھے۔

انھوں نے منطق کے بنیادی اصول وضع کیے جیسا کہ یہ خیال کہ کوئی بھی بیان یا تو سچ ہو گا یا جھوٹ، جسے آج ہم ’لا آف ایکسکلوڈڈ مڈل‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ سادہ لیکن طاقتور خیال ہی فلسفے کی بحث سے لیکر کمپیوٹر کے بائنری کوڈ کے پیچھے چھپا ہے۔

ارسطو نے انسانوں کو درپیش سب سے اہم سوال کا بھی احاطہ کیا۔ کہ ہمیں زندگی کیسے گزارنی چاہیے؟

ان کا ماننا تھا کہ جب انسان اپنی سمجھ بوجھ، معاشرتی تعلقات اور ذہنی تجسس میں اعتدال لاتے ہیں تو ترقی پاتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک اچھی زندگی وہ ہے جس میں ہم نفس پر قابو پا کر اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے علم حاصل کرتے ہیں۔

وہ اثر جو ہم دیکھ نہیں پاتے

پروفیسر سیلرز کہتے ہیں کہ ’ارسطو کے خیالات جدید سوچ میں اس قدر گہرے انداز میں موجود ہیں لیکن ہم ان کو محسوس ہی نہیں کر پاتے۔‘

’ان کے تصورات ہر جگہ ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ ہمیں کس نے دیے۔‘ تو یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا ارسطو انسانی تاریخ کے سب سے بااثر شخص تھے؟

پروفیسر سیلرز کا مقدمہ ٹھوس ہے لیکن اس سوال کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ کیا ارسطو صرف ایک عظیم فلسفی تھا یا جیسا کہ پروفیسر سیلرز کا ماننا ہے انسانی تاریخ کا سب سے اہم اور بااثر شخص؟


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.