کئی مقدمات میں عدالتوں نے پولیس کی تفتیش پر کڑی تنقید کی اور ریمارکس دیے کہ لوگوں کو ’غلط طریقے سے پھنسایا گیا ہے۔‘
دلی میں 2020 کے دوران مذہبی بنیادوں پر شروع ہونے والے فسادات میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی24 فروری 2020 کو دلی کے شمال مشرقی علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد ہو رہا تھا۔ اس وقت وزیر پور کے علاقے میں 25 سالہ شاداب عالم ایک میڈیکل سٹور کی چھت پر کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ وہ اس دکان پر کام کرتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس آئی اور ہمیں دکان بند کرنے کو کہا۔ وہاں آگ لگی ہوئی تھی۔ اس لیے ہم دکان بند کر کے اوپر چلے گئے۔‘
شاداب کے مطابق ’کچھ دیر بعد، پولیس چھت پر آئی۔ انھوں نے ہمارے نام پوچھے اور ہمیں نیچے لے گئے۔ پھر وہ ہمیں اپنی وین میں بٹھا کر تھانے لے گئے۔ پولیس نے کہا وہ مجھے حراست میں لے رہے ہیں، مجھ سے پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیں گے۔‘
جب شاداب نے پولیس سے پوچھا کہ انھیں کیوں گرفتار کیا جا رہا ہے تو پولیس نے کہا ’آپ نے فساد کیا ہے۔‘
شاداب کو ضمانت ہونے میں 80 دن اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے میں چار سال لگے۔
شہر کے کئی علاقوں کو نذر آتش کیا گیا تھاگذشتہ سال مارچ میں دلی کی ککڑڈوما کورٹ نے کہا تھا کہ پولیس کے پاس شاداب اور 10 دیگر ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اور ان سب کو بری کر دیا ہے۔
جب پولیس ’چارج شیٹ‘ فائل کرتی ہے تو عدالت اسے دیکھتی ہے اور ملزم کے خلاف ’چارج‘ کا فیصلہ کرتی ہے۔ اگر کوئی ثبوت نہیں ہے تو مقدمہ خارج کر دیا جاتا ہے۔
دلی فسادات کو اب پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اس دوران کچھ لوگوں کی زندگیوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ بہت سے لوگ تشدد کے الزام میں جیل میں ہیں جبکہ بعض کئی ماہ جیل میں گزارنے کے بعد بری ہو چکے ہیں۔
پولیس نے اِن فسادات سے متعلق 758 ایف آئی آرز درج کی تھیں۔ اب تک جتنے بھی کیسز میں فیصلے ہوئے ہیں ان میں سے 80 فیصد سے زیادہ کیسز میں لوگ بری ہو چکے ہیں۔ ہمیں 20 ایسے کیسز ملے جن میں لوگ قصور وار پائے گئے اور 106 کیسز جن میں لوگ بری ہو گئے۔
ہم نے ایسے ہی کچھ لوگوں کی زندگیوں پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
یہی نہیں بلکہ پانچ سالوں میں عدالت نے کئی بار پولیس کی تفتیش پر کڑی تنقید کی ہے۔ کچھ معاملات میں تو یہاں تک کہا گیا کہ انھیں شبہ ہے کہ لوگوں کو کیسز میں ’غلط طریقے سے پھنسایا گیا۔‘
ساتھ ہی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے کیس کی سماعت پانچ سال گزرنے کے بعد بھی شروع نہیں ہوئی۔
ہم نے ان معاملات کے حوالے سے پولیس کا موقف جاننے کی کوشش کی۔ میں ان کے دفتر بھی گیا اور انھیں کئی بار ای میلز بھیجیں۔ مگر ہمیں کوئی جواب نہیں ملا۔
تاہم دلی ہائی کورٹ میں داخل کیے گئے جواب میں دلی پولیس نے کہا کہ ہر معاملے کی 'منصفانہ اور مناسب طریقے سے' جانچ کی گئی ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ فسادات کسی بڑی سازش کا حصہ تھے’مسلم گروپ مسلمان کی دکان جلا دے، یہ مشکل ہے‘
23 فروری 2020 کو دیال پور میں ایک مسلمان شخص کی چکن شاپ کو جلا دیا گیا۔ اس کے علاوہ کئی ہندوؤں کی گاڑیوں کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔ ان معاملوں سے متعلق کئی شکایات موصول ہونے کے بعد پولیس نے 11 مسلمانوں کو گرفتار کیا۔ پولیس نے کہا کہ ایک ’خفیہ مخبر‘ نے ان میں سے نو افراد کے نام بتائے تھے۔ باقی کے خلاف انھیں سی سی ٹی وی ویڈیوز سے پتہ چلا۔
اس معاملے میں پولیس نے چار چارج شیٹ داخل کیں اور دو عینی شاہدین کو پیش کیا۔ ان عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے مسلمانوں کے ایک گروپ کو نعرے لگاتے اور توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
تاہم ایک بار عدالت میں جانے کے بعد یہ مقدمہ قائم نہیں رہا۔ ٹرائل شروع بھی نہیں ہوا اور عدالت نے صرف پولیس کی چارج شیٹ دیکھ کر تمام ملزمان کو بری کر دیا۔
عدالت کے مطابق اس کیس میں گواہوں کے بیانات انتہائی مبہم تھے۔ یہی نہیں عدالت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یا تو انھوں نے واقعہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا یا پھر ان کے بیانات من گھڑت ہیں۔
عدالت نے پولیس کی تفتیش پر کئی سوالات اٹھائے۔
عدالت نے کہا کہ چکن کی دکان چلانے والے محمد ممتاز نے پولیس کو بتایا تھا کہ کچھ لوگ 'جے شری رام' کے نعرے لگا رہے تھے اور دکان کو جلا رہے تھے۔
عدالت نے تبصرہ کیا کہ فرقہ وارانہ فسادات میں ایک مسلم گروپ کے لیے مسلمانوں کی دکان کو جلانا مشکل ہے۔ جج نے کہا کہ جب دکان میں آگ لگی تو پولیس وہاں موجود تھی، انھیں اسی وقت پتہ چل جانا چاہیے تھا کہ یہ کس نے کیا۔
یہ کہتے ہوئے عدالت نے 11 لوگوں کو بری کر دیا۔
محمد ممتاز نے ہمیں بتایا کہ ان کی دکان کو جلانے کے معاملے میں ’ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔‘
شاداب عالم نے جیل میں 80 روز گزارےجب یہ فیصلہ سنایا گیا تو شاداب عدالت میں موجود تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جیل کے اندر مجھے دھمکی دی گئی کہ مجھے لمبی سزا ملے گی، میں نے کچھ نہیں کیا تھا، اس لیے ڈر نہیں رہا تھا۔‘
انھوں نے عدالت میں اس میڈیکل سٹور کی سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج جمع کرائی تھی جہاں وہ کام کرتے تھے۔ ان کے فون کی لوکیشن بھی دکھائی گئی۔
دلشاد علی شاداب عالم کے والد ہیں۔ وکلا کے ساتھ کوآرڈینیشن ہو یا عدالتی سماعت یا ضمانت، اس کیس میں وہ ہی بھاگ رہے تھے۔
دلشاد کا کہنا ہے کہ ’جب اسے گرفتار کیا گیا تو ہم دو بار مختلف عدالتوں میں ضمانت کے لیے گئے، اس کی ضمانت نہیں ہوئی۔ ہم نے انسانی حقوق کمیشن کو خط بھی لکھا۔ اسے ضمانت ہونے میں 80 دن لگے۔‘
شاداب نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پولیس نے اسے جیل میں مارا پیٹا۔ اس کے لیے اس نے اپنی میڈیکل رپورٹ بھی دکھائی۔ جسم پر تین مقامات پر زخموں کا ذکر تھا۔
دلشاد کا کہنا ہے کہ جب شاداب جیل میں تھا تو وہ خاندان کے لیے مشکل وقت تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ لاک ڈاؤن کا وقت تھا، پورا خاندان مشکل میں تھا۔ ایک دو سال کا بچہ تھا۔ وہ 'پاپا-پاپا' کہتے ہوئے روتا رہا۔ اس کا درد ناقابل برداشت تھا۔‘
شاداب کا کہنا ہے کہ انھیں انصاف ملا لیکن اس میں بہت وقت لگا۔
وہ کہتے ہیں، ’چار سال تک مجھے تاریخوں کے بعد تاریخیں ملتی رہیں۔ اس معاملے میں میرا بہت سا وقت ضائع ہوا۔ خاندان پر اضافی تناؤ تھا۔‘
تاہم اس کیس سے لگنے والے زخم ابھی تک پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اور اس کے والد کہتے ہیں ’اچھا ہو گا کہ ہمیں ابھی معاوضہ مل جائے، ہم نے اس پر لاکھوں روپے خرچ کیے ہیں۔‘
والد کہتے ہیں کہ ’ہمیں انصاف ملا لیکن مکمل انصاف نہیں ملا۔ اگر کسی نے جھوٹا مقدمہ بنایا تو اس کے خلاف بھی کچھ ہونا چاہیے تھا‘
پولیس کی تفتیش پر اٹھنے والے سوالات
ہماری تحقیق میں ہم نے پایا کہ عدالت سے بری ہونے والوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ یہی نہیں کئی معاملات میں عدالت پولیس پر سخت تبصرے بھی کر رہی ہے۔
اس سال 8 جنوری کو ایک ملزم سندیپ بھاٹی کو عدالت نے بری کر دیا تھا۔ ان پر ہجوم کا حصہ بننے اور 25 سالہ شاہ رخ کو مارنے کا الزام تھا۔ شاہ رخ کو شدید چوٹیں آئیں۔ اس معاملے میں پولیس نے چوری اور توڑ پھوڑ سے متعلق چھ مزید شکایات بھی شامل کیں۔
ایک ویڈیو کی بنیاد پر پولیس نے سندیپ کو دسمبر 2020 میں گرفتار کیا تھا۔ یہ ویڈیو سات سیکنڈ کی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ ویڈیو میں سندیپ کو متاثرہ کو مارتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
سندیپ کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ دراصل یہ ویڈیو 12 سیکنڈ کی ہے اور پوری ویڈیو پیش کی۔
پانچ سیکنڈ کی اس ویڈیو میں، جسے پولیس نے عدالت میں پیش نہیں کیا، ملزم مقتول کو مارتے ہوئے نہیں، اسے بچاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
کرکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچل نے اپنے فیصلے میں کہا، ’پولیس کے پاس پوری ویڈیو تھی لیکن اس نے اسے اس طرح کاٹا کہ جس پانچ سیکنڈ میں ملزم متاثرہ کی حفاظت کر رہا تھا وہ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تفتیشی افسر نے صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کی اور ملزم کو جھوٹے الزامات میں پھنسانے کی کوشش کی۔‘
فیصلے میں جج نے دہلی پولیس کمشنر سے اس معاملے کا نوٹس لینے کو کہا۔ اس کے علاوہ تفتیشی افسر کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کو کہا گیا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے تمام شکایات کی صحیح طریقے سے جانچ نہیں کی۔ عدالت کے مطابق 'تفتیشی افسر نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی'۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ چھ شکایات کی الگ الگ چھان بین کرنی ہوگی۔
ہم بھی اس سے ملنے سندیپ کے گھر گئے۔ اس نے ہمیں بتایا کہ تقریباً چار ماہ جیل میں گزارنے کے بعد اسے ضمانت مل گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس وقت اس کیس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔
ان کا ٹرائل بھی شروع نہیں ہوا۔
لوگ پانچ سال سے قید میری بیٹی کو بھولے نہیں‘
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے خاندان والے جیل میں ہیں۔ ان کا ٹرائل بھی شروع نہیں ہو رہا۔
ایسا ہی ایک کیس ایف آئی آر نمبر 59/2020 ہے۔ اس کا تعلق دلی فسادات کی ’سازش‘ سے ہے۔ پولیس کا الزام ہے کہ جب دسمبر 2019 میں شہریت ترمیمی قانون یا سی اے اے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو اس سے وابستہ کارکنوں اور طلبہ نے دہلی میں فسادات کرانے کی سازش کی۔
اس کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، دیونگنا کلیتا جیسے کل 20 ملزم ہیں۔ ان میں سے چھ کو ضمانت مل چکی ہے اور 12 ابھی تک جیل میں ہیں۔
ان سبھی پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ دہشت گردی سے متعلق قانون ہے۔ اس میں ضمانت ملنا مشکل ہے۔
ان ملزمان میں سے ایک گلفشہ فاطمہ ہے۔ گلفشہ بھی سی اے اے سے متعلق احتجاج میں شامل تھیں۔ انھوں نے غازی آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ ایجوکیشن سے ایم بی اے کیا ہے اور پی ایچ ڈی کرنا چاہتی تھیں۔
پولیس کا الزام ہے کہ گلفشہ ان ملاقاتوں کا حصہ تھیں جہاں سڑکیں بلاک کرنے اور تشدد کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پولیس اور ہندوؤں پر حملہ کرنے کے لیے کچھ خواتین کو پتھر اور مرچ کا پاؤڈر دیا تھا۔
گلفشہ اپریل 2020 سے جیل میں ہیں۔ جب وہ جیل گئیں تو ان کی عمر 28 سال تھی۔ گلفشہ کے خلاف چار مقدمات ہیں۔ ان میں سے تین مقدمات میں اسے ضمانت مل چکی ہے۔
سیلم پور میں رہنے والے ان کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ ان مقدمات کے ختم ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ گلفشہ کے والد سید تسنیف حسین کا کہنا ہے کہ انھیں آئین اور عدالتوں پر یقین ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’دن گزرتے ہیں لیکن راتیں نہیں گزرتی۔ کبھی کبھی مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں اس سے مل سکوں گا یا نہیں۔ شاید میں اس کے باہر آنے سے پہلے ہی چلا جاؤں۔‘
تسنیف حسین کا کہنا ہے کہ ’ہمیں نہیں معلوم کہ اس میں کتنا وقت لگے گا، ہم شروع سے ہی سوچ رہے تھے کہ وہ اب باہر آئے گی، اب باہر آئے گی۔‘
جب وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بات کرتا ہے تو اس کی آنکھیں اداسی اور فخر سے چمک اٹھتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ میرا کوہ نور ہے، مجھے نہیں معلوم کہ یہ چمکے گا یا زنگ آلود ہو گا۔ لیکن وہ میرا کوہ نور ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ہے۔‘
ان کی والدہ شاکرہ بیگم اپنی بیٹی کے موضوع پر بات کرتے ہی رونے لگتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’پتہ نہیں اتنا بڑا مسئلہ کیسے سامنے آگیا۔ ہم پڑھے لکھے نہیں تھے۔ اسی لیے ہم نے پڑھایا تاکہ بچوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اب پڑھانا اتنا بڑا مسئلہ لے کر آیا ہے کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
ان کی بیٹی جیل میں ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ماں کے لیے بھی وقت تھم گیا ہو۔
گلفشہ کے والدین ہر ہفتے اس سے ویڈیو کال پر بات کرتے ہیں۔ ملاقات عدالت میں ہوتی ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے بھی گلفشہ ہی ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
پانچ سالوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ 28 سالہ بیٹی 33 سال کی ہو گئی۔ گھر میں اس کی تصویریں پرانی ہو چکی ہیں۔ پہلے وہ جیل سے خط لکھتی تھی، اب بند کر دیا ہے۔
ان کی والدہ کہتی ہیں، ’اب وہ خط نہیں بھیجتی کیونکہ میرے شوہر انھیں پڑھ کر روتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ والد خط پڑھ کر پریشان ہوں گے، اس نے لکھنا چھوڑ دیا۔‘
تسنیف کا کہنا ہے کہ اس کا خواب ہے کہ ایک دن وہ گلفشہ کو جیل سے نکالنے جائے گا۔ اسے آج بھی فخر ہے کہ ’پانچ سال گزرنے کے بعد بھی لوگ اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ لوگ اسے بھولے نہیں ہیں۔‘
گلفشہ فاطمہ جیسے سماجی کارکن آج بھی جیل میں ہیں اور ان کے خلاف کئی کیسز زیرِ التوا ہیں’خوشی مہنگی پڑ سکتی ہے‘
اس معاملے میں ککڑڈوما کورٹ نے ان کی ضمانت مسترد کر دی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ میں ان کی ضمانت کی عرضی ابھی زیر التوا ہے اور اس کی سماعت سست رفتاری سے جاری ہے۔
مہینوں کی سماعت کے بعد ایک جج کا تبادلہ کر دیا گیا اور اب ضمانت کی درخواست پر دوبارہ سماعت ہو رہی ہے۔
حالیہ سماعت میں بھی جج نے سرکاری وکیل سے کہا کہ وہ ضمانت کی درخواست پر بحث کرنے میں اتنا وقت نہیں لے سکتے اور ان سے کہا کہ وہ کیس کی مختصر وضاحت کریں۔
اس کے ساتھ ہی پولیس نے اس معاملے میں پانچ چارج شیٹ داخل کی ہیں لیکن ابھی تک ٹرائل شروع نہیں ہوا ہے۔ ککڑڈوما کورٹ اس وقت سماعت کر رہی ہے کہ چارج شیٹ کی بنیاد پر کس کیس کو بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد اگر عدالت پولیس کی چارج شیٹ کو درست مانتی ہے تو مقدمے کی سماعت شروع ہوگی۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ بہت سے ملزمان ہیں اس لیے اس مرحلے پر طویل بحث ہوگی۔
اس معاملے میں اب تک کئی وجوہات کی بنا پر مسائل رہے ہیں۔ ابتدائی چند ماہ تک کیس اس بات پر اٹکا ہوا تھا کہ ملزمان کو ان کے خلاف الزامات کی فوٹو کاپیاں دی جائیں یا نہیں۔ اس پر ہائی کورٹ میں بحث ہوئی۔ پولیس نے شروع میں کہا تھا کہ ہزاروں صفحات پر مشتمل چارج شیٹ کی کاپیاں بنانا بہت مہنگا پڑے گا۔
پھر کچھ ملزمان نے مطالبہ کیا کہ پولیس پہلے یہ واضح کرے کہ ان کی تفتیش مکمل ہوئی ہے یا نہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ اس واقعے کے تین سال بعد بھی پولیس نئی چارج شیٹ داخل کر رہی تھی اور ان سب میں یہ کہہ رہی تھی کہ ابھی تفتیش جاری ہے۔
ملزمان کا کہنا تھا کہ انھیں ڈر ہے کہ اگر انھوں نے کیس کی خامیوں کی نشاندہی کی تو پولیس نئی چارج شیٹ داخل کر کے ان خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے۔
طویل بحث کے بعد جب جج نے حکم دیا تو پولیس نے کہا کہ ان کی تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔ اس میں ایک سال لگا۔
جب ہم نے گلفشہ کے والد سے پوچھا کہ کیا ’آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جیل سے باہر آنے پر آپ اسے کیا کہیں گے؟‘
انھوں نے جواب دیا ’میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتا۔ کبھی کبھی خوشی مہنگی پڑ جاتی ہے۔‘