دلی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سات بار اجڑی اور سات بار آباد ہوئی یہاں تک کہ یہ آج انڈیا کا دارالحکومت ہے جہاں تقریبا دو کروڑ انسانی آبادی سانس لے رہی ہے۔ اسی سے کچھ ملتی جلتی کہانی ایک تعلیمی ادارے کی ہے جسے نالندہ کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں یہ دعوی پیش کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
نالندہ کے باقیات جو کھدائی میں زمین سے برآمد ہوئے ہیںدلی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سات بار اجڑی اور سات بار آباد ہوئی۔ یہاں تک کہ یہ آج انڈیا کا دارالحکومت ہے جہاں تقریبا دو کروڑ انسانی آبادی سانس لے رہی ہے۔
اسی سے کچھ ملتی جلتی کہانی ایک تعلیمی ادارے کی ہے جسے نالندہ کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں یہ دعویٰ پیش کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے قدیم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔
نالندہ پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’نالندہ: ہاؤ اٹ چینجڈ دی ورلڈ‘ میں مصنف اور شاعر ابھے کے نے نہ صرف اس کی تاریخ بیان کی ہے بلکہ دنیا پر اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا ہے۔
ان کے مطابق بودھ مذہب کے پیروکاروں کے ہاتھوں قائم ہونے والے اس تعلیم ادارے کو تین بار تباہ کیا گیا لیکن دو بار ہی اس کی باز آبادکاری ہو سکی۔ اور تیسری بار کی تباہی کے بعد اب کوئی آٹھ سو سال بعد جب اس کی باز آبادکاری ہو رہی ہے تو یہ شاید اس کی پرانی شان و شوکت کو واپس لانے میں کامیاب نہ ہو۔
نالندہ یونیورسٹی گپتا سلطنت کے کمار گپت اول (415-455 عیسوی) کے عہد میں سنہ 427 عیسوی میں بدھ راہبوں کے ذریعہ قائم کی گئی تھی اور یہ سات صدیوں تک تعلیم و تعلم کا ایک غیر معمولی مرکز تھا۔
ابھے کمار نے نالندہ نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ نالم (کمل، علم کی علامت) اور دا کے امتزاج سے آیا ہے، جس کا مطلب ہے 'دینا' یعنی اس مطلب علم پھیلانے والا ہوا۔
اس کی شہرت کے پیش نظر نہ صرف اس میں ہندوستانی طلبہ تھے بلکہ چین، انڈونیشیا، جاپان، کوریا، فارس، سری لنکا، تبت اور ترکی سے بھی گرانقدر طلبہ وہاں پہنچتے رہے۔
اپنے عروج پر نالندہ
کتاب کے مصنف اور انڈیا کے جارجیا میں سفارتکار مسٹر ابھے نے بتایا کہ اپنے عروج کے زمانے میں نالندہ میں 10,000 سے زیادہ طلبا تھے اور وہاں نہ صرف بدھ مت کی تعلیم دی جاتی تھی بلکہ اس وقت دنیا میں جتنے بھی علوم رائج تھے ان کی تعلیم دی جاتی تھی۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اپنے عروج کے زمانے میں 2,000 عالمی شہرت یافتہ اساتذہ کے ذریعے تعلیم مکمل طور پر مفت فراہم کی جاتی تھی۔
لیکن نالندہ کے بارے میں سب سے زیادہ جو چیز شہرت رکھتی ہے وہ اس کی تباہی ہے۔ انڈیا میں رائج تاریخ کے مقبول عام بیانیے میں کہا جاتا ہے کہ اس شاندار تعلیمی مرکز کو محمد غوری کے ایک جنرل اختیار الدین محمد بختیار خلجی نے تباہ کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ انھوں نے محمد غوری کے حکم پر بنگال اور بہار کا رخ کیا تھا اور ان کے حملوں کی زد میں آ کر یہ تعلیمی ادارہ تباہ ہو گیا۔ لیکن بعض سنجیدہ تاریخ داں اس بیانیے کو گمراہ کن اور منافرت پر منبی قرار دیتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم اس معاملے پر گفتگو کریں آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ اس ادارے کو کب کب تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نالندہ پر کتاب تحریر کرنے والے ابھے کے نے کہا کہ نالندہ کو حملہ آوروں نے تین بار تباہ کیا لیکن اسے صرف دو بار ہی دوبارہ تعمیر کیا جا سکا۔
تین بار تباہی
پہلی بار مہراکول کی قیادت میں ہونوں نے سکند گپت (455-467 عیسوی) کے دور حکومت میں اس ادارے کو اس وقت برباد کیا جب نالندہ صرف چند دہائیوں پرانا تھا۔
لیکن اس حملے کے بعد سکند گپت کے جانشین پوراگپت اور نرسمہا گپت نے فوری طور پر یونیورسٹی کی بحالی کا کام شروع کر دیا اور پہلے سے بھی بڑی عمارتوں کی تعمیر کی اور اسے مزید بہتر بنا دیا۔ انھوں نے اسے کافی وسائل سے نوازا تاکہ یونیورسٹی طویل مدت میں خود کفیل ہو سکے۔
دوسری بار اسے کم از کم ڈیڑھ صدی بعد ساتویں صدی کے اوائل میں گؤدوں کے حملے کے نتیجے میں تباہی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد ہندو بادشاہ ہرش وردھن (606-648 عیسوی) نے اسے بحال کیا اور عمارتوں اور سہولیات کو مزید بہتر بنا دیا۔
لیکن پھر اپنی تاسیس کے تقریبا 800 سال بعد یہ ادارہ ایک بار پھر متنازع طور پر تباہی کا شکار ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان پر محمود غزنوی کے پے بہ پے حملوں کے بعد محمد غوری اور ان کے جنرلوں نے حملے کیے تھے۔
ہم نے ابھے کمار سے اس بابت پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اگرچہ بختیار خلجی کا اس کی تباہی میں براہ راست ہاتھ نظر نہیں آتا ہے لیکن ان کے حملوں نے اس ادارے کے ایکو سسٹم کو متاثر ضرور کیا تھا۔
مسٹر ابھے نے نالندہ پر کتاب لکھنے کی ترغیب کے بارے میں بتایا کہ وہ نالندہ سے آتے ہیں اور انھوں نے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے جہاں نو منزلہ لائبریری انھیں نالندہ کی بیان کردہ نو منزلہ لائبریری کی یاد دلاتی ہے۔
ان کے برعکس جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم فل اور ڈاکٹریٹ کرنے والی تاریخ کی استاد روچیکا شرما نالندہ پر اپنے ویڈیو میں یہ دعوی پیش کرتی ہیں کہ نالندہ کی تباہی کے متعلق جو تین باتیں کہی جاتی ہیں وہ تینوں درست نہیں ہیں۔
ان کے مطابق اسے نہ تو بختیار خلجی نے تباہ کیا اور نہ ہی اسے ترکوں نے جلایا اور نہ یہ اچانک ہی زمین کے اندر چلا گیا۔ اور اس کے لیے نہ صرف انھوں نے مستند تاریخی شواہد دیے ہیں بلکہ اسے یوٹیوب پر اپنے 22 منٹ کے ویڈیو میں بے کم و کاست بیان کیا ہے۔
نالندہ کا تصور
ہم نے ابھے کے سے جب نالندہ کی بابت بات کی تو انھوں نے کہا: 'نالندہ میں پہلے وہار (بدھ مت خانقاہ) تیسری صدی قبل مسیح میں قائم ہوئی تھی۔ اسے بادشاہ اشوک نے قائم کیا تھا۔
'جب موریہ دور میں یہ وہار تعمیر کیا گیا تو ایک ایسے تعلیمی ادارے کے طور پر اس کا منصوبہ بنایا گیا جہاں طلبہ رہ سکتے تھے اور اپنی تعلیم حاصل کر سکتے تھے۔'
ان کے خیال میں ریزیڈینشیل کیمپس کا تصور دنیا میں یہیں سے آتا ہے جو مشرق وسطی سے ہوتا ہوا عالم عرب اور یورپ سمیت دنیا بھر میں پھیلا۔
'نالندہ میں سوتروں (متنوں) کو نقل کرنے اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کی عظیم روایت نے صدیوں میں کئی ممالک کی زبان، ادب اور ثقافت کو تقویت بخشی۔۔۔ نالندہ نے مخطوطہ نویسی، نقشہ سازی، تحفظ اور نقل کے فن کو فروغ دینے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔
'اس طرح نالندہ میں مخطوطہ لکھنے، نقل کرنے اور محفوظ کرنے کی ثقافت نے پوری دنیا میں زبانی روایت سے تحریری روایت کو تیزی سے فروغ دیا۔'
انھوں نے بتایا کہ دنیا کی پہلی شائع شدہ کتاب 'دی ڈائمنڈ سوترا' ہے جو 'پرگیہ پرامیتا سوترا' کا حصہ ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے معرف سکالر ناگارجن نے نالندہ میں لکھا تھا۔ دھما چکر، جس میں مقدس متون کو میکانکی طور پر گھمایا جاتا ہے، نالندہ میں دریافت ہوا تھا۔'
انھوں نے بتایا کہ اگرچہ نالندہ مہا وہار نے 14ویں صدی کے اوائل میں کام کرنا بند کر دیا تھا، لیکن اس کی شہرت برقرار رہی اور اس کے نام سے منسوب تعلیمی اداروں اور خانقاہوں کے قیام کی تحریک جاری رہی۔ آج نالندہ کی کہانی پھر سے دہرائی جا رہی ہے اور حالیہ برسوں میں اس نے زور پکڑا ہے۔
طبقات ناصری کے علاوہ تمام ماخذ بیرونی
ہم نے جب ان سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے تمام تر بنیادی ماخذ بیرون ملک اور عہد وسطی میں ہندوستان کا دورہ کرنے والے سیاحوں کے ہیں تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ محض چند سو سالوں میں ہندوستان میں اس کا نہ صرف چرچا ختم ہو گیا بلکہ یہ مجموعی یادداشت سے بھی چلی گئی۔
انھوں نے بتایا کہ نہ وہاں کوئی کھنڈر رہ گیا تھا اور نہ اس کی کوئی باقیات نظر آتی تھی البتہ انیسویں صدی کے اوائل میں ریاست بہار کے ضلع راج گیر کے لوگوں نے برطانوی حکام کو بتایا کہ وہاں جو ٹیلے موجود ہیں ان کی زمین میں ہندو اور بدھ مذہب سے منسلک مورتیاں ملی ہیں۔
اس کے بعد فرانسس بوچانن ہیملٹن نے سنہ 1811-12 میں وہاں کا سروے کیا لیکن وہ یہ طے نہ کر سکے کہ یہ اسی نالندہ یونیورسٹی کی باقیات ہے جس کا ذکر عہد وسطی کے متعدد سیاح اپنی یادداشتوں میں کرتے رہے ہیں۔
بہر حال اس کے کوئی ایک سو سال بعد 1915 اور 1919 کے درمیان الیکزینڈر کنگھم کے قائم کردہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے تحت اس کی کھدائی کئی مرحلوں میں شروع ہوئی اور ان ٹیلوں کے نیچے سے جو باقیات دریافت ہوئیں اس نے یہ اسرار کھولا کہ یہاں وہی تاریخی یونیورسٹی دفن تھی۔
مسٹر ابھے نے بتایا کہ نالندہ در اصل رفتہ رفتہ ختم ہوا کیونکہ اتنا بڑا ادارہ اچانک ختم نہیں ہو سکتا تھا۔
ہم نے اس بابت روچیکا شرما سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ در اصل یہ ہندوستان میں بدھ مذہب کے زوال کے ساتھ ہی زوال پزیر ہونا شروع ہو گیا تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی زمانے میں اودانت پوری اور وکرم شیلا جیسے ادارے سامنے آتے ہیں اور یہ دونوں بدھ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر روچیکا شرما نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ گیارہویں صدی کے ایک سیاح نے لکھا ہے کہ انھوں نے جب ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے دیکھا کہ نالندہ اپنی شان و شوکت کھو رہا ہے۔
جلنے یا جلانے کے شواہد
ڈاکٹر روچیکا شرما نے بتایا کہ وہاں ہونے والی کھدائی میں متعدد عمارتوں سے اس کے جلنے یا جلائے جانے کے شواہد ملے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ یہ آگ کس نے لگائی۔ برہمنوں نے لگائی یا پھر ترک حملہ آوروں نے یا پھر وہاں حادثاتی طور پر آگ لگی کیونکہ وہاں رہنے والے مونکس (راہب یا طلبہ) وہیں کھانا پکایا کرتے تھے اور عین ممکن ہے کہ آگ لگ گئی ہو۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس کی تعمیرات کئی ادوار میں ہوئی۔ ایک سیاح نے لکھا ہے کہ جب ایک بار ایک عمارت تباہ ہو گئی تھی تو اسے بالدتیہ نامی شخص نے دوبارہ تعمیر کرایا تھا۔
ہندوستان کی مجموعی یادداشت سے اس یونیورسٹی کا ذکر ختم ہونے کے متعلق سوال پر ڈاکٹر روچیکا نے کہا کہ بادشاہ اشوک کے بارے میں بھی ہم اس وقت ہی جان سکے ہیں جب ان کے کتبوں کو بیسویں صدی کے اوائل میں پڑھا جا سکا۔
انھوں نے کہا کہ اس کی تباہی کی ایک وجہ نہیں تھی یہ رفتہ رفتہ ختم ہوا ہے کیونکہ اس کی سرپرستی کرنے والے خود ہی خراب حال ہو گئے تھے۔
مسٹر ابھے نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے باقیات خلجی دور کے بعد بھی موجود تھے اور تعلیم جاری تھی۔ انھوں نے کہا اگر چہ یہ ہندوستان اور مقامی لوگوں کی یاد سے غائب ہو گیا تھا لیکن 14ویں صدی کے وسط میں تبت میں نالندہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے نالندہ وہارا قائم کیا گیا جسے آج تبتی نالندہ کہا جاتا ہے۔
بہر حال مسٹر ابھے اور روچیکا شرما دونوں کا کہنا ہے بختیار خلجی کا اس کی تباہی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
روچیکا شرما نے کہا کہ جس حوالے سے بختیار خلجی کو اس کا ذمہ دار کہا جاتا ہے، وہ منہاج السراج کی طبقات ناصری ہے۔ منحاج ایک قاضی تھے اور سلطان التمش کے دربار میں فائز تھے انھوں نے یہ کتاب سلطان ناصر کے دور میں پوری کی اور انھیں پیش کی جس کی وجہ سے اس کا نام 'طبقات ناصری' ہے۔
تعمیر نو اور بازیابی کی کوششیں
منہاج لکھتے ہیں کہ محمد غوری نے قلعہ بہار پر حملہ کیا جس میں بہت سے جانیں گئیں اور انھیں وہاں بہت سی کتابیں ملیں۔ اور دریافت کرنے پر پتا چلا کہ یہ ایک مدرسہ یا کالج ہے جسے وہار کہا جاتا ہے، جہاں بدھ مت کے راہب رہتے ہیں۔ اس میں کسی نالندہ کا ذکر نہیں ہے۔
اس معاملے میں وہ اس وہار کا نام اودند وہار بتاتے ہیں جسے مورخ جادوناتھ سرکار اودانت پوری سے تعبیر کرتے ہیں۔ تو اس سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ خلجی کو پتا نہیں تھا کہ یہ کوئی تعلیمی ادارہ ہے بلکہ انھوں نے اس پر قلعہ سمجھ کرحملہ کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مورخ ڈی آر پاٹل نے نالندہ کے حوالے سے ایک اہم کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے اودانت پوری کے قیام کو نالندہ کے زوال کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے۔ اسے بنگال کے پالا سلطنت نے قائم کیا تھا۔
ابھے کمار نے اس کا رشتہ ہارون رشید کے قائم کردہ معروف تحقیقی اور تعلیمی ادارے بیت الحکمہ سے جوڑا ہے اور کہا ہے کہ جب خطہ عرب میں مسلم حکومت ابھری اور وہاں علم و حکمت کی سرپرستی شروع ہوئی تو نالندہ سے وہاں سکالرز پہنچے۔ چنانچہ ریاضی، علم نجوم اور ہندوستانی قصے کہانیاں عربی زبان میں ترجمہ ہوئیں اور اس کے توسط سے یہ دنیا کے باقی حصوں میں پہنچیں۔
انھوں نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی اس ادارے کی بازیابی کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس معاملے میں عملی قدم انڈیا کے صدر اے پی جے عبدالکلام اور دنیا کے مختلف علاقوں کے بدھ مذہب کے ماننے والوں نے اکیسویں صدی میں اٹھایا اور نوبل انعام سے سرفراز معروف ماہر معاشیات امرتیہ سین کی قیادت میں اس یونیورسٹی نے سنہ 2014 سے پھر سے اپنا تعلیمی اور تدریسی سفر شروع کیا ہے لیکن اسے شاید وہ کلیدی حیثیت حاصل نہ ہو سکے جو کبھی اسے حاصل تھی۔