گذشتہ دنوں قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ کے کراچی میں تعمیراتی صنعت کے اجتماع سے خطاب کے دوران صورتحال اس وقت انتہائی دلچسپ ہو گئی جب وہاں پر موجود ایک شہری نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’چیئرمین صاحب، کیا آپ کو پتہ ہے کہ کراچی میں ایک ’سسٹم‘ چلتا ہے۔ جس کے خلاف کوئی بھی نہیں جا سکتا، نہ اس کو کوئی روک سکتا ہے اور نہ ہی اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہو سکتا ہے۔‘چیئرمین نیب نے تو نپے تلے آزمودہ طریقے سے اس سوال کا جواب دیا اور کہا کہ اس ’سسٹم‘ کے خلاف ثبوت فراہم کئے جائیں تو وہ اس کو ناکارہ بنا دیں گے، لیکن کراچی میں سرکاری اداروں کے ساتھ کام کرنے والے شہری جانتے ہیں کہ اس ’سسٹم‘ کو ختم کرنا آسان ہے اور نہ ہی اس کی مرضی کے بغیر کسی سرکاری کام کی منظوری لینا۔تو پھر یہ ’سسٹم‘ آخر ہے کیا جو کراچی کے کاموں میں روڑے اٹکاتا ہے اور اس کی رضامندی کسی بھی کام کے آغاز یا تکمیل کے لئے ناگزیر ہوتی ہے۔کراچی شہر کے سینیئر صحافی رفعت سعید اس اصطلاح کے بارے میں بتاتے ہیں کہ کراچی کے لوگ بالخصوص تعمیراتی شعبے سے وابستہ افراد اس نظام کو ’سسٹم‘ کا نام دیتے ہیں، جو سرکاری اداروں کے اندر عوام کے کاموں کے حوالے سے رائج ہے اور بنیادی طور پر غیر قانونی ہتھکنڈوں کے ذریعے مختلف کاموں کی منظوری دلوانے یا رکوانے کے لیے جانا جاتا ہے۔رفعت سعید کہتے ہیں کہ ’کراچی میں بے ہنگم تعمیرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ رشوت دے کر غیرقانونی تعمیرات کی اجازت حاصل کی جاتی ہے۔ گنجان آباد علاقوں میں 45 گز کے پلاٹ پر پانچ سے چھ منزلہ عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ اور جو عہدیدار ایسے غیرقانونی کاموں کی منظوری دیتے ہیں اور ایسے کاموں کے بدلے رشوت لے کر نیچے سے اوپر تک اس کا حصہ پہنچاتے ہیں، ان سب کو ’سسٹم‘ کا نام دیا جاتا ہے۔‘شہر کے متوسط طبقے کی رہائشی کالونی پی ای سی ایچ کے محمد عمیر (فرضی نام) کو حال ہی میں اس ’سسٹم‘ سے پالا اس وقت پڑا جب انہوں نے کچھ عرصہ قبل اپنے آبائی گھر میں اضافی تعمیرات کا آغاز کیا۔اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ہم چار بھائی اپنے والدین کے پرانے گھر میں رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سب سے چھوٹے بھائی کی شادی کا ارادہ کیا، تو گھر میں اس کے لیے دو مزید کمرے بنانے کا فیصلہ کیا، کمروں کی تعمیر کے لیے تعمیراتی سامان سیمنٹ، بجری اور بلاک ابھی گھر کے باہر پہنچے ہی تھے کہ پولیس اہلکار آ گئے اور تعمیراتی کام کی تفصیلات طلب کرنے لگے۔‘
رفعت سعید کہتے ہیں کہ بے ہنگم تعمیرات کے لیے رشوت دے کر تعمیرات کی اجازت حاصل کی جاتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’تین روز بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے اہلکار گھر آئے اور تعمیرات کی تفصیلات طلب کی، ہم نے انہیں منظور شدہ نقشہ دکھایا اور تفصیلات سے آگاہ کیا۔ دو روز بعد ایس بی سی اے کی ایک اور ٹیم آئی اور انہوں نے ہماری تعمیرات کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے انہیں مسمار کرنے کا کہا۔‘
محمد عمیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب ٹیم کے اہلکاروں کو بتایا کہ باقاعدہ چالان جمع کرانے اور نقشے کی فیس ادا کرنے کے بعد تعمیرات کی گئی ہیں، جو منظور شدہ نقشے کے عین مطابق ہیں۔ تو ٹیم کے ایک رکن نے ’سسٹم‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’بھائی آپ معاملے کو کیوں بڑھا رہے ہیں؟ آپ جانتے ہیں یہاں ایک سسٹم ہے اس کے تحت ہی کام چلتا ہے، آپ نے کاغذی کارروائی مکمل کی ہے تو سسٹم کا بھی خیال کریں۔‘’سسٹم کا سب کو پتہ لیکن اصل چہرے پوشیدہ ہیں‘سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ ’سسٹم‘ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ کسی پلاٹ کی خریداری ہو یا کوئی پرانی عمارت خریدی جائے، اسے توڑنے اور نئی تعمیر تک سب کچھ ایک ترتیب سے چلتا ہے۔ اس ترتیب میں ہر کسی کا حصہ طے ہوتا ہے اور یہ حصہ نچلی ترین سطح سے اوپر تک پہنچتا ہے۔ ہر علاقے کے لحاظ سے اس کی رشوت کی شرح طے ہے، اور سب اسی پر چلتے ہیں۔‘رفعت سعید کے مطابق اگر کوئی اہلکار ’سسٹم‘ کے خلاف جاتا ہے یا اس میں شامل افسران کے مطالبات نہیں مانتے تو اس کا تبادلہ کروا دیا جاتا ہے۔’لیکن اس ’سسٹم‘ کے یومیہ کروڑوں روپے کی گردش میں شامل اصل چہروں، مبینہ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے کردار کے بارے میں آج تک کوئی نہیں بتا سکا۔ یہ کہانی کراچی کی تعمیرات میں گہرے مسائل اور طاقت کے بے رحم کھیل کی تصویر ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ سسٹم کام کر رہا ہے، لیکن کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ اصل کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق سرکاری محکموں میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا۔ (فوٹو: روئٹرز)
تعمیراتی اداروں کی ایسوسی ایشن (آباد) کے سرپرست محسن شیخانی کے مطابق، زمین کی ملکیت کا ریکارڈ مرتب کرنے اور اس کے انتقال کے ذمہ دار بورڈ آف ریوینیو اور کے ڈی اے کے کئی اہلکار اور افسران ’سسٹم‘ میں شامل ہیں۔
’نیب کو موصول ہونے والی 85 فیصد شکایات مدعی کے بغیر ہوتی ہیں‘چیئرمین نیب ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل نذیر احمد بٹ کا ان شکایات کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ کراچی کے بزنس فیسیلیٹیشن سیل کے ذریعے ہر ماہ پانچ ہزار سے زائد شکایات وصول کرتے ہیں، لیکن ان میں سے 85 فیصد مدعی کے بغیر ہوتی ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ ’اب نیب نے افسران کے رویے کی سخت نگرانی شروع کر دی ہے۔‘