انڈیا اس فائنل تک رسائی کا بجا حق دار تھا اور ٹورنامنٹ جیتنے کو جو وسائل اسے دستیاب ہیں، فائنل میں اس کا مقابلہ خواہ کیویز سے ہو، خواہ پروٹیز سے، ٹائٹل کے لیے فیورٹ روہت شرما کی ٹیم ہی ہو گی۔

جو بازی آسٹریلیا نے قسمت کے بل پر کمائی تھی، وہ ہنر کی امتحان گاہ میں کوتاہی کی نذر ہو گئی۔ ایک اور آئی سی سی ٹرافی اپنی الماری میں سجانے کی حسرتِ ناکام لیے کینگروز کو وراٹ کوہلی نے ٹائٹل کی دوڑ سے ہی باہر کر دیا۔
سٹیو سمتھ کو ادراک تھا کہ جس سیمی فائنل تک رسائی وسائل کی بجائے محض قسمت کے مرہون منت رہی تھی، وہاں جیت کے لیے ان کا بنیادی انحصار بھی اپنے بلے بازوں پر ہی رہنا تھا کہ بولنگ ذخائر تو تجربے سے محروم تھے۔
جہاں بیٹنگ میں مچل مارش کی عدم دستیابی کے باوجود آسٹریلیا کو ٹریوس ہیڈ، سٹیو سمتھ، مارنس لبوشین، جاش انگلس، ایلیکس کیری اور گلین میکسویل جیسے مستند نام میسر تھے، وہیں بولنگ اٹیک تجربے کی سند سے عاری تھا۔
سو، یہاں پہلے بیٹنگ کا فیصلہ بجا تھا کہ میچ کے اوائل میں ہی اپنی کمزوری عیاں کرنے کے بجائے پہلے سکور بورڈ کے اعداد سے بولرز کی ناتجربہ کاری کو کچھ تقویت دی جاتی اور پھر بولنگ ڈسپلن سے مضبوط انڈین مڈل آرڈر پر دباؤ کی کوئی ترکیب سجھائی جاتی۔
مگر روہت شرما، شبھمن گل، ورات کوہلی، شریاس ائیّر، کے ایل راہول، ہاردک پانڈیا اور رویندرا جڈیجہ جیسے گھاگ ناموں پر محیط بیٹنگ آرڈر کو جو ہندسہ دباؤ میں لا پاتا، وہ آسٹریلوی بلے بازوں کی پہنچ سے دور رہ گیا۔

انڈین سکواڈ میں ٹیلنٹ کی گہرائی ایسی ہے کہ صرف دو باقاعدہ سپنرز کی موجودگی میں بھی یہ سپن کے 40 بہترین اوورز پیدا کر سکتا ہے جبکہ مسابقت کا معیار بھی ایسا ہے کہ مشّاق بلے بازوں کے ہاتھ بھی کھلنے نہ پائیں۔
یہاں ٹریوس ہیڈ کی ابتدائی یلغار نے سٹیو سمتھ کو وہ پلیٹ فارم مہیا کر دیا تھا جہاں سے وہ اننگز کو طول دے پاتے اور سپن کے خلاف اپنی مہارت سے انڈین عزائم کو بھی قابو میں رکھ سکتے۔
مچل مارش کی غیرموجودگی جہاں اس ٹاپ آرڈر کی کمزوری ہے، وہیں پیٹ کمنز کے بغیر اس بیٹنگ لائن کی گہرائی بھی کم پڑ جاتی ہے کہ لوئر آرڈر کے ساتھ ’اینکر‘ کا کردار نبھانے کو کوئی نہیں رہتا۔
گو میچ کے تناظر میں سمتھ کی یہ اننگز اپنے سٹرائیک ریٹ کے باوجود آسٹریلوی امکانات کو بہت مفید تھی مگر روہت شرما کی حاضر دماغی نے عین درست لمحے پر ان کا امتحان سپن کی بجائے پیس سے لینے کا فیصلہ کیا۔
جو سمت آسٹریلوی اننگز کو اپنے کپتان کے ہمراہ دکھائی دے رہی تھی، ان کی وکٹ گنواتے ہی اپنی راہ کھو بیٹھی اور اپنے ہدف سے پیچھے گر جانا اس کا مقدر ٹھہرا۔

اگرچہ ایلیکس کیری کی اننگز نے اس کی ڈوبتی نبض کو خوب سنبھالا دیا لیکن انڈین فیلڈنگ پر بداعتمادی صرف انھیں ہی نہیں، بالآخر آسٹریلوی ٹیم کو بھی بہت مہنگی پڑی۔ ان کی وکٹ نے متوقع آسٹریلوی مجموعے کو مزید 20 رنز کے خسارے میں ڈال دیا۔
حالیہ ٹورنامنٹ میں دبئی کی پچز کا جو رجحان رہا ہے، اس کے تحت متوقع یہی تھا کہ آخری پاور پلے میں پرانی گیند کے ٹرن اور ریورس سوئنگ کے خلاف رنز کا حصول دشوار رہے گا۔ اپنے بولنگ اٹیک کی ناتجربہ کاری کے ملحوظ تو آسٹریلیا کو یہاں مسابقتی مجموعے سے بھی 20 رنز اوپر درکار تھے۔
گو میچ کے تناظر میں سمتھ کی یہ اننگز اپنے سٹرائیک ریٹ کے باوجود آسٹریلوی امکانات کو بہت مفید تھی مگر روہت شرما کی حاضر دماغی نے عین درست لمحے پر ان کا امتحان سپن کی بجائے پیس سے لینے کا فیصلہ کیاتو پھر ایسے متوسط مجموعے کے دفاع کی قوت کہاں سے آتی کہ مہارت کا جو معیار محمد شامی، کلدیپ یادیو، اکسر پٹیل اور ورون چکرورتی کے یہاں دکھائی دیا، اس کا مقابلہ اکیلے ایڈم زیمپا بھلا کیسے کر پاتے جنھیں نہ تو مچل سٹارک کی تائید حاصل تھی اور نہ ہی پیٹ کمنز یا ہیزل ووڈ کا آسرا؟
اپنی تمام تر ناتجربہ کاری اور کم مائیگی کے باوجود آسٹریلوی بولنگ پھر بھی قابلِ رشک رہی کہ آخر تک میچ کو باندھے رکھا۔ مگر سٹیو سمتھ کی بھروسہ مند قیادت بھی بالآخر وراٹ کوہلی کے سامنے بے بس ٹھہری۔
انڈیا اس فائنل تک رسائی کا بجا حق دار تھا اور ٹورنامنٹ جیتنے کو جو وسائل اسے دستیاب ہیں، فائنل میں اس کا مقابلہ خواہ کیویز سے ہو، خواہ پروٹیز سے، ٹائٹل کے لیے فیورٹ روہت شرما کی ٹیم ہی ہو گی۔