کشمیر: رمضان میں برف کے ریمپ پر نیم برہنہ ماڈلز کا فیشن شو تنقید کی زد میں

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹھنڈ اور برف کے بیچ و بیچ مختصر لباس پہنے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ایک فیشن شو کے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جس پر سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ٹھنڈ اور برف کے بیچ و بیچ مختصر لباس پہنے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے ایک فیشن شو کے مناظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے جس پر سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔

دراصل یہ مناظر اُس فیشن شو کے ہیں جو فرانسیسی میگزین اور فیشن برانڈ ایل کے انڈین چیپٹر نے کشمیر کے سِکی ریزارٹ گلمرگ میں منعقد کیا تھا۔ یہاں ایک طرف نیم برہنہ کپڑوں میں ماڈلز کیٹ واک کر رہے تھے تو دوسری طرف ڈی جے کی موسیقی اور شراب نوشی جاری تھی۔

مگر یہ معاملہ زیادہ حسّاسیت اس لیے اختیار کر گیا کیونکہ یہ ماہِ رمضان میں ہوا جو مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے۔ بعض حلقوں نے اس ردعمل کو ’انتہا پسندانہ‘ اور ’عدم برداشت‘ بھی قرار دیا۔

دریں اثنا شدید عوامی ردعمل کے بعد شو کے آرگنائزرز نے سوشل میڈیا پر سے اس فیشن شو کی ویڈیوز اور تصاویر حذف کر دیں اور معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم محض سِکی ریزارٹ پر فیشن سے متعلق تخلیقی ہنر ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ ہمارا قطعی یہ ارادہ نہیں تھا کہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔‘

وزیر اعلیٰ کی مذمت: ’فیشن شو منعقد کرنے میں حکومت کا کوئی کردار نہیں‘

ایل میگیزین کے بینر تلے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے فارغ فیش ڈیزائنرز شِیوان بھاٹیہ اور نریش کُکریجہ نے گلمرف میں برف کی ریمپ پر یہ شو منعقد کیا تھا۔ انھوں نے اس کی ایک ریل انسٹاگرام پر شئیر کی جس پر کشمیر میں شدید ردعمل سامنے آیا۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس فیشن شو کی مذمت کی ہے۔ ایکس پر ان کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں لکھا ہے کہ ’غم و غصہ قابل فہم ہے۔ جو تصاویر میں نے دیکھی ہیں ان میں مقامی حساسیت کو نظر انداز کیا گیا ہے اور وہ اس مقدس مہینے کے دوران۔‘

انھوں نے کہا کہ مقامی حکام سے تحقیقات کر کے رپورٹ مانگی گئی ہے جس کے بعد کوئی کارروائی کی جائے گی۔

تاہم وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی طرف سے اس کی مذمت اور تحقیقات کے حکم کے بعد منتظمین نے یوٹیوب، فیس بک اور انسٹاگرام سے فیشن شو کی ریلز ڈیلیٹ کر دیں۔

سیاسی اور مذہبی رہنما میرواعظ عمر فاروق نے ایکس پر لکھا کہ ماہ رمضان میں اس طرح کی ’بے حیائی اور فحش سرگرمی سے مسلم اکثریتی کشمیر کی آبادی کے جذبات مجروح ہوگئے ہیں۔‘

میرواعظ نے کہا کہ ’اولیا اللہ اور صوفیوں کی سرزمین پر سیاحت کے نام پر فحاشی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘

دوسری طرف نئی دلّی میں مقیم کشمیر کی رہنے والی انسانی حقوق کی کارکن دیپیکا پُشکر ناتھ نے ایکس پر وزیراعلیٰ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا: ’محکمہ سیاحت کا چارج خود وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے پاس ہے۔ وہ اس سب کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ کشمیری ہندو ہونے کی حیثیت سے مجھے اس شو سے بہت رنج ہوا ہے کیونکہ رمضان کا مہینہ عبادت، توبہ اور خدا کے ذکر کے لئے مخصوص ہے۔ ہماری ثقافت کو بے حیائی سے تباہ نہ کریں۔‘

نئی دلّی میں ہی مقیم ایک اور کشمیری پنڈت صحافی آدتیہ راج کول نے فیشن شو سے متعلق ردعمل کو کشمیریوں کی ’حواس باختگی‘ قرار دیا۔

انھوں نے شو کا ویڈیو ’فیشن فار پیس‘ ہیش ٹیگ کے ساتھ ایکس پر شیئر کرتے ہوئے کہا: ’برف کی پرت پر دلفریب فیشن شو کشمیر کے پُرامن احیاٴ کا اظہار ہے۔ لیکن اسلامی انتہاپسند اور مقامی سیاستدان سراپا احتجاج ہیں۔‘

پیپلز کانفرنس کے سربراہ اور رکن اسمبلی سجاد غنی لون نے بھی فیشن شو پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’میں لبرل رویہ کا حامل ہوں اور باوقار ہم آہنگی میں یقین رکھتا ہوں لیکن یہ اس شو کے لیے صحیح وقت نہیں تھا۔‘

وزیرِ صحت سکینہ ایتو نے بھی اس شو کو ’ناقابل برداشت‘ قرار دیا اور کہا ’یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

دریں اثنا وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے پیر کے روز اسمبلی میں بولتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گلمرگ کے فیشن شو میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک پرائیویٹ فنکشن تھا جو ایک پرائیویٹ ہوٹل کے صحن میں منعقد ہوا۔ حکومت کی کوئی ایجنسی اس میں ملوث نہیں تھی۔‘

مختلف صحت افزا مقامات کی طرح گلمرگ کا بھی الگ انتظامیہ ہے جسے گلمر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کہتے ہیں۔ گلمرگ میں اگر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی ایونٹ منعقد کرنا چاہے تو جی ڈی اے کی اجازت لازمی ہوتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق رمضان کے ابتدائی دنوں کے دوران سرینگر میں حسب روایت چند برقعہ پوش لڑکیاں قران کی کاپیاں تقسیم کر رہی تھیں جنھیں پولیس نے کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا تھا۔ تاہم انھیں ایسی سرگرمی سے گریز کرنے کی تلقین کر کے رہا کر دیا گیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.