کیا روزہ آپ کے کام کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے

اگرچہ سائنسی تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روزہ توجہ اور توانائی بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن اہم سوال یہبھی ہے کہکیا یہ فوائد واقعی روزے ملازمین کے کام کی کارکردگی پر کسی بھی طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں؟
تصویر
Getty Images

ماہ رمضان میں تواتر سے روزے رکھنے کے باعث بہت سے افراد ملازمت یعنی کام کی جگہ پر تھکن اورتوجہ میں کمی جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم وہیں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی زندگی پر روزہ رکھنے کے مثبت اثرات محسوس کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے کام پر اُن کی توجہ میں اضافہ ہوا اور یہ کہ اب وہ اپنے کاموں کو بہتر انداز میں منظّم کر پاتے ہیں۔

ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان سمیت کئی عرب اور مسلم ممالک میں دفتری یا کام کے اوقات کو کم کر دیا جاتا ہے۔ ٹائم ٹیبل میں یہ تبدیلی اکثر ملازمین کے اندر یہ احساس پیدا کر سکتی ہے کہ وہ اپنے روزمرہ کے کاموں کو افطار کے بعد یا بعض اوقات رمضان کے اختتام تک مؤخر کر دیں۔

اس ضمن میں ہونے والی تحقیق نے ظاہر کیا ہے کہ روزہ کیسے ہمارے دماغ اور جسمانی سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اس سب کا براہ راست ہمارے کام کرنے کی کارکردگی سے بھی ہے۔

اگرچہ سائنسی تحقیق نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روزے توجہ مرکوز کرنے اور سرگرمیوں کو منظّم کرنے میں میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس نوعیت کے فوائد ملازمین کی دفتروں میں کارکردگی پر بھی کسی طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں؟

اس رپورٹ میں ہم نے اِسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

روزہ توجہ کو بڑھانے اور دماغی توانائی کو متحرک کرنے کا طریقہ

انسانی دماغ کی شکل
Getty Images

روزے کی حالت میں تھکن اور کمزوری کا احساس پیدا ہونے کے پیچھے کئی جسمانی اور نفسیاتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جیسا کہ خون میں شوگر کی سطح میں کمی، جسم میں پانی کی کمی اور روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی۔

دماغ اور اعصاب کی بیماریوں کی ماہر ڈاکٹر مئی بدر الدین نے اس حوالے سے وضاحت کی کہ روزہ دماغ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ یہ دماغی توانائی میں اضافہ، سیکھنے کے عمل کو بہتر بنانے اور توجہ مرکوز کرنے میں مددگاررہتا ہے۔

ماہرین کا یہ خیال اس عام تصور کے مکمل برعکس ہے کہ روزہ رکھنے سے تھکن ہوتی ہے اور ذہنی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئےڈاکٹر بدر الدین نے وضاحت کی کہ روزے کا دماغ پر بہت مثبت اثر پڑتا ہے۔

ان کے مطابق ان اثرات میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ روزہ دماغ کو ’کیٹوجینک‘ (زیادہ چکنائی والی) غذائیت کی حالت میں لے آتا ہے جہاں دماغ توانائی کے لیے کیٹونز پر انحصار کرتا ہے جس سے توجہ اور ذہنی کارکردگی میں نمایاں بہتری آتی ہے۔

کیٹوجینک غذائیت وہ عمل ہوتا ہے جس میں جسم کاربوہائیڈریٹس کے بجائے چربی کو توانائی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

اس کے نتیجے میں کیٹون نامی تیزاب پیدا ہوتے ہیں۔ روزے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھوک اس عمل کو متحرک کرتی ہے اور جسم اندرونی طور پر ان کیٹونز کو پیدا کرتا ہے۔

ڈاکٹر بدر الدین نے یہ بھی بتایا کہ یہ حالت دماغ کو کچھ بیماریوں سے بچانے میں مدد دیتی ہے، خاص طور پر وہ بیماریاں جو اعصابی خلیوں کے بگاڑ سے جڑی ہوتی ہیں جیسے کہ الزائمر۔

ان کے مطابق شکر کی مقدار میں کمی بھی دماغی صحت کو بہتر بنانے اور اس کی عمر بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، روزہ نیورونز (اعصابی خلیوں) کی نشوونما میں معاون عوامل جیسے ’نیرو گروتھ فیکٹر‘ کو بڑھاتا ہے جس کے باعث دماغ میں نئے اعصابی خلیے پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ڈاکٹر بدرنے یہ بھی کہا کہ کئی محققین بشمول غیر مسلم ریسرچرز نے روزے کے اثرات پر تحقیق کی ہے اور اس دوران 10 سے 12 گھنٹے کے روزے پر حاص توجہ مرکوز کی ہے۔

ان مطالعات نے ثابت کیا کہ روزہ دماغ کی عمر، ذہنی صلاحیتوں اور سوچنے سمجھنے کی قوت پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔

2017 میں نیورولوجی بین الاقوامی جریدے میں رمضان کے دوران روزے کے اثرات پر ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں دماغ میں سیروٹونن، ڈوپامائن، اور نیورونز کی نشوونما کے عوامل پر روزے کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ روزے کے دوران سیروٹونن کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ سیروٹونن مزاج کو متاثر کرنے اوراعصابی افعال کو منظم کرنے، دماغی خلیوں کی صحت اور نشوونما کو فروغ دینے اور اعصابی نشوونما کو متحرک کرنے والے عناصر ہیں۔

یہ اضافہ رمضان کے دوران خاص طور پر29ویں دن کے مقابلے میں 14ویں دن زیادہ نمایاں تھا۔ اس حقیقت نے روزے کے ان اعصابی عوامل پر مثبت اثرات کی عکاسی سے متعلق تحقیق کو ثابت کیا۔

روزے کی حالت میں تھکاوٹ اور نڈھال ہونا

ورکرز
Getty Images

راعد خالد ایک فیکٹری کے مالک ہیں اور رمضان میں کام کے دوران انھوں نے اکثر مشاہدہ کیا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران ملازمین کی کارکردگی نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے اور بعض اوقات یہ نصف تک گر جاتی ہے۔ اس میں دفتری اور پیداواری دونوں کارکردگیاں شامل ہیں۔

راعد بتاتے ہیں کہ کام کے اوقات میں کمی کے باوجود مزدوروں کی توانائی اس مہینے میں کم ہی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ غیر حاضری کی شرح میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں پیداوار میں کمی کی وجہ سے گاہکوں کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم نے کام کے اوقات میں رد و بدل کیا ہے اور کچھ شفٹیں شام میں منتقل کی ہیں تاکہ کم از کم ضروری کام مکمل کیا جا سکے۔‘

غیر متوازن خوراک اور کمزوری کی وجوہات

افطار کا خاص اہتمام
Getty Images

دوسری جانب ماہر غزائیت فاطن النشاش روزے کو جسم سے زہریلے مادوں سے پاک کرنے اور خلیات کی تجدید میں مدد دینے پر یقین رکھتی ہیں اور ان کے مطابق روزے کے باعث توجہ اور توانائی میں اضافہ ہوتا ہے۔

تاہم فاطن کہتی ہیں کہ کچھ لوگ رمضان میں تھکن اور توجہ کی کمی محسوس کرتے ہیں جس کی بڑی وجہ غیر صحت بخش غذائی عادات اور طرزِ عمل ہوتے ہیں۔

’مسئلہ رمضان کے دوران ہمارے معمولات کا ہے‘

فاطن النشاش کے مطابق، رمضان کے دوران کچھ افراد کی کارکردگی اور توجہ میں کمی کی بڑی وجہ زیادہ مقدار میں کھانے کا استعمال ہے جن میں خاص طور پر چینی اور چکنائی سے بھرپور غذائیں شامل ہیں جبکہ کھانے کے اوقات کا غیر متوازن ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔

سحری چھوڑنا ایک عام غلطی

ماہرغذائیت فاطن النشاش رمضان میں سحری نہ کھانے کو ایک عام غلطی قرار دیتی ہیں۔

ان کے مطابق سحری دن بھر کے لیے توانائی کا ایک بنیادی ذریعہ ہے، جو جسم کو متحرک اور فعال رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ سحری چھوڑ دیتے ہیں یا فجر کی اذان سے کئی گھنٹے پہلے کھا لیتے ہیں جبکہ بہتر یہی ہے کہ اسے سحری ختم ہونے یعنی اذانِ فجر کے قریب کھایا جائے۔

غیر صحت بخش غذا اور روزے کے فوائد کی نفی

فاطن اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ رمضان میں کھانے کی مقدار اور معیار اکثر غیر صحت بخش ہوتا ہے۔

ان کے مطابق اگرچہ روزہ جسم کو زہریلے مادوں سے پاک کرنے اور خلیات کی تجدید میں مدد دیتا ہے لیکن اگر ہماری خوراک میں غیر صحت مند غذائیں شامل ہوں تو ان فوائد کا حصول مشکل ہو جاتا ہے۔

جب کھانے میں زیادہ تر تلی ہوئی اشیا، کریم سے بھرپورڈشز، چکنائی والے سالن اور زیادہ مقدار میں کھانا شامل ہو تو روزے کے اصل فوائد کبھی حاصل نہیں ہو پاتے۔

چینی کا زیادہ استعمال

فاطن کے مطابق افطار کے بعد چینی کا زیادہ استعمال روزے کے حقیقی فوائد کو کم کر دیتا ہے۔ چینی کی زیادتی نہ صرف جسم کی توانائی پر منفی اثر ڈالتی ہے بلکہ توجہ اور کارکردگی میں بھی کمی کا باعث بنتی ہے۔

پانی کی کمی کا ایک عام مسئلہ

جہاں تک پانی پینے کی بات ہے فاطرزور دیتی ہیں کہ پانی جسم اور دماغ کی صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ جسمانی افعال، توجہ اور توانائی کو بہتر بناتا ہے۔

تاہم رمضان میں بہت سے لوگ وقت کی کمی کی وجہ سے مناسب مقدار میں پانی نہیں پیتے جس سے جسمانی کمزوری اور تھکن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

فاطن زور دیتی ہیں کہ ایک عام غلطی پانی کی جگہ جوسز کا استعمال ہے۔ اگرچہ یہ مشروبات مائع کی شکل میں ہوتے ہیں لیکن یہ کبھی بھی پانی کا متبادل نہیں ہو سکتے کیونکہ ان میں چینی کی زیادہ مقدار ہوتی ہے جو ہماری توجہ اور توانائی دونوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔

مجموعی طور پر روزے کے دوران پانی اور دیگر صحت بخش مائعات کی مناسب مقدار نہ پینے سے جسم خود کو مکمل طور پر متحرک محسوس نہیں کر پاتا۔

فاطن کے مطابق رمضان کے دوران ورزش اور نیند بہت متاثر ہوتی ہے کیونکہ روزے کی حالت میں جہاں جسمانی سرگرمیوں میں نمایاں کمی آتی ہے وہیں کچھ لوگ ورزش کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

’یہاں تک کہ جو لوگ باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتے ہیں وہ زیادہ دیر تک سوتے ہیں جس سے سستی اور تھکاوٹ بڑھتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جہاں تک نیند کا تعلق ہے تو جسم ایک مخصوص نیند کے معمولات کا عادی ہو جاتا ہے اور رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی یہ معمول بدل جاتا ہے۔

ان کے مطابق معمول کے تبدیل ہونے سے ہماری نیند کے اوقات اور معیار متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ملازمت پیشہ افراد رات کو نیند پوری نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں اور آجر سے کام کے اوقات میں تبدیلی کی درخواست بھی کرتے ہیں۔

سگریٹ چھوڑنے اور نکوٹین کم کرنے کا سنہری موقع

جو افراد روزے کے دوران سر درد کا سامنا کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ روزہ نہیں بلکہ نکوٹین اور کیفین کے اچانک ترک کرنے سےسامنے آنے والی علامات ہیں۔

اسی لیے ماہرین رمضان سے پہلے نکوٹین اور کیفین کے استعمال کوبتدریج کم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

فاطن النشاش رمضان کی تیاری کی اہمیت پر بہت زور دیتی ہیں، خاص طور پر وہ افراد جو نکوٹین اور کیفین پر انحصار کرتے ہیں ان کے لیے وہ تجویز کرتی ہیں کہ رمضان سے چند ہفتے پہلے کیفین کی مقدار آہستہ آہستہ کم کی جائے۔

مثلا چائے یا کافی پینے کے کپ اوران کی مقدار کم کر دی جائے اور اس کے وقت میں تاخیر کی جائے تاکہ جسم اس تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھال سکے۔

فاطر رمضان کے مہینے کو سگریٹ نوشی چھوڑنے کا سنہری موقع قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق کیفین اور نکوٹین ایک قسم کی لت ہیںجن کا اچانک چھوڑنا مشکل ہو سکتا ہے، اس لیے ان کا استعمال رمضان سے پہلے بتدریج کم کرنا زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔

دفتر کے دوران کام
Getty Images

بہت سی ادارے اور کمپنیاں ماہ رمضان میں ملازمین کی کارکردگی کو برقرار رکھنے پر توجہ دیتی ہیں تاکہ کام کا تسلسل قائم رہے چاہے ان کمپنیوں کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو۔

ہیومن ریسورس اور پیشہ ورانہ ترقی کے ماہر محمد حازن نے اس حوالے سے بتایا کہ کمپنیوں میں پیداواری عمل جاری رکھنے کے لیے رمضان کے مہینے کی خصوصی نوعیت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ چاہے کوئی کمپنی کا مالک ہو، مینیجر ہو یا ہیومن ریسورس کا ملازم، سب کے معاملے کو انفرادی سطح پر سمجھا ضروری ہے۔

حازن مزید کہتے ہیں کہ رمضان میں کام کے اوقات میں رد و بدل ضروری ہے اس کے لیے ملازمین کی نیند اور جاگنے کے معمولات کو مدنظر رکھتے ہوئے لچکدار نظام اوقات اپنانا چاہیے۔

بہتر پیداوار کے لیے ضروری اقدامات کے حوالے سے محمد حازن زور دیتے ہیں کہ روزے کے دوران طویل میٹنگز سے گریز کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ روزے کو مزید مشکل بنا سکتے ہیں۔

حازن کے مطابق دن کے ابتدائی اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام مکمل کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت ملازمین کی توانائی زیادہ ہوتی ہے۔

رمصان کے دوران غیر حاضری اور تاخیر بھی ایک اہم مسئلہ ہے تاہم حازن اسے رمضان کے دوران ایک عام رجحان قرار دیتے ہیں۔

وہ تجویز کرتے ہیں کہ کمپنیوں کو غیر حاضری یا تاخیر کی وجوہات کا تجزیہ کر کے کاموں کی مناسب تقسیم کرنی چاہیے اور ملازمین کو وقت کی پابندی کی ترغیب دینے کے لیے مراعات فراہم کرناچاہییں۔

حازن کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاپرواہی کے معاملات میں حد سے زیادہ نرمی سے گریز کرنا چاہیے اور اگر تاخیر یا کوتاہی جان بوجھ کر کی جا رہی ہو تو اس کے خلاف ضروری اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

صنعتی کمپنیوں سے متعلق حازن کہتے ہیں کہ وہ رمضان میں ملازمین کی ضروریات کے مطابق کام کے اوقات کو ایڈجسٹ کرتی ہیں۔

وہ کچھ کمپنیوں کے اس تجربے کو بھی سراہتے ہیں، جہاں کارکردگی کی بنیاد پر کام کے اوقات کم کیے جاتے ہیں اور اس کے باوجود پیداوار میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آتی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.