بلوچستان میں شدت پسندوں کا ٹرین پر حملہ: بی ایل اے کیا ہے اور اس کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟

بی ایل اے گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ سے بلوچستان میں متحرک ہے لیکن حالیہ برسوں میں عسکریت پسند تنظیم اور اس کے ذیلی گروہ مجید بریگیڈ کے حملوں میں وسعت اور شدت نظر آئی۔
بلوچستان
Getty Images
بلوچستان میں منظم اور ایک فلسفے کے تحت عسکریت پسندی کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا

پاکستان کے صوبے بلوچستان میں کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے درۂ بولان میں کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین کوروک کر مسافروں کو یرغمال بنا لیا ہے۔

سکیورٹی ذرائع نے ٹرین پر حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ شدت پسندوں نے منگل کو ڈھاڈر کے مقام پر ٹرین پر حملہ کیا اور وہاں واقع ایک سُرنگ میں اسے روک کر مسافروں کو یرغمال بنالیا۔

دوسری جانب بی ایل اے کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ یرغمالیوں میں تمام افراد سرکاری ملازمین ہیں جن کا تعلق سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہے۔

بی ایل اے گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ سے بلوچستان میں متحرک ہے لیکن حالیہ برسوں میں عسکریت پسند تنظیم اور اس کے ذیلی گروہ مجید بریگیڈ کے حملوں میں وسعت اور شدت نظر آئی۔

پاکستان نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بی ایل اے کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے بی ایل اے پر پہلے ہی پاکستان اور امریکہ پابندی عائد کر چکے ہیں۔

بی ایل اے کا قیام

بلوچستان میں عسکریت پسندی کی ابتدا بلوچستان کے پاکستان کے الحاق کے ساتھ ہی ہو گئی تھی جب ریاستِ قلات کے پرنس کریم نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔

اس کے بعد 1960 کی دہائی میں جب نوروز خان اور ان کے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت بھی صوبے میں ایک چھوٹی عسکریت پسند تحریک اٹھی تھی۔

سلیگ ہریسن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے پیچھے شیر محمد عرف جنرل شیروف مری تھے جو کارل مارکس کے نظریات کے پیروکار تھے۔

بلوچستان میں منظم اور ایک فلسفے کے تحت عسکریت پسندی کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا جب بلوچستان کی پہلی منتخب اسمبلی اور حکومت کو معطل کیا گیا۔ اس وقت سردار عطااللہ مینگل صوبے کے وزیر اعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر تھے جن کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے تھا۔

اس وقت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی قیادت میں نواب خیر بخش مری اور شیر محمد عرف شیروف مری کے نام سر فہرست تھے۔ ان دنوں بھی بی ایل اے کا نام منظرِ عام پر آیا تھا۔

بلوچستان
Getty Images
بلوچستان کی پہلی اسمبلی اور حکومت کو صرف 10 ماہ میں برطرف کر دیا گیا تھا

بلوچستان کی پہلی اسمبلی اور حکومت کو صرف 10 ماہ میں برطرف کر دیا گیا تھا اور غوث بخش بزنجو، عطااللہ مینگل اور نواب خیربخش مری سمیت نیشنل عوامی پارٹی کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر حکومت کے خلاف سازش کا مقدمہ چلایا گیا تھا، جسے حیدرآباد سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اقرا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں میں پولیٹیکل سائنس اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر ڈاکٹر رضوان زیب فرائیڈے ٹائمز اخبار میں اپنے ٘مضمون ’دا روٹس آف رزنمنٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ صوبے میں حکومت کی برطرفی کے چھ ہفتے بعد حکومتی فورسز اور قافلوں پر حملے شروع ہو گئے تھے۔ 18 مئی 1973 کو ایک اہم حملہ ہوا جب تندوری کے مقام پر دیر اسکاؤٹس کو نشانہ بنایا گیا، عسکریت پسندوں کی خاص طور پر موجودگی ساراواں، جھالاواں اور مری بگٹی ایریا میں تھی۔

ان کے مطابق جولائی 1974 تک عسکریت پسند کئی سڑکوں کا کنٹرول حاصل کر چکے تھے اور ملک کے دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا تھا۔ ٹرین سروس بھی متاثر ہوئی تھی۔

صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ قلات اور خصدار سے لے کر لسبیلہ تک وسطی بلوچستان میں مینگل حاوی تھے۔

منظر نامے میں اس وقت تبدیلی آئی جب پاکستان ایئر فورس نے تین ستمبر 1974 کو چمالنگ پر حملہ کیا، جس میں 125 عسکریت پسند ہلاک ہو گئے اور 900 کے قریب افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور فوجی آمر ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماﺅں سے مذاکرات کے نتیجے میں مسلح بغاوت کے خاتمے کے بعد بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی۔

بی ایل اے کا دوسرا جنم

نواب خیر بخش مری افغانستان چلے گئے ان کے ساتھ مری قبائل کے افراد کی بھی ایک بڑی تعداد نے وہاں رہائش اختیار کرلی۔

نواب خیر بخش مری وہاں ’حق توار‘ کے نام سے سٹڈی سرکل چلاتے تھے۔ بعد میں جب افغانستان میں طالبان حکومت آگئی تو وہ پاکستان واپس آگئے اور انھوں نے یہاں بھی ’حق توار‘ سٹڈی سرکل کا سلسلہ جاری رکھا، جس سے متاثر ہوکر کئی نوجوان اس میں شامل ہوئے جن میں استاد اسلم اچھو بھی شامل تھے جو بعد میں بی ایل اے کے کمانڈر بنے۔

سنہ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن صورتحال اس وقت سنگین ہوئی جب دسمبر 2005 میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے کوہلو کے دورے کے دوران راکٹ داغے گئے اور اس کے بعد فرنٹیئر کور کے ایک ہیلی کاپٹر پر مبینہ طور پر فائرنگ ہوئی۔

کوہلو نواب خیر بخش مری کا آبائی گاؤں ہے اور یہاں جلسہ عام میں جب مشرف پر حملہ ہوا تو اس کے بعد وہاں آپریشن کا آغاز ہوا تھا۔

اس وقت نواب خیر بخش مری کے أفغانستان میں مقیم بیٹے بالاچ مری کا نام بی ایل اے کے کمانڈر کے طور پر سامنے آنے لگا۔ نواب اکبر بگٹی جب پہاڑوں پر گئے تو بالاچ مری ان کے ساتھ رابطے میں رہے۔

نواب اکبر بگٹی
Getty Images
نواب اکبر بگٹی جب پہاڑوں پر گئے تو بالاچ مری ان کے ساتھ رابطے میں رہے

سنہ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بی ایل اے کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا اور حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے بالاچ مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جاتا رہا۔

21 نومبر سنہ 2007 کو بالاچ مری افغانستان میں ایک سڑک کے قریب ایک مبینہ آپریشن کے دوران مارے گئے۔

بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے برطانیہ میں مقیم ان کے بھائی نوابزادہ ہربیار مری کو بی ایل اے کا سربراہ قرار دیا جانے لگا تاہم ہربیار مری کی جانب سے ان دعوؤں کو سختی کے ساتھ مسترد کر دیا گیا تھا۔

بی ایل اے کی قیادت سرداروں سے متوسط طبقے تک کیسے پہنچی؟

بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد بی ایل اے کی قیادت کے حوالے سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے حربیار مری کا نام آتا تھا اور انھیں لندن میں گرفتار بھی کیا گیا لیکن بعد میں انھیں رہا کر دیا گیا۔

اسی عرصے میں حربیار مری اور ان کے چھوٹے بھائی مہران عرف زامران مری میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے لگیں، جس کے بعد مہران نے اپنی راہیں الگ کردیں اور یوں بی ایل اے کی قیادت سردار مری خاندان سے متوسط طبقے کے نوجوانوں کے پاس آگئی۔

ان نوجوانوں میں سرِ فہرست استاد اسلم عرف اچھو تھے، جو مجید بریگیڈ اور فدائی مشنز میں جدت اور شدت کی بڑی وجہ بنے اور وہ بلوچ شدت پسندی کو پہاڑوں سے شہروں بلخصوص کراچی تک لے آئے۔

بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی وہ خود اسلم بلوچ کے بیٹے نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب کیا تھا جس میں چینی کمپنی کو ٹارگٹ کیا گیا تھا۔

فدائی حملوں کا رجحان

سنہ 2013 میں چین پاکستان اقتصادی راہدری کا قیام عمل میں آیا اور بلوچستان بالخصوص گودار بندرگاہ کو اس کا حصہ بنایا گیا۔ اس کے بعد مسلح جماعتوں نے چینی مفادات کو اپنا ہدف بنانا شروع کر دیا۔

مجید بریگیڈ کے خودکش بمباروں نے سنہ 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ کو نشانہ بنایا اور اسی سال دسمبر میں قندھار میں اسلم اچھو ایک حملے میں ہلاک ہوگئے۔

استاد اسلم کی ہلاکت کے بعد قیادت بشیر زیب کے پاس آئی جو بی ایس او کے چیئرمین رہے چکے تھے، ان کی قیادت میں بھی فدائی حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور اس میں خواتین کی شرکت بھی نظر آنے لگی۔

سنہ 2019 میں گوادر میں واقع پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ کیا گیا اور 2020 میں کراچی میں واقع پاکستان سٹاک ایکسچینج پر فدائی حملہ کیا گیا۔

2022 میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون نے چینی کنفیوشس سینٹر کے اساتذہ پر خودکش حملہ کیا۔

بشیر زیب کی قیادت میں جہاں سوشل میڈیا پر بی ایل اے اور اس کی ذیلی تظیموں کا پروپیگنڈا بڑھا، وہیں اس کے اہداف میں بھی اضافہ ہوا۔

سنہ 2023 میں تربت کے علاقے میں سمیعہ قلندرانی نامی خاتون نے ایف سی کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔ سمیعہ اسلم اچھو کے بیٹے ریحان کی منگیتر تھیں۔ اگلے ہی برس ماہل بلوچ نامی خاتون نے بیلہ میں ایف سی کے کیمپ پر خودکش حملہ کیا تھا۔

بلوچستان
Getty Images

دیگر مسلح تنظیموں سے اتحاد

بی ایل اے ’بلوچ راجی آجوئی سنگر‘ یا براس نامی بلوچ شدت پسند تنظیموں کے ایک اتحاد کا بھی حصہ بنی تھی۔

براس کے قیام کا باضابطہ اعلان 10 نومبر 2018 کو کیا گیا تھا، جس میں ابتدائی طور پر بی ایل اے، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور بلوچ ریپبلکن گارڈز (بی آر جی) شامل تھیں۔

بعد ازاں 21 مئی 2019کو بلوچ ریپبلکن آرمی بھی اس اتحاد کا حصہ بنی۔

کچھ وقت بعد جب بی آر اے اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (مرید) کے دھڑوں کا انضمام عمل میں آیا اور اس کا نیا نام بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے) رکھا گیا تو بی این اے بھی براس کا حصہ بن گئی۔

بعد میں بی این اے تحلیل ہو گئی اور اس کے جنگجو براس کی مختلف اتحادی تنظیموں میں شامل ہو گئے۔

براس نے حال ہی میں ایک مشترکہ تنظیم بنانے کا اعلان کیا ہے جس میں مرکزی کردار بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ کے پاس ہے۔

جیمز ٹاؤن فاؤنڈیشن کے لیے اپنی ریسرچ پیپر میں عبدالباسط لکھتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کے پاس اعلیٰ درجے کے ہتھیار موجود ہیں جن میں دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات (IED)، اینٹی پرسنل اور اینٹی ٹینک بارودی سرنگیں، دستی بم، راکٹ سے چلنے والے دستی بم (RPGs) اور مختلف خودکار ہتھیار جیسے M4 رائفلز کے ساتھ ساتھ BM-12، MM-12، MM012، MM012، MM-12، MM-12، راکٹ 12 اور دیگر خودکار ہتھیار شامل ہیں۔

ان کے مطابق مجید بریگیڈ کے عسکریت پسندوں کے پاس خودکش جیکٹ بنانے کے لیے C4 جیسے جدید ترین دھماکہ خیز مواد تک رسائی ہے۔

اگرچہ مجید بریگیڈ تیزی سے بی ایل اے کا مہلک بازو بنتا جا رہا ہے لیکن مجید بریگیڈ میں شامل ہونے کے لیے بی ایل اے کا رکن ہونا شرط نہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.