جعفر ایکسپریس پر حملے میں زندہ بچ جانے والے ڈیرہ غازی خان کے رہائشی اسامہ خلیل نے اردو نیوز سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے حملے کے بعد کی تفصیلی کہانی بیان کی۔
انہوں نے بتایا کہ ’حملہ آور مسافروں کو ایک ایک کرکے قتل کر رہے تھے۔ میرے قریب جتنے افراد تھے سب کو مار دیا گیا، جب میری باری آئی تو انہوں نے شناختی کارڈ طلب کیا جس پر ایک خلیجی ملک کا پتہ درج تھا۔‘
’میرے ساتھ ایک بزرگ سرائیکی بیٹھے تھے جو ٹرین پر حملے کے وقت گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ وہ کل سے شدید تکلیف سے کراہ رہے تھے۔‘
اسامہ خلیل کا کہنا تھا کہ ’حملہ آوروں نے مجھے یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میں اس زخمی بزرگ کو لے جاؤں۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک اور ضعیف شخص کو بھی چھوڑ دیا۔‘
’میں زخمی بزرگ کو نہیں جانتا تھا لیکن وہ چلنے کے قابل نہیں تھے۔ ان کے دونوں پاؤں میں گولیاں لگی تھیں اس لیے میں نے انہیں کندھوں پر اٹھایا اور طویل سفر کے بعد سکیورٹی اہلکاروں تک پہنچا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دوسرے بزرگ شخص کمزوری کے باعث پیچھے رہ گئے تھے اور جب میں نے انہیں بچانے کے لیے واپس جانے کی کوشش کی تو سکیورٹی اہلکاروں نے منع کر دیا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔‘
’ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں‘
اسامہ خلیل کے مطابق زخمی بزرگ اور شناختی کارڈ پر غیرملکی پتہ ہونے کی وجہ سے اُن کی جان بچی۔ انہوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ پر منظر انتہائی ہولناک تھا، حملہ آوروں نے درجنوں افراد کو بے رحمی سے قتل کر دیا تھا اور ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
عینی شاہد کے مطابق حملے کے وقت حملہ آوروں کی تعداد کافی زیادہ تھی، تاہم چند گھنٹے بعد مغرب سے قبل ان میں سے بیشتر پہاڑوں کی طرف نکل گئے اور اپنے ساتھ کچھ مسافروں کو بھی لے گئے۔ پیچھے چند ہی حملہ آور رہ گئے جنہوں نے جیکٹیں پہن رکھی تھیں اور ان کے پاس بھاری اسلحہ موجود تھا۔
’پیچھے رہ جانے والے حملہ آوروں کے پاس دستی بم، کلاشنکوف اور دوسرا جدید اسلحہ تھا‘ (فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں نے یرغمالیوں کو یہ کہہ کر الگ الگ ٹولیوں میں تقسیم کیا کہ ’سرائیکی الگ ہو جاؤ، پنجابی الگ ہو جاؤ‘۔
’اسی طرح فوجی اور پولیس اہلکاروں کو علیحدہ کر دیا گیا۔ پھر زیادہ تر کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں صبح تک ٹرین سے باہر قریبی پہاڑ پر بٹھا دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پوری رات ہم نے بہت مشکل سے گزاری، اس دوران کچھ افراد نے بھاگنے کی کوشش کی تو ان پر بھی فائر کھول دیا گیا۔
’پیچھے رہ جانے والے حملہ آوروں کے پاس دستی بم، کلاشنکوف اور دوسرا جدید اسلحہ تھا۔ جب سکیورٹی فورسز پیش قدمی کی کوشش کرتیں یا فضا میں ڈرون اور ہیلی کاپٹر نزدیک آجاتے تو وہ یرغمالیوں کو مارنا شروع کر دیتے۔‘
انہوں نے کہا کہ حملہ آور انتہائی بے رحمی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور ہر ایک شخص پر بھی برسٹ خالی کر رہے تھے۔ایک شخص پر پورا برسٹ خالی کررہے تھے۔ وہ بار بار یہی کہہ رہے تھے کہ ’ہم یہاں زندہ واپس جانے کے لیے نہیں آئے، اگر حکومت نے ہماری بات نہ مانی تو سب کو مار دیں گے۔‘
اسامہ خلیل نے مزید بتایا کہ وہ خلیجی ملک میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں سے ڈیرہ غازی خان آئے تھے۔ ’میں پنجاب سے اپنے رشتہ داروں کو کوئٹہ لانے کے بعد اکیلا واپس جا رہا تھا۔‘
’کچھ مسافروں کی حالت بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے خراب ہوگئی‘ (فوٹو: اے ایف پی)
بھوک اور پیاس سے یرغمالیوں کی حالت بُری، ’ایک ایک گھونٹ پانی دیتے تھے‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حملے کے وقت میں روزے سے تھا اس کے بعد 24 گھنٹے تک بھوکا پیاسا رہا۔ حملہ آور اپنے ساتھ کھانا وغیرہ بھی لائے تھے اور صرف خود کھا رہے تھے جبکہ یرغمالیوں کو محض ایک ایک گھونٹ پانی دہے رہے تھے۔‘
’کچھ مسافروں کی حالت بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے خراب ہوگئی تو حملہ آوروں نے انہیں اجازت دی کہ وہ ٹرین میں موجود سامان میں سے جو کچھ ملے وہ کھا سکتے ہیں۔‘