پاکستان کی وفاقی حکومت نے ملکی خزانے پر بوجھ سمجھے جانے والے سرکاری اداروں کو ضم یا ختم کرنے کے ساتھ وہاں موجود اضافی سرکاری ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دینے کا منصوبہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا ہے جس پر عملدرآمد کی صورت میں اضافی سرکاری ملازمین کو قبل از وقت ملازمت سے رخصت کیا جائے گا۔لیکن یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں اکثر سامنے آنے والی سکیم گولڈن ہینڈ شیک ہے کیا اور اسے سب سے پہلے کب متعارف کروایا گیا؟گولڈن ہینڈ شیکگولڈن ہینڈ شیک کسی کمپنی اور اُس کے ملازم کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جس کے تحت کمپنی کسی خاص صورتحال یا اپنی پالیسی کے مطابق ملازمین کو قبل از وقت یا مقررہ وقت پر مخصوص مالی پیکج کے ساتھ ملازمت سے رخصت کر دیتی ہے۔عمومی طور پر اس معاہدے کے تحت ملازم کو ملازمت کے حساب سے ایک ساتھ بڑی رقم پر مشتمل پیکج دیا جاتا ہے تاہم ایسے ملازم پیکج لینے کے بعد پنشن، میڈیکل اور دیگر مالی فوائد حاصل کرنے کے اہل نہیں رہتے۔گولڈن ہینڈ شیک کن وجوہات میں دیا جاتا ہے؟پاکستان میں گولڈن ہینڈ شیک کے بارے میں عام تاثر تو یہ ہے کہ شاید حکومت یا سرکاری ادارے صرف خراب معاشی صورتحال میں ملازمین کو نوکری سے نکالنے کے لیے یہ سکیم متعارف کرواتے ہیں تاہم اس حقیقت کے ساتھ مختلف کمپنیاں عام حالات میں بھی ملازمین کو یہ پیشکش کرتی ہیں کہ وہ ایک بڑے مالی فائدے پر مشتمل پیکج قبول کر کے نوکری چھوڑ سکتے ہیں تاہم ملازمین اس پیشکش کو قبول یا مسترد کرنے کے مجاز ہوتے ہیں۔دوسری طرف پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اکثر مالی اخراجات کم کرنے کے لیے مالی سکیم متعارف کرواتی ہیں اور بعض اوقات ملازمین کو جبری طور پر گولڈن ہینڈ شیک کے ساتھ ملازمت سے نکال دیا جاتا ہے۔گولڈن ہینڈ شیک سکیم سب سے پہلے کب متعارف کروائی گئی؟اگر ہم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں گولڈن ہینڈ شیک دینے کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں گولڈن ہینڈ سکیم سب سے پہلے 1960 کے دوران سامنے آئی جب برطانیہ میں مختلف کمپنیوں نے ریٹائر ہونے والے ملازمین کو اس نام کے مالی پیکج کے ساتھ رخصت کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد سے یورپ اور امریکہ میں سرکاری اور نجی شعبوں میں گولڈن ہینڈ شیک کی سکیمیں متعارف کروانے کا رجحان بن گیا۔تاہم دنیا کے برعکس پاکستان میں گولڈن ہینڈ شیک دینے کی روایت نوے کی دہائی میں نجکاری کی پالیسی کے ساتھ پروان چڑھی اور نجی و سرکاری اداروں میں یہ سکیم متعارف کروائی جانے لگی۔لیکن سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ اربوں مالیت کی باقاعدہ گولڈن ہینڈ شیک سکیم سال 2006 میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے دوران سامنے لائی گئی اور درجنوں ملازمین کو ملازمت سے رخصت کیا گیا۔اس کے بعد سال 2008 میں پاکستان سٹیل ملز کی ری سٹرکچرنگ کے دوران بھی ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے تحت ریٹائر کیا گیا۔
پاکستان سٹیل ملز کے ملازمین کو سنہ 2008 میں گولڈن ہینڈ شیک دیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
بعد ازاں 2016 کے اندر پی آئی اے کی نجکاری اور ری سٹرکچرنگ کے تحت ملازمین کو اس سکیم کے تحت ملازمت سے رخصت کیا گیا۔
اسی عرصہ کے دوران پاکستان کے نجی شعبے میں گولڈن ہینڈ شیک سکیم دینے کا رجحان دیکھا گیا اور مختلف بینکوں اور کمپنیوں نے اس سکیم کے تحت ملازمین کو ریٹائر کیا۔اب پاکستان میں نجی و سرکاری شعبے میں گولڈن ہینڈ شیک دینا ایک عام پالیسی بن گئی ہے اور مختلف وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سکیم کے تحت اضافی ملازمین کو قبل از وقت ریٹائر کر دیتی ہیں۔کیا گولڈن ہینڈ شیک سے حکومت اور نجی شعبے کو مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے؟اُردو نیوز نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ماہر معیشت ڈاکٹر اکرام الحق سے رابطہ کیا۔اُنہوں نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت کو گولڈن ہینڈ شیک جیسی سکیمیں متعارف کروانے کی بجائے کی بجائےاداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ گولڈن ہینڈ شیک سے حکومت کو کوئی بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے نہ ملازمین کو۔‘اُن کا کہنا تھا کہ سرکار سے چند ہزار ملازمین کو نوکری سے برخاست کرنے کی بجائے اداروں کی صلاحیت بڑھانے پر کام کرنا چاہیے تاکہ اُنہیں منافع بخش بنایا جا سکے۔اُنہوں نے گولڈن ہینڈ شیک سکیم کے بارے میں اپنے تاثرات میں بتایا کہ ’نیو لبرل اکانومی ماڈل میں ملازمین کو قبل از وقت یا مقررہ وقت پر اچھے انداز میں رخصت کرنے کے لیے اس سکیم کو متعارف کروایا گیا تھا۔‘ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا تھا کہ ’اپنے نام کے برعکس گولڈن ہینڈ شیک میں ملازمین کو زیادہ مالی فائدہ نہیں ملتا ماسوائے ایک ساتھ مخصوص رقم ملنے کے۔‘مزید برآں اُنہوں نے واضح کیا کہ گولڈن ہینڈ شیک کے تحت ملنے والی رقم پر بھی حکومت ٹیکس کاٹتی ہے اور بچ جانے والی رقم ملازمین کو دی جاتی ہے۔