سندھ ہائی کورٹ کا طلاق یافتہ بیٹیوں کو والد کی پینشن میں برابر کا حق دینے کا حکم

image
سندھ ہائی کورٹ نے طلاق یافتہ بیٹیوں کو والد کی پینشن میں برابر کا حق دینے کا حکم دے دیا ہے۔

پیر کو عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’مرحوم والد کی ماہانہ پنشن میں طلاق یافتہ بیٹیوں کو بھی وہی حصہ ملے گا جو غیرشادی شدہ بیٹیوں کو دیا جاتا ہے، اور یہ حق تب تک برقرار رہے گا جب تک وہ دوبارہ شادی نہ کر لیں۔‘

’متعلقہ حکام درخواست گزار ثروت غازی الدین سمیت تمام غیرشادی شدہ، بیوہ اور طلاق یافتہ بیٹیوں کو ان کا جائز حصہ فراہم کریں اور یہ عمل ترجیحی بنیادوں پر چار ماہ کے اندر مکمل کیا جائے۔‘

یہ مقدمہ ایک طلاق یافتہ خاتون ثروت غازی الدین کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیا گیا تھا جن کے والد غازی الدین سنہ 1990 میں کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے اور جنوری 2023 میں وفات پا گئے۔

درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ ’وہ اپنی غیرشادی شدہ بہن کے ساتھ والد کی پنشن میں برابر کی حصے دار ہیں، لیکن انہیں ان کے اس حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘

عدالت نے قانون کے مطابق طلاق یافتہ خواتین کو ان کے حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے احکامات جاری کر دیے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ہما ہارون نے عدالتی فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں طلاق یافتہ خواتین کو نہ صرف سماجی بلکہ مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی خواتین کو شادی ٹوٹنے کے بعد والدین کے گھر واپس آنے کے باوجود پینشن جیسے بنیادی حق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے خاندانوں میں خواتین کی مالی خودمختاری کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہو گا۔‘

اُن کے مطابق پاکستانی معاشرے میں خواتین کو اکثر ان کے وراثتی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

سنہ 2019 میں عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف دو فیصد خواتین کو ان کا وراثتی حق ملتا ہے۔ ایسے میں والد کی پنشن کا تحفظ ایک بیٹی کے لیے معاشی بحران سے نکلنے کا واحد ذریعہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کی اقتصادی شراکت کی شرح پہلے ہی کم ہے۔ پاکستان بیورو برائے شماریت کے مطابق سنہ 2021 میں خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 22.63 فیصد تھی جبکہ مردوں کی شرح 81.1 فیصد رہی۔ بیشتر خواتین خاندانی مدد پر انحصار کرتی ہیں، ایسے میں پینشن کا حق ان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان بیورو برائے شماریت کے مطابق سنہ 2021 میں خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف 22.63 فیصد تھی۔ (فائل فوٹو: یو این وویمن)

قانونی ماہرین نے بھی اس فیصلے کو خواتین کے مالی حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔

قانونی امور کے ماہر ایڈووکیٹ ساجد لطیف نے کہا کہ ’یہ فیصلہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ طلاق یافتہ خواتین کو ان کے بنیادی مالی حقوق سے محروم نہ رکھا جائے۔ اس سے ان خواتین کو مالی استحکام ملے گا جو اکثر شادی کے بعد اپنے حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’خواتین کو اکثر طلاق کے بعد شدید مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور وہ والدین کے گھر واپس آ کر بھی معاشی طور پر غیریقینی کی صورتحال میں رہتی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد ایسی متاثرہ خواتین اپنے حقوق کے لیے قانونی کارروائی کر سکیں گی۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.